آب حیات - مولانا محمد حسین آزاد (مرحوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۴۰

بہت خیال تھا، لیکن اس کے لئے وہ اپنے جی کو جلا کر دل تنگ بھی نہ ہوتے تھے بلکہ ہنسی میں اڑا دیتے تھے۔ ان دونوں باتوں کی سند میں دو خط نقل کرتا ہوں (دیکھو اردوئے معلی کے خطوط)۔ ایک خط میر مہدی صاحب کے نام ہے کہ ایک شریف عالی خاندان ہیں اور اُن کے رشید شاگرد ہیں، دوسرا خط منشی ہرگوپال صاحب تفتہؔ کے نام ہے، جن کا ذکر مجملاً پہلے کیا گیا ہے۔

میر مہدی تم میری عادات کو بھول گئے، ماہ مبارک رمضان میں کبھی مسجد جامع کی تراویح ناغہ ہوئی ہے؟ میں اس مہینہ میں رام پور کیونکر رہتا، نواب صاحب مانع رہے اور بہت منع کرتے رہے، برسات کے آموں کا لالچ دیتے رہے، مگر بھائی میں ایسے انداز سے چلا کہ چاند رات کے دن یہاں آ پہنچا، یکشنبہ کو غرّہ ماہ مقدس ہوا۔ اسی دن سے ہر صبح کو حامد علی خاں کی مسجد میں جا کر جناب مولوی جعفر علی صاحب سے قرآن سنتا ہوں، شب کو جامع مسجد میں جا کر تراویح پڑھتا ہوں، کبھی جو جی میں آتی ہے تو وقتِ صوم مہتاب باغ میں جا کر روزہ کھولتا ہوں، اور سرد پانی پیتا ہوں، واہ واہ کیا اچھی عمر بسر ہوتی ہے (غرہ رمضان سے لے کر یہاں تک فقط شوخی طبع ہے کیوں کہ جو جو باتیں ان فقروں میں ہیں مرزا ان سے کوسوں بھاگتے تھے، یہ خط غدر کے بعد کا ہے، اس وقت یہ باتیں دلی میں خواب و خیال ہو گئی تھیں۔) اب اصل حقیقت سنو، لڑکوں کو ساتھ لے گیا تھا، وہاں انھوں نے میرا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۴۱

ناک میں دم کر دیا، تنہا بھیج دینے میں وہم آیا کہ خدا جانے اگر کوکئی امر حادث ہو تو بدنامی عمر بھر رہے، اس سبب سے جلد چلا آیا، ورنہ گرمی، برسات وہیں کاٹتا۔ اب بشرطِ حیاتِ جریدہ بعد برسات جاؤں گا اور بہت دنوں تک یہاں نہ آؤں گا۔ قرار داد یہ ہے کہ نواب صاحب جولائی ۱۸۵۹ء سے کہ جس کو یہ دسواں مہینہ ہے، سو روپے مجھے ماہ بماہ بھیجتے ہیں۔ اب میں جو وہاں گیا تو سو روپیہ مہینہ بنامِ دعوت اور دیا، یعنی رامپور رہوں تو دو سو روپیہ پاؤں اور دلی رہوں تو سو روپے۔ بھائی! سو دو سو میں کلام نہیں۔ کلام اس میں ہے کہ نواب صاحب دوستانہ و شاگردانہ دیتے ہیں، مجھے نوکر نہین سمجھتے ہیں۔ ملاقات بھی دوستانہ رہی، معانقہ و تعظیم جس طرح احباب میں رسم ہے، وہ صورت ملاقات کی ہے، لڑکوں سے میں نے نذر دلوائی تھی بس بہرحال غنیمت ہے۔ رزق کے اچھی طرح ملنے کا شکر چاہیے۔ کمی کا شکوہ کیا؟ انگریز سرکار سے دس ہزار روپیہ سال ٹھہرے، اس میں مجھ کو ملے ساڑھے سات سو روپیہ سال، ایک صاحب نہ نہ دیئے۔ مگر تین ہزار روپیہ سال، عزت میں وہ پایہ، جو رئیس زادوں کے واسطے ہوتا ہے، بنا رہا۔ خاں صاحب بسیار مہربان دوستان القاب، خلعت سات پارچہ اور جیغہ و سرپیچ و مالائے مروارید۔ بادشاہ اپنے فرزندوں کے برابر پیار کرتے تھے۔ بخشی، ناظر، حکیم، کسی سے توقیر کم نہیں۔ مگر فائدہ وہی قنیل، سو میری جان! یہاں بھی وہی نقشہ ہے، کوٹھری مین بیٹھا ہوں، ٹٹی لگی ہوئی ہے، ہوا آ رہی ہے، پانی کا جھجرا دھرا ہوا ہے۔ حقہ پی رہا ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۴۲

یہ خط لکھ رہا ہوں، تم سے باتیں کرنے کو جی چاہا، یہ باتیں کر لیں۔

خط بنام منشی ہرگوپال تفتہ – بس اب تم سکندر آباد میں رہے، کہیں اور کیوں جاؤ گے، بنک گھر کا روپیہ اٹھا چکے ہو، اب کہاں سے کھاؤ گے میاں! نہ میرے سمجھانے کو دخل ہے نہ تمھارے سمجھنے کی جگہ ہے۔ ایک چرخ ہے کہ وہ چلا جاتا ہے، جو ہونا ہے وہ ہوا جاتا ہے، اختیار ہو تو کچھ کیا جائے۔ کہنے کی بات ہو تو کہا جائے، مرزا عبد القادر بیدلؔ کہتا ہے :

رغبت جاہ چہ و نفرتِ اسباب کدام
زیں ہو سہا بگزر یا نگزر ہیگزرد​

مجھ کو دیکھو کہ نہ آزاد ہوں نہ مقید، نہ رنجور ہوں نہ تندرست نہ خوش ہوں نہ ناخوش نہ مردہ ہوں نہ زندہ، جئے جاتا ہوں، باتیں کئے جاتا ہوں۔ روٹی روز کھاتا ہوں، شراب گاہ بگاہ پئے جاتا ہوں۔ جب موت آئے گی مر بھی رہوں گا۔ نہ شکر ہے نہ شکایت ہے، جو تقریر بہ سبیل حکایت ہے۔

مرزا کے تمام خاندان کا اور بزرگوں کا مذہب سنت و جماعت تھا مگر اہلِ راز اور تصنیفات سے بھی ثابت ہے کہ ان کا مذہب شیعہ تھا اور لطف یہ تھا کہ ظہور اس کا جوشِ محبت میں تھا نہ کہ تبّرا اور تکرار میں، چنانچہ اکثر لوگ انھیں نصیری کہتے تھے اور وہ سُن کر خوش ہوتے تھے۔ ایک اور جگہ کہتے ہیں :

منصور فرقہ علی اللہیاں منم
آوازہ انا اسد اللہ برافگنم​

تمام اقربا اور حقیقی دوست سنت و جماعت تھے لیکن اُن کی اپنایت میں کسی طرح کی دوئی نہ معلوم ہوتی تھی۔ مولٰنا فخر الدین کے خاندان کے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۴۳

مرید بھی تھے۔ دربار اور اہل دربار میں کبھی اس معاملہ کو نہیں کھولتے تھے اور یہ طریقہ دہلی کے اکثر خاندانوں کا تھا۔ تصنیفات اردو میں ۱۸۰۰ شعر کا ایک دیوانِ انتخابی ہے کہ ۱۸۴۹؁ء میں مرتب ہو کر چھپا۔ اس میں کچھ تمام اور کچھ ناتمام غزلیں ہیں، اور کچھ متفرق اشعار ہیں۔ غزلوں کے تخمیناً ۱۵۰۰ شعر، قصیدوں کے ۱۶۲۰ شعر، مثنوی ۳۳ شعر، متفرقات قطعوں کے ۱۱۱ شعر رباعیاں ۱۶، دو تاریخیں جن کے ۴ شعر، جسقدر عالم میں مرزا کا نام بلند ہے۔ اس سے ہزار درجہ معنی میں کلام بلند ہے۔ بلکہ اکثر شعر ایسے اعلٰی درجہ رفعت پر واقع ہوئے ہیں کہ ہمارے نارسا ذہن وہاں تک نہیں پہنچ سکتے۔ جب ان شکایتوں کے چرچے زیادہ ہوئے تو اس ملک بے نیازی کے بادشاہ نے کہ اقلیم سخن کا بھی بادشاہ تھا، اپنی غزل کے ایک شعر سے سب کو جواب دے دیا۔

نہ ستائش کی تمنا نہ صلہ کی پروا
نہ سہی گر مرے اشعار میں معنی نہ سہی​

ایک اور رباعی بھی کہی :

مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل
سُن سُن کے اُسے سخنورانِ کامل

آساں کہنے کی کرتے ہیں فرمائش
گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل​

ایک دن اُستاد مرحوم سے مرزا صاحب کے اندازِ نازک خیالی کا اور فارسی ترکیبوں کا اور لوگوں کی مختلف طبیعتوں کا ذکر تھا، میں نے کہا بعض شعر صاف بھی نکل جاتا ہے تو قیامت ہی کر جاتا ہے۔ فرمایا، خوب! پھر کہا کہ جو مرزا کا شعر ہوتا ہے اُس کی لوگوں کو خبر بھی نہیں ہوتی، شعر اُن کے میں تمھیں سناتا ہوں، کئی متفرق شعر پڑھے تھے، ایک اب تک خیال
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۴۴

دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک
میرا سرِ دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا​

اس میں کلام نہیں کہ وہ اپنے نام کی تاثیر سے مضامین و معانی کے ہمیشہ کے شیر تھے، دو باتیں ان کے انداز کے ساتھ خصوصیت رکھتی ہیں، اول یہ کہ معنی آفرینی اور نازک خیال اُن کا شیوہ خاص تھا۔ دوسرے چونکہ فارسی کی مشق زیادہ تھی اور اس سے انھیں طبعی تعلق تھا، اس لیئے اکثر الفاظ اس طرح ترکیب دے جاتے تھے کہ بول چال میں اُس طرح بولتے نہیں لیکن جو شعر صاف صاف نکل گئے ہیں وہ ایسے ہیں کہ جواب نہیں رکھتے، اہل ظرافت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۴۵

بھی اپنی نوک جھوک سے چوکتے نہ تھے، چنانچہ ایک دفعہ مرزا بھی مشاعرہ میں تشریف لے گئے، حکیم آغا جان عیشؔ ایک خوش طبع شگفتہ مزاج شخص تھے، دیکھو صفحہ ۶۱۷، غزل طرحی میں یہ قطعہ پڑھا۔

اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے
مزا کہنے کا جب ہے اک کہے اور دوسرا سمجھے

کلامِ میرؔ سمجھے اور زبانِ میرزا سمجھ
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے​

اسی واسطے اور آخر عمر میں نازک خیالی کے طریقہ کو بالکل ترک کر دیا تھا۔ چنانچہ دیکھو اخیر کی غزلیں صاف صاف ہیں، دونوں کی کیفیت جو کچھ ہے معلوم ہو جائے گی۔ سن رسیدہ اور معتبر لوگوں سے معلوم ہوا کہ حقیقت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۴۶

میں ان کا دیوان بہت بڑا تھا، یہ منتخب ہے، مولوی فضل حق صاحب فاضل بے عدیل تھے۔ ایک زمانہ میں دہلی کی عدالت ضلع میں سررشتہ دار مرزا قتیل صاحب کے شاگرد تھے، نظم و نثر فارسی اچھی لکھتے تھے، غرض کہ یہ دونوں باکمال مرزا صاحب کے دلی دوست تھے۔ ہمیشہ باہم دوستانہ جلسے اور شعر و سخن کے چرچے رہتے تھے، انھوں نے اکثر غزلوں کو سُنا اور دیوان کو دیکھا تو مرزا صاحب کو سمجھایا کہ یہ شعر عام لوگوں کی سمجھ میں نہ آئیں گے، مرزا نے کہا اتنا کچھ کہہ چکا، اب تدارک کیا ہو سکتا ہے۔ انھوں نے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۴۷

کہا کہ خیر ہوا سو ہوا، انتخاب کرو، اور مشکل شعر نکال ڈالو، مرزا صاحب نے دیوان حوالہ کر دیا۔ دونوں صاحبوں نے دیکھ کر انتخاب کیا۔ یہی وہ دیوان ہے جو کہ آج ہم عینک کی طرح آنکھوں سے لگائے پھرتے ہیں۔

عود ہندی : کچھ تقریظیں کچھ اور نثریں اور خطوط ہیں۔ اکثر خطوں میں ان لوگوں کے جواب ہیں، جنھوں نے کسی مشکل شعر کے معنی پوچھے یا کوئی امر تحقیق طلب فارسی یا اردو کا دریافت کیا۔

اردوئے معلٰی : ۱۲۸۵ھ ۱۸۶۹ء – چند شاگردوں اور دوستوں نے جس قدر اردو کے خطوط ان کے ہاتھ آئے ایک جگہ ترتیب دیئے اور اس
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۴۸

مجموعہ کا نام مرزا نے خود اُردوئے معلٰی رکھا، ان خطوط کی عبارت ایسی ہے گویا آپ سامنے بیٹھے گل افشانی کر رہے ہیں، مگر کیا کریں کہ ان کی باتیں بھی خاص فارسی کی خوش نما تراشوں اور عمدہ ترکیبوں سے مرصع ہوتی تھیں۔ بعض فقرے کم استعداد ہندوستانیوں کے کانوں کو نئے معلوم ہوں تو وہ جانیں، یہ علم کم کم رواجی کا سبب ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں "کیا جگر خون کُن اتفاق اب و رنگ درزی کی تقصیر معاف کیجیے۔ پس چاہیے کول کی ارامش کا ترک کانا، اور خواہی نخواہی بابو صاحب کے ہمراہ رہنا، یہ رتبہ میری ارزش کے فوق ہے۔ سرمایہ نازش قلمرو ہندوستان ہو۔" بعض جگہ خاص محاورہ فارسی ترجمہ کیا ہے۔ جیسے میرؔ اور سودا وغیرہ استادوں کے کلام میں لکھا گیا ہے۔ چنانچہ انہی خطوں میں فرماتے ہیں۔ "اس قدر عذر چاہتے ہو۔" یہ لفظ اُن کے قلم سے اس واسطے نکلا کہ عذر خواستن جو فارسی کا محاورہ ہے وہ اس باکمال کی زبان پر چڑھا ہوا ہے، ہندوستانی عذر کرنا یا عذر معذرت کرنی بولتے ہیں۔ نظر اس دستور پر اگر کر دیکھو تو مجھے اس شخص سے خس برابر علاقہ عزیز داری کا نہیں، یہ بھی ترجمہ بریں ضابطہ کا ہے۔ منشی نبی بخش تمھارے خط نہ لکھنے کا گلہ رکھتے ہیں۔ گلہ ہا دارندو شکوہ ہا دارندفارسی کا محاورہ ہے۔ کیوں مہاراج کول میں آنا، منشی نبی بخش کے ساتھ غزل خوانی کرنا ! اور ہم کو یاد نہ لانا! یاد آوردن خالص ایران کا سکہ ہے، ہندوستانی یاد کرنا بولتے ہیں۔ جو آپ پر معلوم ہے، وہ مجھ پر مجہول در ہے، ہرچہ برشما منکشف است برمن مخفی نماند۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۴۹

ان خطوں کی طرز عبارت بھی ایک خاص قسم کی ہے کہ ظرافت کے چٹکلے اور لطافت کی شوخیاں اُس میں خوب ادا ہو سکتی ہیں، یہ انہی کا ایجاد تھا کہ آپ مزا لے لیا اور اوروں کو لطف دے گئے۔ دوسرے کا کام نہیں۔ اگر کوئی چاہے کہ ایک تاریخی حال یا اخلاقی خیال یا علمی مطالب یا دنیا کے معاملاتِ خاص میں مراسلے لکھے تو اس انداز میں ممکن نہیں۔ اس کتاب میں چونکہ اصلی خط لکھے ہیں، اس لئے وہ ان کی ظاہر و باطن کی حالت کا آئینہ ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے غم و الم ہمیشہ انھیں بتاتے تھے، اور وہ علّو حوصلہ سے ہنسی ہی میں اڑاتے تھے۔ پورا لطف ان تحریروں کا اُس شخص کو آتا ہے کہ جو خود اُن کے حال سے اور مکتوب الیہوں کی چال ڈھال سے اور طرفین کے ذاتی معاملات سے بخوبی واقف ہو۔ غیر آدمی کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ اس لئے اگر ناواقف اور بے خبر لوگوں کو اس میں مزہ نہ آئے تو کچھ تعجب نہیں۔

اس کتاب میں قلم، التماس کو مؤنث، پنشن، بیداد، بارک کو مذکر فرمایا ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں "میرا اردو بہ نسبت اوروں کے فصیح ہو گا۔"

لطائف غیبی : اس رسالہ میں منشی سعادت علی کی طرف روئے سخن ہے۔ اگرچہ اس کے دیباچہ میں سیف الحق کا نام لکھا ہے۔ مگر اندازِ عبارت اور عبارت کے چٹکلے صاف کہتے ہیں کہ مرزا ہیں، وہ درحقیقت وہی میاں داد خاں ہیں جن کے نام چند رقعے مرزا صاحب کے اردوئے معلٰی میں ہیں۔ چنانچہ ایک رقعہ میں انھیں فرماتے ہیں کہ صاحب میں نے تم کو سیف الحق
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۵۰

کا خطاب دیا" تم میری فوج کے سپہ سالار ہو۔

تیغ تیز : مولوی احمد علی پروفیسر مدرسہ ہگئی نے قاطع برہان کے جواب میں موید البرہان لکھی تھی، اس کے بعض مراتب کا جواب مرزا صاحب نے تحریر فرما کر تیغ تیز نام رکھا۔

ساطع برہان کے اخیر میں چند ورق سید عبد اللہ کے نام سے ہیں وہ بھی مرزا صاحب کے ہیں۔ (اوجؔ تخلص، عبد اللہ خاں نام، ۴۰، ۵۰ برس کے مشاق تھے۔ ایسے بلند مضمون اور نازک خیال پیدا کرتے تھے کہ قابو میں نہ لا سکتے تھے اور انھیں عمدہ الفاظ میں ایسی چستی اور درستی سے باندھتے تھے کہ وہ مضمون سما بھی نہیں سکتا تھا، اسلئے کبھی تو مطلب کچھ کا کچھ ہو جاتا تھا اور کبھی کچھ بھی نہ رہتا تھا۔ سنگلاخ اور مشکل زمینوں میں غزل کہتے تھے۔ فکر مضامین اور تلاش الفاظ میں تن بدن کا ہوش نہ تھا۔ غور کے ساتھ کاوش کرتے تھے اور آپ ہی آپ مزے لیتے تھے۔ ہونٹ چباتے چباتے ایک طرف سے سفید ہو گیا تھا۔ بعض شعر پڑھ کر کہتے تھے کہ آنکھوں سے لہو ٹپک پڑا تھا۔ جب یہ شعر کہا تھا۔ بعض یہ کہتے تھے کہ ۶ مہینے تک برابر پڑھتے رہے، پڑھتے اس زور شور سے تھے کہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ مشاعروں میں غزل سناتے تھے تو صف مجلس سے گزگز بھر آگے نکل جاتے تھے۔ بعض اشخاص شہر کے اور قلعہ میں اکثر مرشد زادے (شہزادے) شاگرد تھے مگر استاد سب کہتے تھے۔ شعرائے باکمال کو جا کر سناتے تھے اور واہ واہ کی چیخیں اور تعریفوں کے فغان و فریاد لے کے چھوڑتے تھے کیونکہ اسے اپنا حق سمجھتے تھے۔ ذوقؔ مرحوم باوجود کم سخنی اور عادت خاموشی کے خوب خوب اور بہت خوب کہتے اور مکرر پڑھواتے تھے، مسکراتے اور چہرے پر سرور ظاہر کرتے گویا شعر کی کیفیت میں بیٹھے ہیں اور مرزا تو ایسے دل لگی کے مصالح ڈھونڈھتے رہتے ہیں، یہ نعمت خدا دے، شعر سنتے اور کہتے تھے کہ یہ سب کافر ہیں جو تمھیں استاد کہتے ہیں، شعر کے خدا ہو خدا، سجدہ کا اشارہ کرتے اور کہتے سبحان اللہ، سبحان اللہ، میں ان دنوں میں مبتدی شوقین تھا۔ اپنا مشتاق سمجھ کر مجھ سے بہت خوش ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ بس تم ہمارے کلام کو سمجھتے ہو، رستہ میں مل جاتے تو دس قدم دور سے دیکھ کر کھڑے ہو جاتے اور جو نیا شعر کہا ہوتا اُسے وہیں سے اکڑ کر پڑھتے، پھر شعر سنتے سناتے چلتے۔ قلعہ کے نیچے میدان میں گھنٹوں ٹہلتے اور شعر پڑھتے رہتے۔ غریب خانہ پر بھی تشریف لاتے اور پہر بھر سے کم نہ بیٹھتے۔ ایک دن راستہ میں ملے، دیکھتے ہی کہنے لگے، آج گیا تھا اُنھیں بھی سُنا آیا۔ میں کہا کیا؟ کڑک کر کہا :

ڈیڑھ جز پر بھی تو ہے مطلع و مقطع غائب
غالبؔ آسان نہیں صاحب دیوان ہونا​

پھر بیان کیا کہ ایک جلسہ میں مومن خاں بھی موجود تھے۔ مجھ سے سب نے شعر کی فرمائش کی۔ میں نے ناسخؔ کی غزل پر غزل کہی تھی، وہ سنائی، مقطع پر بہت حیران ہوئے۔ ع : کہ" جس کو کہتے ہیں چرخ ہفتم ورق ہے دیوان ہفت میں کا" پوچھنے لگے کہ کیا آپ ساتواں دیوان لکھتے ہیں، میں نے کہا کہ ہاں اب تو آٹھواں دیوان ہے، چپ ہو گئے۔

عمومی واقعات پر اکثر شعر کہا کرتے تھے۔ مومن خاں کو کنور اجیت سنگھ نے ہتنی دی۔ (دیکھو صفحہ ۶۰۱) آپ نے کہا۔

جہنموں میں وہ مومنؔ مکان لیتا ہے
نجومی بن کے جو ہتنی کا دان لیتا ہے​

دلی میں شیریں ایک بڑی نامی رنڈی تھی، وہ حج کو چلی، آپ نے کہا :

بجا ہے شیریں اگر چھوڑ دلی حج کو چلی
مثل ہے نو سو چوہے کھا کے بلّی حج کو چلی​

۲۰، ۳۰ برس ہو گئے، وہ چرچے نہ رہے، اکثر شعر یاد تھے، حافظہ نے بے وفائی کی، شاید حروف و کاغذ وفا کریں، جو یاد ہے لکھ دیتا ہوں اور اُن کی جاں خراشی اور بربادی کا افسوس کرتا ہوں۔

ہیں مچھلیاں بھووں کی چیں پر شکن کے اندر
اُلٹی ہے بہتی گنگا مچھلی بھون کے اندر

دنیائے منقلب کا اُلٹا ہے کارخانہ
ہے مہر شمع و اژدں، اس انجمن کے اندر

میں وہ ہوں نخل جوئے سلسبیل دریائی
ہے میری کشتی گل نارجیل دریائی

مجھے اُترتی ہے گرداب آسماں سے وحی
ہے راہبر خضر جبرئیل دریائی

میں کالا پانی پڑا ناپتا ہوں روز و شب
زمیں کا گز ہے مرا کلکِ میں دریائی

بنا ہے کنگرہ خارد، ملک دشت حصار
مرا ہے آبلہ بُرجِ فصیل دریائی

ہے آبشاری کی مضمونِ آبدار کو دہت
ہمارا خامہ ہے خرطوم فیل دریائی

جہاز ہے مرا اک تار لنگرِ دم پر
مرے عمل میں ہے جر ثقیل دریائی

میں اپنے کوچ کی ہوں موج میں بہا جاتا
حباب دار ہوں کوسِ رحیل دریائی

ہماری موج تلاطم سے آشنائی ہے
یہ آب شور ہے دیتا رفیل دریائی

ہے اوجِ مردمکِ دیدہ، مردم آبی
نکال دیدہ تر سے سبیل دریائی

وھشت مجھے زنجیر پہناتی ہی تھی اکثر
طفلی میں بھی ہنسلی مری جاتی ہی تھی اکثر

جب تھا زرگل کیسئہ غنچہ کی گرد میں
بلبل پڑی گلچھّرے اڑاتی ہی تھی اکثر

دم کا جو دمدمہ یہ باندھے خیال اپنا
بے پل صراط اتریں، یہ ہے کمال اپنا

طفلی ہی سے ہے مجھ کو وحشت سرا سے الفت
سم میں گڑا ہوا ہے آہو کے نال اپنا

کسب شہادت اپنا ہے یاد کس کو قاتل
سانچے میں تیغ کے سر لیتے ہیں ڈہال اپنا

بھارتا ہے جوش عشقِ شیریں و شونمیں رونا
ہے آب شور گریہ آب زلال اپنا

چیچک کے آبلوں کی میں باگ موڑتا ہوں
-----------------------------------

تصنیفات فارسی

فارسی کی تصنیفات کی حقیقت حال کا لکھنا اور اُن پر رائے لکھنی اُردو کے تذکرہ نویس کا کام نہیں ہے، اس لئے فقط فہرست لکھتا ہوں۔

قصائد؛ حمد و نعت آئمہ معصومین کی مدح میں، بادشاہ دہلی، شاہ اودھ، گورنروں اور بعض صاحبان عالیشان کی تعریف میں ہیں۔

غزلوں کا دیوان ۔ مع دیوان قصائد کے ۳۳ و ۳۵ء میں مرتب ہو کر نقلوں کے ذریعہ اہل ذوق میں پھیلا، اور اب تک کئی دفعہ چھپ چکا ہے۔

پنج آہنگ : اس میں پانچ آہنگ کے پانچ باب فارسی کے انشاپردازوں کے لئے جو کہ ان کے انداز میں لکھنا چاہیں ایک عمدہ تصنیف ہے۔

۱۸۶۲ء میں قاطع برہان چھپی، بعد کچھ تبدیلی کے اسی کو پھر چھپوایا اور درفش کادیانی نام رکھا، برہان قاطع کی غلطیاں نکالی ہیں مگر پر فارسی کے دعویداروں سخت حملوں کے ساتھ مخالفت کی۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۵۱

نامہ غالبؔ : قاطع برہان کے کئی شخصوں نے جواب لکھے ہیں۔ چنانچہ میرٹھ میں حافظ عبد الرحیم نام ایک معلم نابینا تھے، انھوں نے اس کا جواب ساطع برہان لکھا، مرزا صاحب نے خط کے عنوان میں حافظ صاحب موصوف کو بطور جواب کے چند ورق لکھے اور ان کا نام نامہ غالب رکھا۔

مہر نیمروز : حکیم احس اللہ خاں طبیب خاص بادشاہ کے تھے۔ انھیں تاریخ کا شوق تھا۔ اور اہلِ کمال کے ساتھ عموماً تعلق خاطر رکھتے تھے۔ مرزا نے ان کے ایما سے اول کتاب مذکور کا ایک حصہ لکھا۔ اسی کے ذریعہ سے ۱۸۵۰؁ء میں باریاب حضور ہو کر خدمت تاریخ نویسی پر مامور ہوئے اور نجم الدولہ دبیر الملک مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ بہادر نظامِ جنگ خطاب ہوا، چنانچہ پہلی جلدیں امیر تیمور سے ہمایوں تک کا حال بیان کر کے مہرنیمروز نام رکھا۔ ارادہ تھا کہ اکبر سے لیکر بہادر شاہ تک کا حال لکھیں اور ماہ نیم ماہ نام رکھیں کہ غدر ہو گیا۔

دستنبو : ۱۱ مئی ۱۸۵۷ء سے یکم جولائی ۱۸۵۸ ء تک حال بغاوت، روداد تباہی شہر، اپنی سرگزشت، غرض کل ۱۵ مہینے کا حال لکھا۔

سید چیں : دو تین قصیدے، چند قطعے، چند خطوط فارسی کے اس میں ہیں کہ دیوان میں درج نہ ہوئے تھے۔

اواخر عمر میں اپنا کلام اپنے پاس نہ رکھتے تھے، اردو کی تصنیفات، نواب حسین مرزا صاحب کے پاس رہتی تھیں اور ترتیب کرتے جاتے تھے۔ فارسی نواب ضیاء الدین احمد صاحب کو بھیج دیتے تھے کہ انھیں نیّر رخشاں تخلص کر کے اپنا شاگرد رشید اور خلیفہ اول قرار دیا تھا، خلیفہ دوم،
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۵۲

نواب علاؤ الدین خاں صاحب تھے۔

ان کے خطوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی انشا پردازی کے شوق کو بڑی کاوش اور عرق ریزی سے نباہتے تھے، اسی واسطے مرنے سے ۱۰، ۱۵ برس پہلے ان کی تحریریں اردو میں ہوتی تھیں، چنانچہ ایک دوست کے خط میں خود فرماتے ہیں۔

بندہ نواز! زبان فارسی میں خطوں کا لکھنا پہلے سے متروک ہے، پیرانہ سری اور ضعف کے صدموں سے محنت پژدہی اور جگر کادی کی قوت مجھ میں نہیں رہی۔ جراءت عزیزی کو زوال ہے اور یہ حال ہے کہ :

مضمحل ہو گئے قویٰ غالبؔ
وہ عناصر میں اعتدال کہاں​

کچھ آپ ہی کی تخصیص نہیں، سب دوستوں کو جن سے کتابت رہتی ہے، اردو ہی میں نیاز نامے لکھا کرتا ہوں۔ جن جن صاحبوں کی خدمت میں آگے میں نے فارسی زبان میں خطوط لکھے اور بھیجے تھے، ان میں سے الی الآن موجود ہیں، اُن سے بھی عند الضرورت اسی زبان مروج میں مکاتیب مراسلت کا اتفاق ہوا کرتا ہے۔

اردوئے معلٰی میں مرزا حاتم علی مہرؔ کو تحریر فرماتے ہیں "میرا ایک قطعہ ہے کہ وہ میں نے کلکتہ میں کہا تھا، تقریب یہ کہ مولوی کرم حسین ایک میرے دوست تھے، انھوں نے ایک مجلس میں چکنی ڈلی بہت پاکیزہ اور بے ریشہ اپنے کف دست پر رکھ کر مجھ سے کہا کہ اس کی تشبیہات نظم کیجئے، میں نے بیٹھے بیٹھے نو، دس شعر کا قطعہ لکھ کر ان کو دیا اور صلہ میں وہ ڈلی اُن سے لی۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۵۳

قطعہ

ہے جو صاحب کے کفِ دست پہ یہ چکنی ڈلی
زیب دیتا ہے اُسے جس قدر اچھا کہیے

خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا کہیے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے

اخترِ سوختہ قیس سے نسبت دیجیے
خالِ مشکینِ رُخِ دلکش لیلےٰ کہیے

حجر الاسود و دیوارِ حرم کیجئے فرض
نافہ آہوئے بیابان ختن کا کہیے

صومعہ میں اسے ٹھہرائیے گر مُہرِ نماز
میکدہ میں اسے خشتِ خم صہبا کہیے

مسی آلودہ سرانگشت حسینان لکھیئے
سر پستانِ پریزاد سے مانا کہیے

اپنے حضرت کے کفِ دست کو دل کیجئے فرض
اور اس چکنی سپاری کو سویدا کہیے​

غرضیکہ بیس بائیس پھبتیاں ہیں، اشعار سب کب یاد آتے ہیں، بھول گیا۔

نواب زینت محل کو بادشاہ کے مزاج میں بہت دخل تھا، مرزا جواں بخت اُن کے بیٹے تھے اور باوجودیکہ بہت مرشد زادوں سے چھوٹے تھے، مگر بادشاہ انہی کی ولیعہدی کے لئے کوشش کر رہے تھے، جب اُن کی شادی کا موقع آیا تو بڑی دھوم کے سامان ہوئے۔ مرزا نے یہ سہرا کہہ کر حضور میں گزرانا۔

سہرا

خوش ہو اے بخت کہ ہے آج ترے سر سہرا
باندھ شہزادہ جواں بخت کے سر پر سہرا

کیا ہی اس چاند سے مکھڑے پہ بھلا لگتا ہے
ہے ترے حسنِ دل افروز کا زیور سہرا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۵۴

سر پر چڑھنا تجھے پھبتا ہے پر اے طرف کلاہ
مجھ کو ڈر ہے کہ نہ چھینے ترا لمبر سہرا

ناؤ بھر کر ہی پروئے گئے ہونگے موتی
ورنہ کیوں لائے ہیں کشتی میں لگا کر سہرا

سات دریا کے فراہم کئے ہوں گے موتی
تب بنا ہو گا اس انداز کا گز بھر سہرا

رُخ پہ دولھا کے جو گرمی سے پسینہ ٹپکا
ہے رگ ابر گہر بار سراسر سہرا

یہ بھی اک بے ادبی تھی قبا سے بڑھجائے
رہ گیا آن کے دامن کے برابر سہرا

جی میں اترائیں نہ موتی کہ ہمیں ہیں اک چیز
چاہیے پھولوں کا بھی ایک مقرر سہرا

جبکہ اپنے میں سماویں خوشی کے مارے
گوندھے پھولوں کا بھلا پھر کوئی کیونکر سہرا

رُخِ روشن کی دمگ گوہر غلطاں کی چمک
کیوں نہ دکھلائے فروغِ مہ و اختر سہرا

تار ریشم کا نہیں ہے یہ رگِ ابر بہار
لائے گا تاب گرانباری گوہر سہرا

ہم سخن فہم ہیں غالبؔ کے طرفدار نہیں
دیکھیں اس سہرے سے کہدے کوئی بہتر سہرا​

مقطع کو سُن کر حضور کو خیال ہوا کہ اس میں ہم پر چشمک ہے، گویا اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس کے سہرے کے برابر کوئی سہرا کہنے والا نہیں۔ ہم نے شیخ ابراہیم ذوقؔ کو استاد اور ملک الشعرا بنایا ہے، یہ سخن فہمی سے بعید ہے بلکہ طرفداری ہے، چنانچہ اُسی دن استاد مرحوم جس حسبِ معمول حضور میں گئے تو بادشاہ نے وہ سہرا دکھایا کہ استاد دیکھیے، انھوں نے پڑھا اور بموجب عادت کے عرض کی، پیر و مرشد درست، بادشاہ نےکہا کہ اُستاد! تم بھی ایک سہرا کہہ دو، عرض کی، بہت خوب، پھر فرمایا کہ ابھی لکھ دو، اور ذرا مقطع پر بھی نظر رکھنا، استاد مرحوم وہیں بیٹھ گئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۵۵

اور عرض کیا۔

سہرا

اے جواں بخت مبارک تجھے سر پر سہرا
آج ہے یمن و سعادت کا ترے سر سہرا

آج وہ دن ہے کہ لائے درِ انجم سے فلک
کشتی زر میں مہِ نو کی لگا کر سہرا

یہ کہے صلّ علیٰ وہ کہے سبحان اللہ
دیکھے مکھڑے پہ جو تیرے مہ و اختر سہرا

تا بنی اور بنے میں رہے اخلاص بہم
گوندھیے سورۃ اخلاص کو پڑھ کر سہرا

دھوم ہے گلشن آفاق میں اس سہریکی
گائیں مرغانِ نواسنج نہ کیونکر سہرا

روئے فرخ پہ جو ہیں تیرے برستے انوار
تار بارش سے بنا ایک سراسر سہرا

تابشِ حُسن سے مانند شعاعِ خورشید
رُخِ پر نور پہ ہے تیرے منّور سہرا

ایک کو ایک پہ تزئیں ہے دمِ آرائش
سر پر دستار ہے دستار کے اوپر سہرا

اک گہر بھی نہیں صد کان گہر میں چھوڑا
تیرا بنوایا ہے لے لے کے جو گوہر سہرا

پھرتی خوشبو سے ہے اتراتی ہوئی باد بہار
اللہ اللہ رے پھولوں کا معطر سہرا

سر پہ طرّہ ہے مزین تو گلے میں بدّھی
کنگنا ہاتھ میں زیبا ہے تو منھ پر سہرا

رونمائی میں تجھے دے مہِ خورشید فلک
کھول دے رُخ کو جو تو منھ سے اٹھا کر سہرا

کثرتِ تار نظر سے ہے تماشائیوں کے
دمِ نظارہ ترے روئے نکو پر سہرا

درِّ خوش آب مضامیں سے بنا کر لایا
واسطے تیرے ترا ذوقؔ شناگر سہرا

جس کو دعوئے ہے سخن کا یہ سنا دے اس کو
دیکھ اس طرح سے کہتے ہیں سخنور سہرا​

اربابِ نشاط حضور میں ملازم تھیں، اسی وقت انھیں ملا، شام تک شہر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۵۶

کی گلی گلی، کوچہ کوچہ میں پھیل گیا، دوسرے ہی دن اخباروں میں مشتہر ہو گیا۔ مرزا بھی بڑے ادا شناس اور سخن فہم تھے، سمجھے تھے کچھ اور ہو گیا کچھ اور، یہ قطعہ حضور میں گزرانا :

قطعہ در معذرت

منظور ہے گزارشِ احوالِ واقعی
اپنا بیانِ حُسنِ طبیعت نہیں مجھے

سو (۱۰۰) برس سے ہے پیشہ آبا سپہگری
کچھ شاعری زریعہ عزت نہیں مجھے

آزادہ رو ہوں اور مرا مسلک ہے صلح کل
ہرگز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے

کیا کم ہے یہ شرف کہ ظفر کا غلام ہوں
مانا کہ جاہ و منصت و ثروت نہیں مجھے

اُستاد شہ سے ہو مجھے پرخاش کا خیال
یہ تاب یہ مجال یہ طاقت نہیں مجھے

جامِ جہاں نما ہے شہنشاہ کا ضمیر
سوگند اور گواہ کی حاجت نہیں مجھے

میں کون ہوں اور ریختہ، ہاں اس سے مُدّعا
جز انبساط خاطِر حضرت نہیں مجھے

سہرا لکھا گیا زرہِ امتشالِ امر
دیکھا کہ چارہ غیر اطاعت نہیں مجھے

مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات
مقصود اس سے قطعِ محبت نہیں مجھے

روئے سخن کسی کی طرف ہو تو رو سیاہ
سودا نہیں، جنوں نہیں، وحشت نہیں مجھے

صادق ہوں اپنے قول کا غالبؔ خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے​

کلکتہ میں بہت سے اہل ایران اور بڑے بڑے علما و فضلا موجود تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۵۷

مگر افسوس ہے کہ وہاں مرزا کے کمال کے لئے ایسی عظمت نہ ہوئی جیسی کہ ان کی شان کے لئے شایاں تھی، حقیقت میں ان کی عظمت ہونی چاہیے تھی، اور ضرور ہوتی، مگر ایک اتفاقی پیچ پڑ گیا۔ اس کی داستان یہ ہے کہ مرزا نے کسی جلسہ میں ایک فارسی غزل پڑھی، اس میں ایک لفظ پر بعض اشخاص نے اعتراض کیا، اور اعتراض بموجب اس قاعدہ کے تھا جو مرزا قتیل نے ایک اپنے رسالہ میں لکھا ہے۔ مرزا نے سن کہا کہ قتیل کون ہوتا ہے؟ اور مجھے مرزا قتیل سے کام کیا؟ ایک فرید آباد کا کھتری تھا، میں اہل زبان کے سوا کسی کو نہیں سمجھتا، وہ لوگ اکثر مرزا قتیل کے شاگرد تھے، اس لئے آئین مہمان نوازی سے آنکھیں بند کر لیں اور جوش و خروش خاص و عام میں پیدا ہوا۔ مرزا کو تعجب ہوا۔ اور اس خیال سے کہ یہ فتنہ کسی طرح فرو ہو جائے، سلامت روی کا طریقہ اختیار کر کے ایک مثنوی لکھی اور اس میں کچھ شک نہیں کہ داد سخن دری کی دی ہے، معرکہ کا سارا ماجرا نہایت خوبی کے ساتھ نظم میں ادا کیا، اعتراض کو سند سے دفع کیا، اپنی طرف انکسار مناسب کے ساتھ معذرت کا حق پورا کیا، لیکن زیادہ افسوس یہ ہے کہ جب مثنوی حریفوں کے جلسہ میں پڑھی گئی تو بجائے اس کے کمال کو تسلیم کرتے یا مہمان سے اپنی زیادتیوں کا عذر کرتے، ایک نے عمداً کہا کہ اس مثنوی کا نام کیا ہے؟ معلوم ہوا کہ باد مخالف، دوسرے نے گلستاں کا فقرہ پڑھا یکے از صلحا را باد مخالف در شکم پیچیدا اور سب نے ہنس دیا۔

لطیفہ : دلی میں مشاعرہ تھا، مرزا نے اپنی فارسی غزل پڑھی، مفتی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۵۸

صدر الدین خاں صاحب اور مولوی امام بخش صہبائی جلسہ میں موجود تھے، مرزا صاحب نے جس وقت یہ مصرع پڑھا۔

ع : بوادی کہ دراں خضر را عصا خفت است​

مولوی صہبائی کی تحریک سے مفتی صاحب نے فرمایا کہ عصا خفت است میں کلام ہے۔ مرزا صاحب نے کہا کہ حضرت! میں ہندی نژاد ہوں، میرا عصا پکڑ لیا، اس شیرازی کا عصا نہ پکڑا گیا۔

ع: دے بجملہ اول عصائے شیخ بہ خُفت​

انھوں نے کہا کہ اصل محاورہ میں کلام نہیں، کلام اس میں ہے کہ مناسب مقام ہے یا نہیں۔

لطیفہ : ایک دفعہ مرزا بہت قرض دار ہو گئے۔ قرضخواہوں نے نالش کر دی، جوابدہی میں طلب ہوئے، مفتی صاحب کی عدالت تھی، جس وقت پیشی میں گئے، یہ شعر پڑھا۔

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایکدن​

مرزا صاحب کو ایک آفت ناگہانی کے سبب سے چند روز جیل خانہ میں اس طرح رہنا پڑا کہ جیسے حضرت یوسف کو زندان مصر میں، کپڑے میلے ہو گئے، جوئیں پڑ گئی تھیں، ایک دن بیٹھے ان میں سے جوئیں چُن رہے تھے، ایک رئیس وہیں عیادت کو پہونچے۔ پوچھا کیا حال ہے، آپ نے یہ شعر پڑھا :

ہم غمزدہ جس دن سے گرفتار بلا ہیں
کپڑوں میں جوئیں بخیوں کے ٹانکوں سے سوا ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۵۹

جس دن وہاں سے نکلنے لگے اور لباس تبدیل کرنے کا موقع آیا تو وہاں کا کرتہ وہیں پھاڑ کر پھینکا اور یہ شعر پڑھا۔

ہائے اس چارہ گر کپڑے کی قسمت غالبؔ
جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا​

حسین علی خاں چھوٹا لڑکا ایک دن کھیلتا کھیلتا آیا کہ دادا جان مٹھائی منگا دو۔ آپ نے فرمایا کہ پیسے نہیں، وہ صندوقچہ کھول کر اِدھر اُدھر پیسے ٹٹولنے لگا، آپ نے فرمایا۔

درم دوام اپنے پاس کہاں
چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں​

پنشن سرکار سے ماہ بماہ ملتی تھی، بغاوت دہلی کے بعد حکم ہوا کہ ششماہی ملا کرے، اس موقع پر ایک دوست کو لکھتے ہیں۔

سِم ہے مردہ کی چھ ماہی ایک
خلق کا ہے اس چلن پہ مدار

مجھکو دیکھو کہ ہوں بقید حیات
اور چھ ماہی ہو سال میں دوبار​

مگر یہ دو شعر حقیقت میں ایک قصیدے کے ہیں، جس کی بدولت بادشاہ دہلی دربار ششماہی تنخواہ کے لئے ماہواری کا حکم حاصل کیا تھا۔ فارسی کے قصائد میں بھی اس قسم کے عزل و نصب انھوں نے اکثر کئے ہیں اور یہ کچھ عجیب بات نہیں، انوری وغیرہ اکثر شعرا نے ایسا کیا ہے۔

لطیفہ : مولوی فضل حق صاحب مرزا کے بڑے دوست تھے، ایک دن مرزا ان کی ملاقات کو گئے، اُن کی عادت تھی کہ جب کوئی بے تکلف دوست آیا کرتا تو خالق باری کا یہ مصرع پڑھا کرتے تھے۔

ع : "بیا برادر آؤ رے بھائی"​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top