صفحہ ۶۵۰
کا خطاب دیا" تم میری فوج کے سپہ سالار ہو۔
تیغ تیز : مولوی احمد علی پروفیسر مدرسہ ہگئی نے قاطع برہان کے جواب میں موید البرہان لکھی تھی، اس کے بعض مراتب کا جواب مرزا صاحب نے تحریر فرما کر تیغ تیز نام رکھا۔
ساطع برہان کے اخیر میں چند ورق سید عبد اللہ کے نام سے ہیں وہ بھی مرزا صاحب کے ہیں۔ (اوجؔ تخلص، عبد اللہ خاں نام، ۴۰، ۵۰ برس کے مشاق تھے۔ ایسے بلند مضمون اور نازک خیال پیدا کرتے تھے کہ قابو میں نہ لا سکتے تھے اور انھیں عمدہ الفاظ میں ایسی چستی اور درستی سے باندھتے تھے کہ وہ مضمون سما بھی نہیں سکتا تھا، اسلئے کبھی تو مطلب کچھ کا کچھ ہو جاتا تھا اور کبھی کچھ بھی نہ رہتا تھا۔ سنگلاخ اور مشکل زمینوں میں غزل کہتے تھے۔ فکر مضامین اور تلاش الفاظ میں تن بدن کا ہوش نہ تھا۔ غور کے ساتھ کاوش کرتے تھے اور آپ ہی آپ مزے لیتے تھے۔ ہونٹ چباتے چباتے ایک طرف سے سفید ہو گیا تھا۔ بعض شعر پڑھ کر کہتے تھے کہ آنکھوں سے لہو ٹپک پڑا تھا۔ جب یہ شعر کہا تھا۔ بعض یہ کہتے تھے کہ ۶ مہینے تک برابر پڑھتے رہے، پڑھتے اس زور شور سے تھے کہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ مشاعروں میں غزل سناتے تھے تو صف مجلس سے گزگز بھر آگے نکل جاتے تھے۔ بعض اشخاص شہر کے اور قلعہ میں اکثر مرشد زادے (شہزادے) شاگرد تھے مگر استاد سب کہتے تھے۔ شعرائے باکمال کو جا کر سناتے تھے اور واہ واہ کی چیخیں اور تعریفوں کے فغان و فریاد لے کے چھوڑتے تھے کیونکہ اسے اپنا حق سمجھتے تھے۔ ذوقؔ مرحوم باوجود کم سخنی اور عادت خاموشی کے خوب خوب اور بہت خوب کہتے اور مکرر پڑھواتے تھے، مسکراتے اور چہرے پر سرور ظاہر کرتے گویا شعر کی کیفیت میں بیٹھے ہیں اور مرزا تو ایسے دل لگی کے مصالح ڈھونڈھتے رہتے ہیں، یہ نعمت خدا دے، شعر سنتے اور کہتے تھے کہ یہ سب کافر ہیں جو تمھیں استاد کہتے ہیں، شعر کے خدا ہو خدا، سجدہ کا اشارہ کرتے اور کہتے سبحان اللہ، سبحان اللہ، میں ان دنوں میں مبتدی شوقین تھا۔ اپنا مشتاق سمجھ کر مجھ سے بہت خوش ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ بس تم ہمارے کلام کو سمجھتے ہو، رستہ میں مل جاتے تو دس قدم دور سے دیکھ کر کھڑے ہو جاتے اور جو نیا شعر کہا ہوتا اُسے وہیں سے اکڑ کر پڑھتے، پھر شعر سنتے سناتے چلتے۔ قلعہ کے نیچے میدان میں گھنٹوں ٹہلتے اور شعر پڑھتے رہتے۔ غریب خانہ پر بھی تشریف لاتے اور پہر بھر سے کم نہ بیٹھتے۔ ایک دن راستہ میں ملے، دیکھتے ہی کہنے لگے، آج گیا تھا اُنھیں بھی سُنا آیا۔ میں کہا کیا؟ کڑک کر کہا :
ڈیڑھ جز پر بھی تو ہے مطلع و مقطع غائب
غالبؔ آسان نہیں صاحب دیوان ہونا
پھر بیان کیا کہ ایک جلسہ میں مومن خاں بھی موجود تھے۔ مجھ سے سب نے شعر کی فرمائش کی۔ میں نے ناسخؔ کی غزل پر غزل کہی تھی، وہ سنائی، مقطع پر بہت حیران ہوئے۔ ع : کہ" جس کو کہتے ہیں چرخ ہفتم ورق ہے دیوان ہفت میں کا" پوچھنے لگے کہ کیا آپ ساتواں دیوان لکھتے ہیں، میں نے کہا کہ ہاں اب تو آٹھواں دیوان ہے، چپ ہو گئے۔
عمومی واقعات پر اکثر شعر کہا کرتے تھے۔ مومن خاں کو کنور اجیت سنگھ نے ہتنی دی۔ (دیکھو صفحہ ۶۰۱) آپ نے کہا۔
جہنموں میں وہ مومنؔ مکان لیتا ہے
نجومی بن کے جو ہتنی کا دان لیتا ہے
دلی میں شیریں ایک بڑی نامی رنڈی تھی، وہ حج کو چلی، آپ نے کہا :
بجا ہے شیریں اگر چھوڑ دلی حج کو چلی
مثل ہے نو سو چوہے کھا کے بلّی حج کو چلی
۲۰، ۳۰ برس ہو گئے، وہ چرچے نہ رہے، اکثر شعر یاد تھے، حافظہ نے بے وفائی کی، شاید حروف و کاغذ وفا کریں، جو یاد ہے لکھ دیتا ہوں اور اُن کی جاں خراشی اور بربادی کا افسوس کرتا ہوں۔
ہیں مچھلیاں بھووں کی چیں پر شکن کے اندر
اُلٹی ہے بہتی گنگا مچھلی بھون کے اندر
دنیائے منقلب کا اُلٹا ہے کارخانہ
ہے مہر شمع و اژدں، اس انجمن کے اندر
میں وہ ہوں نخل جوئے سلسبیل دریائی
ہے میری کشتی گل نارجیل دریائی
مجھے اُترتی ہے گرداب آسماں سے وحی
ہے راہبر خضر جبرئیل دریائی
میں کالا پانی پڑا ناپتا ہوں روز و شب
زمیں کا گز ہے مرا کلکِ میں دریائی
بنا ہے کنگرہ خارد، ملک دشت حصار
مرا ہے آبلہ بُرجِ فصیل دریائی
ہے آبشاری کی مضمونِ آبدار کو دہت
ہمارا خامہ ہے خرطوم فیل دریائی
جہاز ہے مرا اک تار لنگرِ دم پر
مرے عمل میں ہے جر ثقیل دریائی
میں اپنے کوچ کی ہوں موج میں بہا جاتا
حباب دار ہوں کوسِ رحیل دریائی
ہماری موج تلاطم سے آشنائی ہے
یہ آب شور ہے دیتا رفیل دریائی
ہے اوجِ مردمکِ دیدہ، مردم آبی
نکال دیدہ تر سے سبیل دریائی
وھشت مجھے زنجیر پہناتی ہی تھی اکثر
طفلی میں بھی ہنسلی مری جاتی ہی تھی اکثر
جب تھا زرگل کیسئہ غنچہ کی گرد میں
بلبل پڑی گلچھّرے اڑاتی ہی تھی اکثر
دم کا جو دمدمہ یہ باندھے خیال اپنا
بے پل صراط اتریں، یہ ہے کمال اپنا
طفلی ہی سے ہے مجھ کو وحشت سرا سے الفت
سم میں گڑا ہوا ہے آہو کے نال اپنا
کسب شہادت اپنا ہے یاد کس کو قاتل
سانچے میں تیغ کے سر لیتے ہیں ڈہال اپنا
بھارتا ہے جوش عشقِ شیریں و شونمیں رونا
ہے آب شور گریہ آب زلال اپنا
چیچک کے آبلوں کی میں باگ موڑتا ہوں
-----------------------------------
تصنیفات فارسی
فارسی کی تصنیفات کی حقیقت حال کا لکھنا اور اُن پر رائے لکھنی اُردو کے تذکرہ نویس کا کام نہیں ہے، اس لئے فقط فہرست لکھتا ہوں۔
قصائد؛ حمد و نعت آئمہ معصومین کی مدح میں، بادشاہ دہلی، شاہ اودھ، گورنروں اور بعض صاحبان عالیشان کی تعریف میں ہیں۔
غزلوں کا دیوان ۔ مع دیوان قصائد کے ۳۳ و ۳۵ء میں مرتب ہو کر نقلوں کے ذریعہ اہل ذوق میں پھیلا، اور اب تک کئی دفعہ چھپ چکا ہے۔
پنج آہنگ : اس میں پانچ آہنگ کے پانچ باب فارسی کے انشاپردازوں کے لئے جو کہ ان کے انداز میں لکھنا چاہیں ایک عمدہ تصنیف ہے۔
۱۸۶۲ء میں قاطع برہان چھپی، بعد کچھ تبدیلی کے اسی کو پھر چھپوایا اور درفش کادیانی نام رکھا، برہان قاطع کی غلطیاں نکالی ہیں مگر پر فارسی کے دعویداروں سخت حملوں کے ساتھ مخالفت کی۔