صفحہ ۶۰۱
تھے، استاد مرحوم پاس کھڑے تھے۔ انھیں بھی شعر کا شوق تھا اور استاد کے شاگرد تھے۔ ان کی زبان سے یہ مصرع نکلا۔ ع
"چاندنی دیکھے اگر وہ مہ جبیں تالاب پر"
ان سے کہا کہ استاد اس پر مصرع لگائیے۔ انہوں نے فوراً کہا۔ ع
"تابِ عکسِ رخ سے پانی پھیر دے مہتاب پر"
نواب حامد علی خاں کے خسر نواب فضل علی خاں مرحوم بھی محبت و اخلاق سے ملا کرتے تھے۔ ایک دن دیوان خاص میں کھڑے ہوئے شعر سنتے سناتے تھے۔ نواب موصوف نے خواجہ وزیر کا مطلع پڑھا۔
جانور جو ترے صدقہ میں رہا ہوتا ہے
اے شہ حسن وہ چھٹتے ہی ہما ہوتا ہے
استاد مرحوم نے کہا کہ صدقہ میں اکثر کوا چھڑواتے ہیں اس لئے زیادہ تر یہ مناسب ہے۔
زاغ بھی گر ترے صدقہ میں رہا ہوتا ہے
اے شہ حسن وہ چھٹتے ہی ہما ہوتا ہے
(ایسی بہت سے اصلاحیں روز ہوتی تھیں، لکھی جائیں تو ایک کتاب بن جائے۔)
ایک دفعہ قلعہ میں مشاعرہ تھا، حکیم آغا جان عیش (حکیم آغا جان صاحب عیش بادشاہی اور خاندانی طبیب تھے، زیور علم اور لباس کمال سے آراستہ صاحب اخلاق، خوش مذاق، شیریں کلام، شگفتہ مزاج جب دیکھو یہی معلوم ہوتا تھا کہ مسکرا رہے ہیں۔ ساتھ ہی اس کے شعر کا عشق تھا۔ طبیعت ایسی ظریف و لطیف اور لطیفہ سنج پائی تھی کہ جسے شاعری کی جان کہتے ہیں، غزل صفائی کلام شوخی مضامین اور حسن محاورہ سے پھولوں کی چھڑی معلوم ہوتی تھی اور زبان گویا لطائف و ظرائف کی پھلچڑی۔ میں نے دو دفعہ استاد کے ساتھ مشاعرہ میں دیکھا تھا، ہائے افسوس اس وقت کی تصویر آنکھوں میں پھر گئی، قد میانہ، خوش اندام، سر پر ایک ایک انگل بال سفید، ایسی ہی داڑھی، اس گوری سرخ و سفید رنگت پر کیا بھلی معلوم ہوتی تھی۔ گلے میں ململ کا کرتہ جیسے چنبیلی کا ڈھیر پڑا ہنس رہا ہے۔ میں ان دنوں دہلی کالج میں پڑھتا تھا، استاد مرحوم کے بعد ذوق سخن اور ان کےکمال کی کشش نے کھینچ کر ان کی خدمت میں بھی پہنچایا۔ اب ان صورتوں کو آنکھیں ترستی ہیں اور نہیں پاتیں۔ ۱۸۵۷ء کے غدر کے چند روز بعد دنیا سے انتقال کیا، خدا مغفرت کرے۔ ہدہد الشعراء ایک شخص عبد الرحمٰن نامی پورب کی طرف سے دلی میں آئے اور حکیم صاحب کے پاس ایک مکان میں مکتب تھا اسمیں لڑکے پڑھانے لگے۔ حکیم صاحب کے خویش و اقارب میں سے بھی لڑکے وہاں پڑھتے تھے۔ ان میں سے ایک لڑکا سکندر نامہ پڑھا کرتا تھا۔ حکیم صاحب کا معمول تھا آٹھویں ساتویں دن رات کو ہر ایک لڑکے کا سبق سنا کرتے تھے۔ سکندر نامہ کا سبق جو سنا تو عجائب و غرائب مضامین سننے میں آئے، فرمایا کہ اپنے مولوی صاحب کو کسی وقت ہمارے پاس بھیجنا۔ وہ دوسرے ہی دن تشریف لائے۔ حکیم صاحب آخر حکیم تھے، ملاقات ہوئی تو اول قیافہ سے پھر گفتگو نبض دیکھی، معلوم ہوا کہ شدید سے زیادہ مادّہ نہیں مگر یہ طرفہ معجون انسان تھوڑی سی ترکیب میں رونق محفل ہو سکتا ہے، پوچھا کہ آپ کچھ شعر کا بھی شوق رکھتے ہیں؟ مولوی صاحب نے کہا کہ کیا مشکل بات ہے! ہو سکتا ہے، حکیم صاحب نے کہا کہ ایک جگہ مشاعرہ ہوتا ہے، ۸، ۹ دن باقی ہیں۔ یہ طرح مصرع ہے، آپ بھی غزل کہیے تو مشاعرہ میں لے چلیں۔ وہ مشاعرے کو بھی نہ جانتے تھے۔ اس کی صورت بیان کی۔ مولوی صاحب نے کہا کہ اس عرصہ میں بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ غزل کہہ کر لائے تو سبحان اللہ اور مولوی صاحب ہی تخلص رکھا۔ حکیم صاحب کی طبع ظریف کے مشغلہ کو ایسا الّو خدا دے، بہت تعریف کی۔ غزل کی جابجا اصلاحیں دے کر خوب نون مرچ چھڑکا۔ مولوی صاحب بہت خوش ہوئے۔ یہ دیکھ کر حکیم صاحب کو اطمینان ہوا۔ مولوی صاحب کی چگی داڑھی اس پر لمبی اور نکیلی سَر منڈا ہوا اس پر نکّو عمامہ، فقط کٹ بڑھی نظر آتے تھے۔ حکیم صاحب نے کہا کہ شعراء کو تخلص بھی ایسا چاہیے کہ ظریفانہ و لطیفانہ ہو اور خوشنما ہو اور شان و شکوہ کی عظمت سے تاجدار ہو۔ بہتر ہے کہ آپ ہدہد تخلص کریں۔ حضرت سلیمان کا رازدار تھا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔ گام تھا وغیرہ وغیرہ، پنیں و پنہاں مولوی صاھب نے بہت خوشی سے منظور فرمایا۔ مشاعرے کے دن جلسہ میں گئے۔ جب انکے سامنے شمع آئی تو حکیم صاحب نے ان کی تعریف میں چند فقرے مناسب وقت فرمائے۔ سب متوجہ ہوئے۔ جب انہوں نے غزل پڑھی تو تمسخر نے تالیاں بجائیں، ظرافت نے ٹوپیاں اچھالیں اور قہقہوں نے اتنا شور و غل مچایا کہ کسی غزل اتنی تعریف کا جوش نہ ہوا تھا۔ مولوی صاحب بہت خوش ہوئے۔ چند روز اس طرح مشاعرہ کو اور بعض امرا کے جلسوں کو رونق دیتے رہے مگر مکتب کے کام سے جاتے رہے۔ حکیم صاحب نے سوچا کہ ان کے گزارے کے لئے کوئی نسخہ ضرور تجویز کرنا چاہیے۔ ان سے کہا کہ بادشاہ کی تعریف میں ایک قصیدہ کہو، تمھیں ایک دن دربار میں لے چلیں۔ دیکھو رزاق مطلق کیا سامان کرتا ہے۔ قصیدہ تیار ہوا اور حکیم صاحب نے ہدہد کو اڑا کر دربار میں پہنچا دیا۔ افسوس کہ اب نہیں مل سکتا۔ ۴ شعر یاد ہیں۔ شتے نمونہ از خردارے تحفہ احباب کرتا ہوں۔
جو تیری مدح میں میں چونچ اپنی وا کر دوں
تو رشک باغ ارم اپنا گھونسلا کر دوں
جو آ کے ریز کرے میرے آگے مسیقار
تو ایسے کان مردزدوں کہ بے سرا کر دوں
جو سرکشی کرے آگے مرے ہُما آ کر
تو اس کے نوچ کے پر شکل نیولا کر دوں
میں کھانے والا ہوں نعمت کا اور میرے لئے
فلک کہے ہے مقرر میں یا برا کر دوں
بادشاہوں اور امیروں کو مسخرا پن بلکہ زمانہ کی طبیعت کو غذا موافق ہے۔ ظفرؔ تو خود شاعر تھے۔ خطاب عطا فرمایا۔ طائر الارکین شہپر الملک ہدہد الشعرء امنقار جنگ بہادر اور معہ ۷ روپیہ مہینہ بھی عطا کر دیا کہ ان کی شاعری کی بنیاد قائم ہو گئی۔ پھر تو سر پر لمبے لمبے بال ہو گئے، ان میں چنبیلی کا تیل پڑنے لگا۔ داڑھی دو شاخہ ہو کر کانوں سے باتیں کرنے لگی۔
ایک برسات نے ان کا مکان گرا دیا۔ گھونسلے کی تلاش میں بھٹکتے پھرے، مکان ہاتھ نہ آیا۔ حکیم صاھب سے شکایت کی، فرمایا کہ بادشاہی مکانات شہر میں بہتیرے پڑے ہیں، کیا ہدہد کے گھونسلے کو بھی ان میں جگہ نہ ملے گی۔ دیکھو بندوبست کرتے ہیں۔ جھٹ عرضی موزوں ہوئی۔ چند متفرق اشعار اسکے یاد ہیں۔
جز ترے شاہنشہا کہہ کس کے آگے روئیے
کس کو کہیے جا کے یہ غم کو ہمارے کھوئیے
تجھ کو ہے حق نے کیا ملک سخن کا شہسوار
ہیں بجا کرنے سمند طبع کویاں پوئیے
حیف آتا ہے کہ فن شعر میں کیوں کھوئی عمر
کاش کہ ہم سیکھتے اس سے بنانے بورئیے
سنگلاخ ایسی زمیں ہے سوچ اے دل تاکجا
فکر کیجیے صرف اس میں اور پتھر ڈھوئیے
رشتہ عمر شہنشاہ جہاں ہووے دراز
یا خدا کھلتے رہیں دنیا میں جب تک سوئیے
دیدے اس کو بھی زمیں تھوڑی کہ بن گھر گھونسلے
مارتا پھرتا ترا ہدہد ہے ٹاپک ٹوئیے
ایک سال سرکار شاہی کو تنخواہ میں دیر لگی۔ ہدہد نے حکیم صاحب سے شکایت کی۔ یہاں جسطرح امراض شکم کے لئے علاج تھے ہی، اسی طرح بھوک کے تدارک کا بھی نسخہ تیار تھا۔ ایک قطعہ راجہ دیبی سنگھ کی مدح میں تیار ہوا کہ انھیں دنوں میں خانسامانی کی تنخواہ انھیں سپرد ہوئی تھی۔ ۴ شعر اسوقت یاد ہیں، وہی لکھتا ہوں۔
جہاں میں آج دیبی سنگھ تو راجوں کا راجہ ہے
خدا کا فضل ہے جو قلعہ میں تو آ براجا ہے
سلیماں نے ہے تیرے ہاتھ میں دی رزق کی کنجی
تو سرداروں کا سردار اور مہاراجوں کا راجا ہے
شکم اہل جہاں کے سب ہیں شکرانہ بجا لاتے
دمامہ تیرا جا کر گنبد گردوں پہ باجا ہے
کسی کو دے نہ دے تنخواہ تو مختار ہے اس کا
مگر ہدہد کو دیدے کیوں؟ یہی ہدہد کا کھاجا ہے
حکیم صاحب ہمیشہ فکر سخن میں رہتے تھے۔ اس میں جو ظرافت کے مضامین خیال میں آتے انھیں موزوں کر کے ہدہد کی چونچ میں دیتے تھے، وہ ان کے بلکہ دو چار اور جانوروں کے لئے بھی بہت ہے، چند شعر یاد ہیں، تفریح طبع کے لئے لکھتا ہوں :
ہدہد کا مذاق ہے نرالا سب سے
انداز ہے اک نیا نکالا سب سے
سر دفترِ لشکر سلیماں ہے یہ
اڑتا بھی ہے دیکھو بالا بالا سب سے
راست آئینوں کو نفرت ہے کج آئینوں سے
تیر نکلا جو کمان سے تو گریزاں نکلا
آشیاں سے جو غزل پڑھنے کو ھدھدؔ آیا
خل پڑا پیشرو ملک سلیماں نکلا
حکیم صاحب کے اشارے پر ہدہد بلبلان سخن کو ٹھونگیں بھی مارتا تھا چنانچہ بعض غزلیں سر مشاعرہ پڑھتا تھا جس کے الفاظ نہایت شستہ اور رنگین، لیکن شعر بالکل بے معنی اور کہہ دیتا تھا کہ یہ غالبؔ کے انداز میں غزل لکھی ہے۔ ایک مطلع یاد ہے۔
مرکزِ محور گردوں بہ لبِ آب نہیں
ناخن قوس و قزح شبہ مضراب نہیں
غالبؔ مرحوم تو بہتے دریا تھے، سنتے تھے اور ہنستے تھے۔ مومنؔ خاں وغیرہ نے ہدہد کے شکار کو ایک باز تیار کیا۔ انھوں نے اس کے بھی پر نوچے۔ مشاعرہ میں خوب خوب جھپتے ہوئے مگر اس کے شعر مشہور نہیں ہوئے۔ ہدہد کے کئی شعر یاد ہیں۔ پہلا مطلع بھول گیا۔
جسے کہتے ہیں ہدہدؔ وہ تو نر شیروں کا دادا ہے
مقابل تیرے کیا ہو تو تو اک جرہ کی مادہ ہے
گر اب کے بازڑی میداں میں آئی سامنے میرے
تو دُم میں پَر نہ چھوڑوں گا یہی میرا ارادہ ہے
مقرر باز جو اپنا تخلص ہے کیا تو نے
ہوا معلوم یہ اس سے کہ گھر تیرا کشادہ ہے
ادب اے بے ادب ابتک نہیں تجھ کو خبر اس کی
کہ ہدہد سب جہاں کے طائروں کا پیرزادہ ہے
چند روز بعد باز اڑ گیا۔ یاروں نے ایک کوّا تیار کیا۔ زاغؔ تخلص رکھا، انھوں نے اس کی بھی خوب خبر لی۔ وہ بھی چند روز میں آندھی کا کوا ہو کر غائب غلہ ہو گیا۔
جون آیا ہے بدل اب کی عدو کوّے کی
اس کی ہے پاؤں سے تا سر وہی خو کوّے کی
وہی کاں کاں وہی کیں کیں وہی ٹاں ٹاں اسکی
بات چھوڑی نہیں ہاں اک سرمو کوّے کی
پہلے جانا تھا یہی سب نے کہ کوّا ہو گا
پھر یہ معلوم کیا، ہے یہ سو کوّے کی
بن کے کوا جو یہ آیا ہے تو اے ہدہد شاہ
دم کتر دینے کو کچھ کم نہیں تو کوّے کی
جو جانور ہدہد کے مقابل ہوتے تھے، انھیں استقلال نہ تھا۔ چند روز میں ہوا ہو جاتے تھے۔ کیونکہ پالنے والوں کی طبیعتوں میں استقلال اور مادہ نہ تھا۔ ہمیشہ ان کے ڈھب کی غزل کہہ کر مشغلہ جاری رکھنا اور مشاعرے کی غزل کا حسب حال تیار کرنا کچھ آسان کام نہیں ہے۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ان کے آزوقہ کو استقلال نہ تھا۔ ان کا آزوقہ سرکار بادشاہی سے تو مقرر ہی تھا اور ادھر ادھر سے چرچگ کر جو مار لاتے تھے وہ ان کی چاٹ تھی۔) کہ کہن سال مشاق