آب حیات - مولانا محمد حسین آزاد (مرحوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۰۰

نواب نے پیچھے آدمی دوڑایا، اس نے بریلی میں جا پکڑا، مگر وہ تشریف نہ لائے۔ غزل مذکور انشاء اللہ شائقان سخن کے ملاحظہ سے گزرے گی، خدا دیوان پورا کرے۔

ایک دن حسبِ معمول بادشاہ کے پاس بئے۔ ان دنوں میں مرزا شاہ رخ ایک بیٹے بادشاہ کے تھے کہ انھوں نے بہت سی خدمتیں کاروبار کی قبضہ میں کر رکھی تھیں اور اکثر حاضر رہا کرتے تھے، وہ اس وقت موجود تھے۔ انھیں دیکھتے ہی بولے کہ لیجیے وہ بھی آ پہنچے۔ معلوم ہوا کہ بادشاہ کی ایک غزل ہے۔ اس کے ہر شعر میں ایک ایک مصرع پیوند کر کے مثلث کرنا چاہتے ہیں۔ مگر ایجاد یہ ہے کہ مصرع جو لگے بموجب رواج قدیم کے اوپر نہ لگے بلکہ ہر شعر کے نیچے ایک ایک مصرع لگے کہ جس سے گویا ہر بند میں ایک ایک مطلع پیدا ہوتا جائے۔ غرض بادشاہ نے غزل انھیں دی کہ استاد اس پر مصرع لگا دو، انھوں نے قلم اٹھا کر ایک شعر پر نظر کی اور فوراً مصرع لگا دیا۔ اسی طرح دوسرے میں تیسرے میں مسلسل غزل تمام کر کے جتنی دیر میں نظر ڈالی بے تامّل ساتھ ہی مصرع لکھتے گئے اور اسی وقت پڑھ کر سنائی۔ سب حیران ہو گئے بلکہ مرزا شاہ رخ نے کہا کہ استاد آپ گھر سے کہہ کر لائے تھے۔ بادشاہ بولے، بھلا انھیں کیا خبر تھی کہ یہاں کیا ہو رہا ہے، خصوصاً جس ھال میں ایجاد بھی ایسا نیا ہو (دیکھو صفحہ ۲۲۶)۔

نقل : برسات کا موسم تھا، بادشاہ بموجب معمول کے قطب صاحب گئے ہوئے تھے۔ مرزا فخرو بادشاہ کے صاحبزادے کہ اخیر کو ولی عہد بھی ہو گئے تھے ایک دن وہاں چاندنی رات میں تلاؤ کے کنارے چاندنی کی بہار دیکھ رہے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۰۱

تھے، استاد مرحوم پاس کھڑے تھے۔ انھیں بھی شعر کا شوق تھا اور استاد کے شاگرد تھے۔ ان کی زبان سے یہ مصرع نکلا۔ ع

"چاندنی دیکھے اگر وہ مہ جبیں تالاب پر"​

ان سے کہا کہ استاد اس پر مصرع لگائیے۔ انہوں نے فوراً کہا۔ ع

"تابِ عکسِ رخ سے پانی پھیر دے مہتاب پر"​

نواب حامد علی خاں کے خسر نواب فضل علی خاں مرحوم بھی محبت و اخلاق سے ملا کرتے تھے۔ ایک دن دیوان خاص میں کھڑے ہوئے شعر سنتے سناتے تھے۔ نواب موصوف نے خواجہ وزیر کا مطلع پڑھا۔

جانور جو ترے صدقہ میں رہا ہوتا ہے
اے شہ حسن وہ چھٹتے ہی ہما ہوتا ہے​

استاد مرحوم نے کہا کہ صدقہ میں اکثر کوا چھڑواتے ہیں اس لئے زیادہ تر یہ مناسب ہے۔

زاغ بھی گر ترے صدقہ میں رہا ہوتا ہے
اے شہ حسن وہ چھٹتے ہی ہما ہوتا ہے
(ایسی بہت سے اصلاحیں روز ہوتی تھیں، لکھی جائیں تو ایک کتاب بن جائے۔)​

ایک دفعہ قلعہ میں مشاعرہ تھا، حکیم آغا جان عیش (حکیم آغا جان صاحب عیش بادشاہی اور خاندانی طبیب تھے، زیور علم اور لباس کمال سے آراستہ صاحب اخلاق، خوش مذاق، شیریں کلام، شگفتہ مزاج جب دیکھو یہی معلوم ہوتا تھا کہ مسکرا رہے ہیں۔ ساتھ ہی اس کے شعر کا عشق تھا۔ طبیعت ایسی ظریف و لطیف اور لطیفہ سنج پائی تھی کہ جسے شاعری کی جان کہتے ہیں، غزل صفائی کلام شوخی مضامین اور حسن محاورہ سے پھولوں کی چھڑی معلوم ہوتی تھی اور زبان گویا لطائف و ظرائف کی پھلچڑی۔ میں نے دو دفعہ استاد کے ساتھ مشاعرہ میں دیکھا تھا، ہائے افسوس اس وقت کی تصویر آنکھوں میں پھر گئی، قد میانہ، خوش اندام، سر پر ایک ایک انگل بال سفید، ایسی ہی داڑھی، اس گوری سرخ و سفید رنگت پر کیا بھلی معلوم ہوتی تھی۔ گلے میں ململ کا کرتہ جیسے چنبیلی کا ڈھیر پڑا ہنس رہا ہے۔ میں ان دنوں دہلی کالج میں پڑھتا تھا، استاد مرحوم کے بعد ذوق سخن اور ان کےکمال کی کشش نے کھینچ کر ان کی خدمت میں بھی پہنچایا۔ اب ان صورتوں کو آنکھیں ترستی ہیں اور نہیں پاتیں۔ ۱۸۵۷؁ء کے غدر کے چند روز بعد دنیا سے انتقال کیا، خدا مغفرت کرے۔ ہدہد الشعراء ایک شخص عبد الرحمٰن نامی پورب کی طرف سے دلی میں آئے اور حکیم صاحب کے پاس ایک مکان میں مکتب تھا اسمیں لڑکے پڑھانے لگے۔ حکیم صاحب کے خویش و اقارب میں سے بھی لڑکے وہاں پڑھتے تھے۔ ان میں سے ایک لڑکا سکندر نامہ پڑھا کرتا تھا۔ حکیم صاحب کا معمول تھا آٹھویں ساتویں دن رات کو ہر ایک لڑکے کا سبق سنا کرتے تھے۔ سکندر نامہ کا سبق جو سنا تو عجائب و غرائب مضامین سننے میں آئے، فرمایا کہ اپنے مولوی صاحب کو کسی وقت ہمارے پاس بھیجنا۔ وہ دوسرے ہی دن تشریف لائے۔ حکیم صاحب آخر حکیم تھے، ملاقات ہوئی تو اول قیافہ سے پھر گفتگو نبض دیکھی، معلوم ہوا کہ شدید سے زیادہ مادّہ نہیں مگر یہ طرفہ معجون انسان تھوڑی سی ترکیب میں رونق محفل ہو سکتا ہے، پوچھا کہ آپ کچھ شعر کا بھی شوق رکھتے ہیں؟ مولوی صاحب نے کہا کہ کیا مشکل بات ہے! ہو سکتا ہے، حکیم صاحب نے کہا کہ ایک جگہ مشاعرہ ہوتا ہے، ۸، ۹ دن باقی ہیں۔ یہ طرح مصرع ہے، آپ بھی غزل کہیے تو مشاعرہ میں لے چلیں۔ وہ مشاعرے کو بھی نہ جانتے تھے۔ اس کی صورت بیان کی۔ مولوی صاحب نے کہا کہ اس عرصہ میں بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ غزل کہہ کر لائے تو سبحان اللہ اور مولوی صاحب ہی تخلص رکھا۔ حکیم صاحب کی طبع ظریف کے مشغلہ کو ایسا الّو خدا دے، بہت تعریف کی۔ غزل کی جابجا اصلاحیں دے کر خوب نون مرچ چھڑکا۔ مولوی صاحب بہت خوش ہوئے۔ یہ دیکھ کر حکیم صاحب کو اطمینان ہوا۔ مولوی صاحب کی چگی داڑھی اس پر لمبی اور نکیلی سَر منڈا ہوا اس پر نکّو عمامہ، فقط کٹ بڑھی نظر آتے تھے۔ حکیم صاحب نے کہا کہ شعراء کو تخلص بھی ایسا چاہیے کہ ظریفانہ و لطیفانہ ہو اور خوشنما ہو اور شان و شکوہ کی عظمت سے تاجدار ہو۔ بہتر ہے کہ آپ ہدہد تخلص کریں۔ حضرت سلیمان کا رازدار تھا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔ گام تھا وغیرہ وغیرہ، پنیں و پنہاں مولوی صاھب نے بہت خوشی سے منظور فرمایا۔ مشاعرے کے دن جلسہ میں گئے۔ جب انکے سامنے شمع آئی تو حکیم صاحب نے ان کی تعریف میں چند فقرے مناسب وقت فرمائے۔ سب متوجہ ہوئے۔ جب انہوں نے غزل پڑھی تو تمسخر نے تالیاں بجائیں، ظرافت نے ٹوپیاں اچھالیں اور قہقہوں نے اتنا شور و غل مچایا کہ کسی غزل اتنی تعریف کا جوش نہ ہوا تھا۔ مولوی صاحب بہت خوش ہوئے۔ چند روز اس طرح مشاعرہ کو اور بعض امرا کے جلسوں کو رونق دیتے رہے مگر مکتب کے کام سے جاتے رہے۔ حکیم صاحب نے سوچا کہ ان کے گزارے کے لئے کوئی نسخہ ضرور تجویز کرنا چاہیے۔ ان سے کہا کہ بادشاہ کی تعریف میں ایک قصیدہ کہو، تمھیں ایک دن دربار میں لے چلیں۔ دیکھو رزاق مطلق کیا سامان کرتا ہے۔ قصیدہ تیار ہوا اور حکیم صاحب نے ہدہد کو اڑا کر دربار میں پہنچا دیا۔ افسوس کہ اب نہیں مل سکتا۔ ۴ شعر یاد ہیں۔ شتے نمونہ از خردارے تحفہ احباب کرتا ہوں۔

جو تیری مدح میں میں چونچ اپنی وا کر دوں
تو رشک باغ ارم اپنا گھونسلا کر دوں

جو آ کے ریز کرے میرے آگے مسیقار
تو ایسے کان مردزدوں کہ بے سرا کر دوں

جو سرکشی کرے آگے مرے ہُما آ کر
تو اس کے نوچ کے پر شکل نیولا کر دوں

میں کھانے والا ہوں نعمت کا اور میرے لئے
فلک کہے ہے مقرر میں یا برا کر دوں​

بادشاہوں اور امیروں کو مسخرا پن بلکہ زمانہ کی طبیعت کو غذا موافق ہے۔ ظفرؔ تو خود شاعر تھے۔ خطاب عطا فرمایا۔ طائر الارکین شہپر الملک ہدہد الشعرء امنقار جنگ بہادر اور معہ ۷ روپیہ مہینہ بھی عطا کر دیا کہ ان کی شاعری کی بنیاد قائم ہو گئی۔ پھر تو سر پر لمبے لمبے بال ہو گئے، ان میں چنبیلی کا تیل پڑنے لگا۔ داڑھی دو شاخہ ہو کر کانوں سے باتیں کرنے لگی۔

ایک برسات نے ان کا مکان گرا دیا۔ گھونسلے کی تلاش میں بھٹکتے پھرے، مکان ہاتھ نہ آیا۔ حکیم صاھب سے شکایت کی، فرمایا کہ بادشاہی مکانات شہر میں بہتیرے پڑے ہیں، کیا ہدہد کے گھونسلے کو بھی ان میں جگہ نہ ملے گی۔ دیکھو بندوبست کرتے ہیں۔ جھٹ عرضی موزوں ہوئی۔ چند متفرق اشعار اسکے یاد ہیں۔

جز ترے شاہنشہا کہہ کس کے آگے روئیے
کس کو کہیے جا کے یہ غم کو ہمارے کھوئیے

تجھ کو ہے حق نے کیا ملک سخن کا شہسوار
ہیں بجا کرنے سمند طبع کویاں پوئیے

حیف آتا ہے کہ فن شعر میں کیوں کھوئی عمر
کاش کہ ہم سیکھتے اس سے بنانے بورئیے

سنگلاخ ایسی زمیں ہے سوچ اے دل تاکجا
فکر کیجیے صرف اس میں اور پتھر ڈھوئیے

رشتہ عمر شہنشاہ جہاں ہووے دراز
یا خدا کھلتے رہیں دنیا میں جب تک سوئیے

دیدے اس کو بھی زمیں تھوڑی کہ بن گھر گھونسلے
مارتا پھرتا ترا ہدہد ہے ٹاپک ٹوئیے​

ایک سال سرکار شاہی کو تنخواہ میں دیر لگی۔ ہدہد نے حکیم صاحب سے شکایت کی۔ یہاں جسطرح امراض شکم کے لئے علاج تھے ہی، اسی طرح بھوک کے تدارک کا بھی نسخہ تیار تھا۔ ایک قطعہ راجہ دیبی سنگھ کی مدح میں تیار ہوا کہ انھیں دنوں میں خانسامانی کی تنخواہ انھیں سپرد ہوئی تھی۔ ۴ شعر اسوقت یاد ہیں، وہی لکھتا ہوں۔

جہاں میں آج دیبی سنگھ تو راجوں کا راجہ ہے
خدا کا فضل ہے جو قلعہ میں تو آ براجا ہے

سلیماں نے ہے تیرے ہاتھ میں دی رزق کی کنجی
تو سرداروں کا سردار اور مہاراجوں کا راجا ہے

شکم اہل جہاں کے سب ہیں شکرانہ بجا لاتے
دمامہ تیرا جا کر گنبد گردوں پہ باجا ہے

کسی کو دے نہ دے تنخواہ تو مختار ہے اس کا
مگر ہدہد کو دیدے کیوں؟ یہی ہدہد کا کھاجا ہے​

حکیم صاحب ہمیشہ فکر سخن میں رہتے تھے۔ اس میں جو ظرافت کے مضامین خیال میں آتے انھیں موزوں کر کے ہدہد کی چونچ میں دیتے تھے، وہ ان کے بلکہ دو چار اور جانوروں کے لئے بھی بہت ہے، چند شعر یاد ہیں، تفریح طبع کے لئے لکھتا ہوں :

ہدہد کا مذاق ہے نرالا سب سے
انداز ہے اک نیا نکالا سب سے

سر دفترِ لشکر سلیماں ہے یہ
اڑتا بھی ہے دیکھو بالا بالا سب سے

راست آئینوں کو نفرت ہے کج آئینوں سے
تیر نکلا جو کمان سے تو گریزاں نکلا

آشیاں سے جو غزل پڑھنے کو ھدھدؔ آیا
خل پڑا پیشرو ملک سلیماں نکلا​

حکیم صاحب کے اشارے پر ہدہد بلبلان سخن کو ٹھونگیں بھی مارتا تھا چنانچہ بعض غزلیں سر مشاعرہ پڑھتا تھا جس کے الفاظ نہایت شستہ اور رنگین، لیکن شعر بالکل بے معنی اور کہہ دیتا تھا کہ یہ غالبؔ کے انداز میں غزل لکھی ہے۔ ایک مطلع یاد ہے۔

مرکزِ محور گردوں بہ لبِ آب نہیں
ناخن قوس و قزح شبہ مضراب نہیں​

غالبؔ مرحوم تو بہتے دریا تھے، سنتے تھے اور ہنستے تھے۔ مومنؔ خاں وغیرہ نے ہدہد کے شکار کو ایک باز تیار کیا۔ انھوں نے اس کے بھی پر نوچے۔ مشاعرہ میں خوب خوب جھپتے ہوئے مگر اس کے شعر مشہور نہیں ہوئے۔ ہدہد کے کئی شعر یاد ہیں۔ پہلا مطلع بھول گیا۔

جسے کہتے ہیں ہدہدؔ وہ تو نر شیروں کا دادا ہے
مقابل تیرے کیا ہو تو تو اک جرہ کی مادہ ہے

گر اب کے بازڑی میداں میں آئی سامنے میرے
تو دُم میں پَر نہ چھوڑوں گا یہی میرا ارادہ ہے

مقرر باز جو اپنا تخلص ہے کیا تو نے
ہوا معلوم یہ اس سے کہ گھر تیرا کشادہ ہے

ادب اے بے ادب ابتک نہیں تجھ کو خبر اس کی
کہ ہدہد سب جہاں کے طائروں کا پیرزادہ ہے​

چند روز بعد باز اڑ گیا۔ یاروں نے ایک کوّا تیار کیا۔ زاغؔ تخلص رکھا، انھوں نے اس کی بھی خوب خبر لی۔ وہ بھی چند روز میں آندھی کا کوا ہو کر غائب غلہ ہو گیا۔

جون آیا ہے بدل اب کی عدو کوّے کی
اس کی ہے پاؤں سے تا سر وہی خو کوّے کی

وہی کاں کاں وہی کیں کیں وہی ٹاں ٹاں اسکی
بات چھوڑی نہیں ہاں اک سرمو کوّے کی

پہلے جانا تھا یہی سب نے کہ کوّا ہو گا
پھر یہ معلوم کیا، ہے یہ سو کوّے کی

بن کے کوا جو یہ آیا ہے تو اے ہدہد شاہ
دم کتر دینے کو کچھ کم نہیں تو کوّے کی​

جو جانور ہدہد کے مقابل ہوتے تھے، انھیں استقلال نہ تھا۔ چند روز میں ہوا ہو جاتے تھے۔ کیونکہ پالنے والوں کی طبیعتوں میں استقلال اور مادہ نہ تھا۔ ہمیشہ ان کے ڈھب کی غزل کہہ کر مشغلہ جاری رکھنا اور مشاعرے کی غزل کا حسب حال تیار کرنا کچھ آسان کام نہیں ہے۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ان کے آزوقہ کو استقلال نہ تھا۔ ان کا آزوقہ سرکار بادشاہی سے تو مقرر ہی تھا اور ادھر ادھر سے چرچگ کر جو مار لاتے تھے وہ ان کی چاٹ تھی۔) کہ کہن سال مشاق
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۰۲

اور نہایت زندہ دل شاعر تھے۔ استاد کے قریب ہی بیٹھتے تھے، زمین غزل، یار دے، بہار دے، روزگار دے، حکیم آغا جان عیشؔ نے ایک شعر اپنی غزل میں پڑھا۔

اے شمع صبح ہوتی ہے روتی ہے کس لئے
تھوڑی سی رہ گئی ہے اسے بھی گزار دے​

ان کے ہاں بھی اس مضمون کا ایک شعر تھا، باوجود اس رتبہ کے لحاظ اور پاس مروت حد سے زیادہ تھا۔ میرے والد مرحوم پہلو میں بیٹھے تھے، ان سے کہنے لگے کہ مضمون لڑ گیا۔ اب میں وہ شعر نہ پڑھوں گا۔ انھوں نے کہا کہ کیوں نہ پڑھو، پہلے سے انھوں نے آپ کا مضمون سنا تھا نہ آپ نے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۰۳

ان کا، ضرور پڑھنا چاہیے۔ اس سے بھی طبیعتوں کا اندازہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک منزل پر دونوں صاحب فکر پہنچے، مگر کس کس انداز سے پہنچے، چناں چہ حکیم صاحب مرحوم کے بعد ہی ان کے آگے شمع آئی۔ انھوں نے پڑھا۔

اے شمع تیری عمر طبیعی ہے ایک رات
رو کر گزار یا اسے ہنس کر گزار دے​

ایک دن معمولی دربار تھا، استاد بھی حاضر تھے۔ ایک مرشد زادے تشریف لائے وہ شاید کسی اور مرشد زادی یا بیگمات میں سے کسی بیگم صاحب کی طرف سے کچھ عرض لے کر آئے تھے، انھوں نے آہستہ آہستہ بادشاہ سے کچھ کہا اور رخصت ہوئے۔ حکیم احسن اللہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۰۴

خاں بھی موجود تھے۔ انھوں نے عرض کی، صاحب عالم اس قدر جلدی یہ آنا کیا تھا اور یہ تشریف لے جانا کیا تھا۔ صاحب عالم کی زبان سے اس وقت نکلا کہ "اپنی کوشی نہ نہ اپنی خوشی چلے" بادشاہ نے استاد کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ استاد دیکھنا کیا صاف مصرع ہوا ہے۔ استاد نے بے توقف عرض کی کہ حضور :

لائی حیات آئے، قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے​

یہ اواخر عمر کی غزل ہے۔ اس کے دو تین برس بعد انتقال ہو گیا۔

ایک دن دربار سے آ کر بیٹھے، میں جو پہنچا افسردہ ہو کر کہنے لگے کہ آج
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۰۵

عجیب ماجرا گزرا۔ میں جو حضور میں گیا تو محل میں تھے۔ وہیں بلا لیا اور مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے استاد آج مجھے دیر تک ایک بات کا افسوس رہا۔ میں نے حال پوچھا، کہا کہ جو قصیدہ تم نے ہمارے لئے کہا تھا اس کے وہ اشارے آج مجھے یاد آ گئے۔ ان کے خیالات سے طبیعت کو عجب لطف حاصل ہوا۔ ساتھ ہی خیال ایا کہ اب تم یہ قصیدے ہمارے لئے کہتے ہو، ہم مر جائیں گے تو جو تخت پر بیٹھے گا اس کے لئے کہوگے، میں نے عرض کی کہ حضور کچھ تردد نہ فرمائیں، خیمہ پیچھے گرتا ہے، میخیں اور طنابیں پہلے ہی اکھڑ جاتی ہیں، ہم حضور سے پہلے ہی اٹھ جائیں گے۔ اور حضور خیال فرمائیں کہ عرش آرامگاہ کے دربار کے لوگ حضور کے دربار میں کہاں تھے؟ فردوس منزل کے امراء
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۰۶

ان کے عہد میں کہاں تھے، عرش منزل کے فردوس منزل کے دربار میں کہاں تھے؟ فردوس منزل کے امیر عرش آرامگاہ کے دربار میں کہاں تھے؟ عرش آرامگاہ کے امرا آج حضور کے دربار میں کہاں ہیں، بس یہی خیال فرما لیجیے جو جس کے ساتھ ہوتے ہیں وہ اسی کے ساتھ جاتے ہیں۔ نیا میر مجلس نئی مجلس جماتا ہے اور اپنا سامانِ مجلس بھی اپنے ہی ساتھ لاتا ہے۔ یہ سن کر حضور بھی آبدیدہ ہوئے میں بھی آبدیدہ ہوا مگر خیال مجھے یہ آیا کہ دیکھو ہم ہمیشہ نماز کے بعد حضور کی سلامتی کی دعائیں مانگتے ہیں، خدا شاہد ہے اپنا خیال اس طرح آج تک کبھی نہیں آیا، حضور کو ہمارا خیال بھی نہیں میاں! دنیا میں کوئی کسی کا نہیں ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۰۷

شیخ مرحوم ضعف جسمانی کے سبب سے روزے نہ رکھتے تھے مگر اس پر بھی کسی کے سامنے کھاتے پیتے نہ تھے، کبھی دوا یا شربت یا پانی بھی پینا ہوتا، کوٹھے پر جا کر یا گھر میں جا کر پی آتے، ایک دفعہ میں نے پوچھا، کہا میاں خدا کے گناہگار ہیں وہ عالم نہاں و آشکار کا ہے۔ اس کی تو شرم نہیں بھلا بندے کی شرم تو رہے۔

رمضان کا مہینہ تھا، گرمی کی شدّت، عصر کا وقت، نوکر نے شربت نیلوفر کٹورے میں گھول کر کوٹھے پر تیار کیا اور کہا کہ ذرا اوپر تشریف لے چلئے، چونکہ وہ اس وقت کچھ لکھوا رہے تھے، مصروفیت کے سبب سے نہ سمجھے اور سبب پوچھا، اس نے اشارہ کیا، فرمایا کہ لے آ یہیں، یہ ہمارے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۰۸

یار ہیں، ان سے کیا چھپانا۔ جب اس نے کٹورہ لا کر دیا، تو یہ مطلع کہا کہ فی البدیہہ یہ واقع ہوا تھا۔

پلا مے آشکارا ہم کو کس کی ساقیا چوری
خدا کی جب نہیں چوری تو پھر بندہ کی کیا چوری​

محبوب علی خاں خواجہ سرا سرکار بادشاہی میں مختار تھے اور کیا محل کیا دربار دونوں جگہ اکتیار قطعی رکھتے تھے مگر بشدت جوا کھیلتے تھے۔ کسی بات پر ناخوشی ہوئی، میاں صاحب نے حج کا ارادہ کیا۔ ایک دن میں استاد مرحوم کے پاس بیٹھا تھا کہ کسی شخص نے آ کر کہا، میاں صاحب کعبۃ اللہ جاتے ہیں۔ آپ ذرا تامل کر کے مسکرائے اور یہ مطلع پڑھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۰۹

جو دل قمار خانہ میں بت سے لگا چکے
وہ کعبتیں چھوڑ کے کعبہ کو جا چکے​

والد مرحوم نے بہ نیت وقف امامباڑہ تعمیر کیا۔ ایک دن تشریف لائے، ان سے تاریخ کے لئے کہا۔ اسی وقت تامل کر کے کہا۔ تعزیت گاہ امام پوری تاریخ ہے۔ حکیم میر فیض علی مرحوم ان کے استاد بھی تھے اور انھی کا آپ علاج بھی کیا کرتے تھے۔ ایک دن میں بھی موجود تھا۔ نوکر نے آ کر کہا کہ آج میر فیض علی کا انتقال ہوا۔ بار بار پوچھا اور ایسا اضطراب ہوا کہ اٹھکر ٹہلنے لگے۔ کچھ سوچ کر دفعتہً بولے کہ "ہائے میر فیض علی" مجھ سے کہا کہ دیکھو تو یہی تاریخ ہے؟ حساب کیا تو عدد برابر تھے۔

ایک شخص نے آ کر کہا کہ میرے دوست کا نام غلام علی ہے اور باپ کا نام غلام محمد ہے۔ اس نے نہایت تاکید سے فرمایش لکھی ہے کہ حضرت سے ایسا طبحع کہلوا دو کہ جس میں دونوں نام آ جائیں۔ آپ نے سن کر وعدہ کیا اور کہا کہ دو تین دن میں آپ آئیے گا۔ انشاء اللہ ہو جاوے گا۔ وہ رخصت ہو کر چلے، ڈیوڑھی کے باہر نکلے ہوں گے جو نوکر سے کہا کہ محمد بخش کو بلانا انھیں لینا لینا۔ خوب ہوا ان کے تقاضے سے جلدی مخلصی ہو گئی۔ مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔ ع

پدر غلام محمد پسر غلام علی​

دیوان چند دلال نے ان کلام سن کر مصرع طرح بھیجا اور بلا بھیجا۔ غزل کہہ کر بھیجی اور مقطع میں لکھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۱۰

آج کل گرچہ دکن میں ہے بڑی قدر سخن
کون جائے ذوقؔ پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر​

انھوں نے خلعت اور پانسو روپئے بھیجے، مگر یہ نہ گئے۔ ایک دن میں نے نہ جانے کا سبب پوچھا، فرمایا۔

نقل : کوئی دلی میں مہینہ بیس (۲۰) دن رہ کر چلا۔ یہاں ایک کتا ہل گیا تھا۔ وہ وفا کا مارا ساتھ ہو لیا۔ شاہدرہ پہنچ کر دلّی یاد آئی اور رہ گیا۔ وہاں کتوں کو دیکھا، گردنیں فربہ، بدن تیار، چکنی چکنی پشم، ایک کتا انھیں دیکھکر خوش ہوا اور دلی کا سمجھ کر بہت خاطر کی۔ وہاں کی بازار میں لے گیا۔ حلوائی کی دوکان سے ایک بالوشاہی اڑا کر سامنے رکھا، بھٹیارہ کے دوکان سے ایک کلہ جھپٹا، یہ ضیافتیں کھاتے اور دلی کی باتیں سناتے رہے۔ تیسرے دن رخصت مانگی۔ اس نے روکا۔ انھوں نے دلی کے سیر تماشے اور خوبیوں کے ذکر کئے۔ آخر چلے اور دوست کو بھی دلّی انے کی تاکید کر آئے۔ اسے بھی خیال رہا اور ایک دن دلی کا رخ کیا۔ پہلے ہی مرگھٹ کے کتے مردار خوار، خونی آنکھیں، کالے کالے منھ نظر آئے۔ یہ لڑتے بھرتے نکلے، دریا ملا، دیر تک کنارہ پر پھرے، آخر کود پڑے، مرکھپ کے پار پہنچے، شام ہو گئی تھی۔ شہر میں گلی کوچوں کے کتوں سے بچ بچا کر ڈیڑھ پہر رات گئی تھی جو دوست سے ملاقات ہوئی۔ یہ بیچارے اپنی حالت پر شرمائے، بظاہر خوش ہوئے اور کہا اوہو اسوقت تم کہاں؟ دل میں کہتے تھے رات نے پردہ رکھا، ورنہ دن کو یہاں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۱۱

کیا دھرا تھا؟ اسے لے کر اِدھر اُدھر پھرنے لگے، یہ چاندنی چوک ہے، یہ دریبہ ہے، یہ جامع ہے۔ مہمان نے کہا یار بھوک کے مارے جان نکلی جاتی ہے، سیر پھر ہو جائے گی، کچھ کھلواؤ تو سہی۔ انھوں نے کہا عجب وقت تم آئے ہو۔ اب کیا کروں؟ بارے جامع مسجد کی سیڑھیوں پر جانی کبابی مرچوں کی ہانڈی بھول گئے تھے۔ انھوں نے کہا ۔ "لو یار بڑے قسمت والے ہو" وہ دن بھر کا بھوکا تھا، منھ پھاڑ کر گرا اور ساتھ ہی منھ سے مغز تک گویا بارود اڑ گئی، چھینک کر پیچھے ہٹا اور جل کر کہا واہ یہی دلّی ہے۔ انھوں نے کہا اس چٹخارہ کے مارے تو پڑے ہیں۔

عادت تھی کہ سات آٹھ بجے مکان ضرور جاتے تھے اور تین چار چلمیں حقہ کی وہاں پیتے تھے۔ میں چھٹی کے دن اس وقت جایا کرتا تھا اور دن بھر وہیں رہتا تھا۔ مکان ضرور ڈیوڑھی میں تھا۔ پاؤں کی آہٹ پہچانتے تھے۔ پوچھتے تھے، میں تسلیم عرض کرتا، چھوٹی سی انگنائی تھی، پاس ہی چارپائی تھی بیٹھ جاتا۔ فرماتے اجی ہمارا وہ شعر اس دن تم نے کیا پڑھا تھا؟ ایک دو لفظ اس کے پڑھتے، میں سارا شعر عرض کرتا، فرماتے ہاں اب اسے یوں بنا لو۔ ایک دن ہنستے ہوئے پائخانے سے نکلے، فرمایا کہ لو جی ۳۳ برس کے بعد آج اصلاح دینی آئی ہے۔ حافظ ویران نے کہا، حضرت کیونکر؟ فرمایا ایک دن شاہ نصیرؔ مرحوم کسی شاگرد کو اصلاح دے رہے تھے۔ اس میں مصرع تھا۔ ع

"کھاتی کمر ہے تین بل ایک گدگدی کے ساتھ"​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۱۲

ابتدائے مشق تھی، اتنا خیال میں آیا کہ یہاں کچھ اور ہونا چاہیے اور جب سے اکثر یہ مصرع کھٹکتا رہتا تھا۔ آج وہ نکتہ حل ہوا، عرض کی حضرت پھر کیا؟ فرمایا۔ ع

"کھاتی ہے تین تین بل اک گدگدی کے ساتھ"​

کمر کو اوپر ڈال دو، عرض کی پھر وہ کیونکر، ۳، ۴ مصرعے الٹ پلٹ گئے تھے، ایک اس وقت خیال میں ہے۔

بل بے کمر کہ زلف مسلسل کے پیچ میں
کھاتی ہے تین تین بل اک گدگدی کے ساتھ​

کابلی دروازہ پاس ہی تھا، شام کو باہر نکل کر گھنٹوں ٹہلتے تھے۔ میں اکثر ہوتا تھا، مضامین کتابی، خیالات علمی افادہ فرماتے، شعر کہتے۔ ایک دن بادشاہ کی غزل کہہ رہے تھے، تیر ہمیشہ، تصویر ہمیشہ، سوچتے سوچتے کہنے لگے، تم بھی تو کچھ کہو، میں نے کہا، کیا عرض کروں، فرمایا میاں اسی طرح آتا ہے، ہوں ہاں، غوں غاں، کچھ تو کہو، کوئی مصرع ہی سہی، میں نے کہا۔ ع

سینہ سے لگائے تری تصویر ہمیشہ​

ذرا تامل کر کے کہا ہاں درست ہے۔

آ جائے اگر ہاتھ تو کیا چین سے رہیے
سینہ سے لگائے تری تصویر ہمیشہ​

اب جو کبھی دلّی جانا ہوتا ہے اور اس مقام پر گزر ہوتا ہے تو آنسو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۱۳

نکل پڑتے ہیں۔ اس مطلع پر حضور نے کئی دفعہ جال مارے مگر یہ ٹال گئے۔ مضمون آ نہ سکا۔ مطلع انھوں نے دیا۔

کیا کہوں اس ابروے پیوستہ کے دل بس میں ہے
اک طعمہ، مچھلیاں دو، کش مکش آپس میں ہے​

بادشاہ کے چار دیوان ہیں، پہلے کچھ غزلیں، شاہ نصیرؔ کی اصلاحی ہیں، کچھ میر کاطم حسین بیقرارؔ کی ہیں۔ غرض پہلا دیوان نصف سے زیادہ اور باقی دیوان سرتاپا حضرت مرحوم کے ہیں۔ جن سنگلاخ زمینوں میں قلم چلنا مشکل ہے ان کا نظام و سرانجام اس خوبصورتی سے کیا ہے کہ دل شگفتہ ہوتے ہیں۔ والد مرحوم کہا کرتے تھے کہ بادشاہ تمہارا زمین کا بادشاہ ہے، طرحیں خوب نکالتا ہے۔ مگر تم سرسبز کرتے ہو ورنہ شور زار ہو جائے۔ مسودہ خاص میں کوئی شعر پورا، کوئی ڈیڑھ مصرع کوئی ایک کوئی آدھا مصرع، فقط بحر اور ردیف قافیہ معلوم ہو جاتا تھا، باقی بخیر یہ ان ہڈیوں پر گوشت پوست چڑھا کر حسن و عشق کی پتلیاں بنا دیتے تھے۔ ایجادی فرمائشوں کی حد نہ تھی، چند شعر اس غزل کے لکھتا ہوں، جس کے ہر شعر کے نیچے مصرع لگایا ہے۔

یا تو افسر مرا شاہا نہ بنایا ہوتا
یا مرا تاج گدایا نہ بنایا ہوتا

ورنہ ایسا جو بنایا نہ بنایا ہوتا

نشہ عشق کا گر ذوقؔ دیا تھا مجھکو
عمر کا تنگ نہ پیمانہ بنایا ہوتا

دل کو میرے خم و خمخانہ بنایا ہوتا​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۱۴

اس خرد نے مجھے سرگشہ و حیران کیا
کیوں خرد مند بنایا نہ بنایا ہوتا

تو نے اپنا مجھے دیوانہ بنایا ہوتا

روز معمورہ دنیا میں خرابی ہے ظفر
ایسی بستی سے تو ویرانہ بنایا ہوتا

بلکہ بہتر تو یہی تھا نہ بنایا ہوتا​

ایک بڈھا چورن مرچن کی پڑیاں بیچتا پھرتا تھا اور آواز دیتا تھا۔

"نرے من چلے کا سودا ہے کٹھا اور میٹھا​

حضور نے سنا۔ ایک دو مصرعے اس پر لگا کر استاد کو بھیج دیئے۔ انھوں نے دس دہرے لگا دیئے۔ حضور نے لے رکھی ہے کئی کنچنیاں ملازم تھیں، انھیں یاد کرا دیئے۔ دوسرے دن بچہ بچہ کی زبان پر تھے۔ دو بند یاد رہ گئے۔

لے ترے من چلے کا سودا ہے کھٹا اور میٹھا

کنجڑے کی سی باٹ ہے دنیا جنس ہے ساری اکٹھی
میٹھی چاہے میٹھی لے لے، کھٹی چاہے کھٹی

لے ترے من چلے کا سودا ہے کھٹا اور میٹھا

روپ رنگ پر پھول نہ دل میں دیکھ عقل کے بیری
اوپر میٹھی، نیچے کھٹی، انبوا کی سی کیری

لے ترے من چلے کا سودا ہے کھٹا اور میٹھا​

ایک فقیر صدا کہتا "کچھ راہ خدا دے جا، جا تیرا بھلا ہو گا" حضور کو پسند آئی۔ ان سے کہا، انھوں نے بارہ دہرے اس پر لگا دیئے۔ مدتوں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۱۵

تک گھر گھر سے اسی کے گانے کی آواز آتی تھی اور گلی گلی لوگ گاتے پھرتے تھے۔ حافظ ویران کو خدا سلامت رکھے، انہی نے یہ شعر بھی لکھوائے۔

کچھ راہ خدا دے جا، جا تیرا بھلا ہو گا

محتاج خرا باقی یا پاک نمازی ہے
کچھ کر نہ نظر اس پر، واں نکتہ نوازی ہے

کچھ راہ خدا دے جا، جا تیرا بھلا ہو گا

دنیا کے کیا کرتا ہے سینکڑوں تو دھندے
پر کام خدارا بھی کر لے کوئی یاں بندے

کچھ راہ خدا دے جا، جا تیرا بھلا ہو گا

جو رب نے دیا تجھ کو تو نام پہ رب کے دے
گریاں رو دیا تو نے، واں دیویگا کیا بندے

کچھ راہ خدا دے جا، جا تیرا بھلا ہو گا

دیوے گا اسی کو تو وہ جس کو ہے دلواتا
پر ہے یہ ظفر تجھ کو آواز سنا جاتا

کچھ راہ خدا دے جا، جا تیرا بھلا ہو گا

دنیا ہے سرا اسمیں تو بیٹھا مسافر ہے
اور جانتا ہے یاں سے جانا تجھے آخر ہے

کچھ راہ خدا دے جا، جا تیرا بھلا ہو گا​

اسی طرح کی ہزاروں چیزیں تھیں، ٹپے، ٹھمریاں، پہلیاں، سیٹھنیاں، کہاں تک لکھوں، ایک دن ٹہل رہے تھے، حافظ ویران ساتھ تھے۔ بتقاضائے استنجا بیٹھ گئے اور وقت معین سے زیادہ دیر ہوئی۔ انھوں نے قریب جا کر خیال کیا تو کچھ گنگنا رہے ہیں اور چٹکی سے جوتی پر کھٹ کھٹ کرتے جاتے ہیں، پوچھا کہ ابھی آپ فارغ نہیں ہوئے، فرمایا کہ حضور نے چلتے ہوئے ایک ٹھمری کے دو تین انترے سنائے تھے کہ اسے پورا کر دینا۔ اسوقت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۱۶

اس کا خیال آ گیا۔ پوچھا کہ یہ جوتی پر آپ چٹکی کیوں مارتے تھے، فرمایا کہ دیکھتا تھا کہ اس کے لفظ تال پر ٹھیک بیٹھتے ہیں یا نہیں؟

حافظ ویران کہتے ہیں، کہ ایک دن عجب تماشہ ہوا، آپ بادشاہ کی غزل کہہ رہے تھے، مطلع ہوا کہ :

ابرو کی اس کے بات ذرا چل کے تھم گئی
تلوار آج ماہ لقا چل کے تھم گئی​

دو تین شعر ہوئے تھے کہ خلیفہ اسمٰعیل دربار سے پھر کر آئے اور کہا کہ اس وقت عجب معرکہ دیکھا، استاد مرحوم متوجہ ہوئے، انھوں نے کہا کہ جب میں بھوانی شنکر کے چھتے کے پاس پہنچا تو کھاری باؤلی کے رخ پر دیکھا کہ دو تین آدمی کھڑے ہیں اور آپس میں تکرار کر رہے ہیں، باتوں باتوں میں ایسی بگڑی کہ تلوار کھچ گئی اور تین آدمی زخمی بھی ہوئے۔ یہاں چونکہ غزل کے شعر حافظ ویران سن رہے تھے، ہنس کر بولے کہ حضرت آپ کیا وہاں موجود تھے، آہستہ آہستہ سے فرمایا کہ یہیں بیٹھے بیٹھے سب کچھ ہو جاتا ہے، اس سے میرا مطلب یہ نہیں کہ انھیں کرامات تھی یا وہ غیب داں تھے، ایک حسن اتفاق تھا، اہل ذوق کے لطف طبع کے لئے لکھ دیا۔ اس سے بڑھکر یہ ہے کہ ایکدن حضور میں غزل ہوئی جس کا مطلع تھا :

آج ابرو کی ترے تصویر کھنچکر رہ گئی
سنتے ہیں بھوپال میں شمشیر کھنچکر رہ گئی​

پھر معلوم ہوا کہ اسی دن بھوپال میں تلوار چلی تھی۔ ایسے معاملے کتب تاریخ اور تذکروں میں اکثر منقول ہیں، طول کلام کے خیال سے قلم انداز کرتا ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۱۷

ایک دفعہ دوپہر کا وقت تھا، باتیں کرتے کرتے سو گئے، آنکھ کُھلی تو فرمایا کہ ابھی خواب میں دیکھا کہیں آگ لگی ہے۔ اتنے میں خلیفہ صاحب آئے اور کہا کہ پیر بخش سوداگر کی کوٹھی میں آگ لگ گئی تھی، بڑی خیر ہوئی کہ کچھ نقصان نہیں ہوا۔

ایک شب والد مرحوم کے پاس آ کر بیٹھے، کہا کہ بادشاہ کی غزل کہنی ہے، لاؤ یہیں کہہ لیں، کئی فرمائشیں تھیں، ان میں سے یہ طرح کہنی شروع کی۔ "محبت ہے، صورت ہے، مصیبت ہے" میں نے کہا حضرت زمین شگفتہ نہیں، سکوت کر کے فرمایا "کہنے والے شگفتہ کر ہی لیا کرتے ہیں۔ پھر یہ دو مطلع پڑھے۔

نہ بھول اے آرسی گر یار کو تجھ سے محبت ہے
نہیں ہے اعتبار اسکا یہ منھ دیکھ کی الفت ہے

بگولے سے جسے آسیب اور صرصر سے رحمت ہے
ہماری خاک یوں برباد ہو اے ابر رحمت ہے​

اتفاق : فرماتے تھے کہ ایک دن بادشاہ نے غزل کا مسودہ دیا اور فرمایا کہ اسے ابھی درست کر کے دے جانا، موسم برسات کا تھا، ابر آ رہا تھا، دریا چڑھاؤ پر تھا، میں دیوان خاص میں جا کر اسی رخ میں ایک طرف بیٹھ گیا اور غزل لکھنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد پاؤں کی آہٹ معلوم ہوئی، دیکھا تو پشت پر ایک صاحب دانائے فرنگ کھڑے ہیں، مجھ سے کہا، آپ کیا لکھتا ہے؟ میں نے کہا غزل ہے۔ پوچھا آپ کون ہے؟ میں نے کہا کہ نظم میں حضور کی دعاگوئی کیا کرتا ہوں، فرمایا کس زبان میں؟ میں نے کہا اردو میں۔ پوچھا آپ کیا کیا زبانیں جانتا ہے؟ میں نے کہا کہ فارسی عربی بھی جانتا ہوں۔ فرمایا ان
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۱۸

زبانوں میں بھی کہتا ہے، میں نے کہا کوئی خاص موقعہ ہو تو اس میں بھی کہنا پڑتا ہے، ورنہ اردو ہی میں کہتا ہوں کہ یہ میرے اپنی زبان ہے۔ جو کچھ انسان اپنی زبان میں کر سکتا ہے غیر کی زبان میں نہیں کر سکتا، پوچھا آپ انگریزی جانتا ہے، میں کہا نہیں، فرمایا کیوں نہیں پڑھا؟ میں نے کہا ہمارا لب و لہجہ اس سے موافق نہیں، وہ ہمیں آتی نہیں ہے۔ صاحب نے کہا، ول یہ کیا بات ہے، دیکھئے ہم آپ کا زبان بولتے ہیں۔ میں نے کہا، پختہ سالی میں غیر زبان نہیں آ سکتی، بہت مشکل معاملہ ہے۔ انھوں نے پھر کہا، ول، ہم آپ کی تین زبان ہندوستان میں آ کر سیکھا۔ آپ ہمارا ایک زبان نہیں سیکھ سکتے، یہ کیا بات ہے؟ اور تقریر کو طول دیا۔ میں نے کہا صاحب ہم زبان کا سیکھنا اسے کہتے ہیں کہ اس میں بات چیت، ہر قسم کی تحریر تقریر اس طرح کریں، جس طرح خود اہل زبان کرتے ہیں، آپ فرماتے ہیں، ام آپ کا تین زبان سیکھ لیا، بھلا یہ کیا زبان ہے اور کیا سیکھنا ہے، اسے زبان کا سیکھنا اور بولنا نہیں کہتے، اسے تو زبان کا خراب کرنا کہتے ہیں۔

غزلیں

مرے سینہ سے تیرا تیر جب اے جنگجو نکلا
وہاں زخم سے خون دہو کے حرف آرزو نکلا

مرا گھر تیرا منزل گاہ ہو ایسے کہاں طالع
خدا جانے کدھر کا چاند آج اے ماہرو نکلا

پھر اگر آسمان تو شوق میں تیرے ہی سرگرداں
اگر خورشید نکلا تیرا گرم جستجو نکلا

مئے عشرت طلب کرتے تھے ناحق آسماں سے ہم
کہ آخر جب اسے دیکھا فقط کالی سبو نکلا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۱۹

ترے آتے ہی آتے کام آخر ہو گیا میرا
رہی حسرت کہ دم میرا نہ تیرے روبرو نکلا

کہیں تجھکو نہ پایا گرچہ ہم نے اک جہاں ڈھونڈا
پھر آخر دل ہی میں دیکھا بغل ہی میں تو نکلا

خجل اپنے گناہوں سے ہوں میں یانتک کہ جب رویا
تو جو آنسو مری آنکھوں سے نکلا سرخرو نکلا

گھسے سب ناخن تدبیر اور ٹوٹا سر سوزن
مگر تھا دل میں جو کانٹا نہ وہ ہرگز کبھو نکلا

اسے عیار پایا یار سمجھے ذوقؔ ہم جس کو
جسے یاں دوست اپنا ہم نے جانا وہ عدو نہ نکلا
*-*-*-*-*-*

لکھے اسے خط میں کہ ستم اٹھ نہیں سکتا
پر ضعف سے ہاتھوں میں قلم اٹھ نہیں سکتا

بیمار ترا صورت تصویر نہالی
کیا اٹھے سر بستر غم اٹھ نہیں سکتا

آتی ہے صدائے جرس ناقہ لیلٰے
پر حیف کہ مجنوں کا قدم اٹھ نہیں سکتا

جوں دانہ روئیدہ تہ خاک ہمارا
سر زیر گرانبار الم اٹھ نہیں سکتا

ہر داغ معاصی مرا اس دامن تر سے
جوں حرف سر کاغذ نم اٹھ نہیں سکتا

اتنا ہوں تری تیغ کا شرمندہ احسان
سر میرا ترے سر کی قسم اٹھ نہیں سکتا

پردہ در کعبہ سے اٹھانا تو ہے آسان
پر پردہ رخسار صنم اٹھ نہیں سکتا

کیوں اتنا گرانبار ہے جو رکت سفر بھی
اے راہرو ملک عدم اٹھ نہیں سکتا

دنیا کا زر و مال کیا جمع تو کیا ذوقؔ
کچھ فائدہ بے دستِ کرم اٹھ نہیں سکتا
*-*-*-*-*-*-*​

اس پر شاہ نصیر مرحوم کی غزل بھی دیکھو۔

الہٰی کس بے گنہ کو مارا سمجھ کے قاتل نے کشتنی ہے
کہ آج کوچہ میں اسکے شور باَیِّ ذَنب قَتَلتَّنِی ہے​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top