آب حیات - مولانا محمد حسین آزاد (مرحوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۲۰

زمین پر نور قمر کے گرنے سے صاف اظہار روشنی ہے
کہ جو ہیں روشن ضمیر ان کو فروغ ان کی فروتنی ہے

غم جدائی میں تیرے ظالم، کہوں میں کیا مجھ پہ کیا بنی ہے
جگر گذازی ہے سینہ کادی ہے، دلخراش ہے، جانکنی ہے

بشر جو اس تیرہ خاکدان میں پڑا یہ اس کی فروتنی ہے
وگرنہ قندیل عرش میں بھی اسی کے جلوہ کی روشنی ہے

ہوئے ہیں اس اپنی سادگی سے ہم آشنا جنگ و آشتی سے
اگر نہ ہو یہ تو پھر کسی سے نہ دوستی ہے نہ دشمنی ہے

کوئی ہے کافر، کوئی مسلمان، جدا ہر اک کی ہے راہ ایمان
جو اس کے نزدیک رہبری ہے وہ اسکے نزدیک رہزنی ہے

ہوئے ہیں تر گریہ ندامت سے اسقدر آستین و دامن
کہ میری تر دامنی کے آگے عرق عرق پاکدامنی ہے

نہیں ہے قانع کو خواہش زر، وہ مفلسی میں بھی ہے توانگر
جہاں میں مانند کیمیاگر ہمیشہ محتاج دل غنی ہے

لگا نہ اس بت کدہ میں تو دل، یہ ہے طلسم شکست غافل
کہ کوئی کیسا ہی خوش شمائل صنم ہے آخر شکستنی ہے

تکلفِ منزلِ محبت نہ کر چلا چل تو بے تکلف
کہ جابجا خار زار وحشت سے زیرپا فرشِ سوزنی ہے

خدنگ مژگان سے ذوقؔ اسکے دل اپنا سینہ سپر ہے جب سے​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۲۱

مثال آئینہ سخت جانی سے سینہ دیوار آہنی ہے
*-*-*-*-*-*-*

دریائے اشک چشم سے جس آن بہہ گیا
سن لیجیو کہ عرش کا ایوان بہہ گیا

بل بے گداز عشق کا خون ہو کے دل کیساتھ
سینہ سے تیرے تیر کا پیکان بہہ گیا

زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں
کیا ڈیڑھ چلو پانی سے ایمان بہہ گیا

ہے موج بحر عشق وہ طوفاں کہ الحفیظ
بیچارہ مشت خاک تھا انسان بہہ گیا

دریائے عشق میں دم تحریر حال و دل
کشتی کی طرح میرا قلمدان بہہ گیا

یہ روئے پھوٹ پھوٹ کے پاؤنکے آبلے
نالہ سا ایک سوئے بیاباں بہہ گیا

تھا تو بہا میں بیش پر اس لب کے سامنے
سب مول تیرا لعل بدخشاں بہہ گیا

کشتی سوار عمر ہے بحر فنا میں جسم
جس دم بہا کے لے گیا طوفان بہہ گیا

پنجاب میں بھی وہ نہ رہی آب و تاب حسن
اے ذوقؔ پانی اب تو وہ ملتان بہہ گیا
*-*-*-*-*-*-*-*

پاک رکھ اپنا وہاں ذکر خدائے پاک سے
کم نہیں ہرگز زباں منھ میں ترے مسواک سے

جب بنی تیر حوادث کی کماں افلاک سے
خاک کا تو وہ بنا انسان کی مشت خاک سے

جس طرح دیکھے قفس سے باغ کو مرغ اسیر
جھانکتا ہے یوں تجھے دل سینہ صدر چاک سے

تیرے صد نیم جاں کی جاں نکلتی ہی نہیں
باندھ رکھا ہے اسے بھی تو نے کیا فتراک سے

مجھ کو دوزخ، رشک جنت ہو اگر میرے لئے
واں بھی آتش ہو کسی کے روئے آتشاک سے

آفتاب حشر ہے یارب کہ نکلا گرم گرم
کوئی آنسو دل جلوں کے دیدہ نمناک سے

چشم بے پردہ کو ہو کس طرح نظارہ نصیب
جبکہ وہ پردہ نشیں پردہ کرے ادراک سے

بیت ساقی نامہ کی لکھو کوئی جائے دعا
مے پرستوں کے کفن پر چوب کلک تاک سے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۲۲

عیب ذاتی کو کوئی کہتا ہے حسن عارضی
زیب بداندام کو ہو ذوقؔ کیا پوشاک سے
*-*-*-*-*-*-*-*-*

جینا ہمیں اصلا نظر اپنا نہیں آتا
گر آج بھی وہ رشک مسیحا نہیں آتا

مذکور تری بزم میں کس کا نہیں آتا
پر ذکر ہمارا نہیں آتا نہیں آتا

دیتا دل مضطر کو تری کچھ تو نشانی
پر خط بھی ترے ہاتھ کا لکھا نہیں آتا

کیا جانے اسے وہم ہے کیا میری طرف سے
جو خواب میں بھی رات کو تنہا نہیں آتا

آیا ہے دم آنکھوں میں دم حسرتِ دیدار
پر لب پہ کبھی حرف تمنا نہیں آتا

کس دم نہیں ہوتا قلق ہجر ہے مجھ کو
کس وقت میرے منھ کو کلیجا نہیں آتا

میں جاتا جہاں سے ہوں تو آتا نہیں یانتک
کافر تجھے کچھ خوف خدا کا نہیں آتا

ہم رونے پہ آ جائیں تو دریا ہی بہائیں
شبنم کی طرح سے ہمیں رونا نہیں آتا

ہستی سے زیادہ ہے کچھ آرام عدم میں
جو جاتا ہے یاں سے وہ دوبارہ نہیں آتا

آنا ہے تو آ جا کہ کوکئی دم کی ہے فرصت
پھر دیکھئے آتا بھی ہے دم یا نہیں آتا

غافل ہے بہار چمن عمر جوانی
کر سیر کہ موسم یہ دوبارہ نہیں آتا

ساتھ ان کے ہیں ہم سایہ کی مانند ولیکن
اس پر بھی جدا ہیں کہ لپٹنا نہیں آتا

دنیا ہے وہ صیاد کہ سب دام میں اسکے
آ جاتے ہیں لیکن کوئی دانا نہیں آتا

دل مانگنا مفت اور پھر اس پہ تقاضا
کچھ قرض تو بندہ پہ تمہارا نہیں آتا

بجا ہے ولا اس کے نہ انے کی شکایت
کیا کیجئے گا فرمائیے اچھا نہیں آتا

جاتی رہے زلفوں کی لٹک دل سے ہمارے
افسوس کچھ ایسا ہمیں لٹکا نہیں آتا

جو کوچہ قاتل میں گیا پھر وہ نہ آیا
کیا جانے مزا کیا ہے کہ جینا نہیں آتا

آئے تو کہاں جائے، نہ تا جی سے کوئی جائے
جبتک اسے غصہ نہیں آتا نہیں آتا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۲۳

قسمت سے ہی لاچار ہوں اے ذوقؔ وگرنہ
سب فن میں ہوں میں طاق مجھے کیا نہیں آتا
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

مزے یہ دل کیلئے تھے نہ تھے زبان کیلئے
سو ہم نے دل میں مزے سوزش نہاں کیلئے

نہیں ثبات بلندی عز و شان کیلئے
کہ ساتھ اوج کے پستی ہے آسمان کیلئے

ہزار لفط ہیں جو ہر ستم میں جان کیلئے
ستم شریک ہوا کون آسمان کیلئے

فروغ عشق سے ہے روشنی جہاں کیلئے
یہی چراغ ہے اس تیرہ خاکدان کیلئے

صبا جو آئے خس و خار گلستان کیلئے
قفس میں کیونکہ نہ پھڑکے دل آشیاں کیلئے

دم عروج ہے کیا فکر نردبان کے لئے
کمند آہ تو ہے بام آسمان کیلئے

سدا تپش پہ تپش ہے دل تپاں کیلئے
ہمیشہ غم پہ ہے غم جان ناتواں کیلئے

حجر کے چومنے ہی پر ہو حج کعبہ اگر
تو بوسے ہم نے بھی اس سنگ آستان کیلئے

نہ چھوڑ تو کسی عالم میں راستی کہ یہ شے
عصا ہے پیر کو اور سیف ہے جواں کیلئے

جو پاس مہر و محبت یہاں کہیں بکتا
تو ہم بھی لیتے کسی اپنے مہربان کیلئے

خلش سے عشق کی ہے خار پیرہن تن زار
ہمیشہ اس ترے مجنونِ ناتواں کیلئے

تپش سے عشق کی یہ حال ہے مرا گویا
بجائے مغز ہے رباب استخواں کیلئے

مرے مزار پہ کس وجہ سے نہ برسے نور
کہ جان دی ترے روئے عرق فشاں کیلئے

الہٰی کان میں کیا اس صنم نے پھونکدیا
کہ ہاتھ رکھتے ہیں کانوں پہ سب اذاں کیلئے

نہیں ہے خانہ بدوشوں کو حاجت ساماں
اثاثہ چاہیے کیا خانہ کمال کے لئے

نہ دل رہا نہ جگر دونوں جل کے خاک ہوئے
رہا ہے سینہ میں کیا چشم خونفشان کیلئے

نہ لوح گور پہ ستوں کے ہو نہ ہو تعویذ
جو ہو تو خشت خم مےکوئی نشان کیلئے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۲۴

اگر امید نہ ہمسایہ ہو تو خانہ یاس
بہشت ہے ہمیں آرام جاوداں کیلئے

وہ مول لیتے ہیں جسدم کوئی نئی تلوار
لگاتے پہلے مجھی پر ہیں امتحان کیلئے

صریح چشم سخن گو تری کہے نہ کہے
جواب صاف ہے پر طاقت و تواں کیلئے

رہے ہے ہول کہ برہم نہ ہو مزاج کہیں
بجا ہے ہول دل انکے مزاج داں کیلئے

شال نے ہے مرا جب تلک کہ دم میں دم
فغاں ہے میرے لئے اور میں فغاں کیلئے

بلند ہووے اگر کوئی میرا شعلہ آہ
تو ایک اور ہو خورشید آسمان کے لئے

چلیں ہیں دیر کو مدت میں خانقاہ سے ہم
شکست توبہ لئے ارمغان مغاں کیلئے

وبال دوش ہے اس ناتواں کو سر لیکن
لگا رکھا ہے ترے خنجر وسناں کیلئے

بیان درد محبت جو ہو تو کیوں کر ہو
زباں نہ دل کیلئے ہے نہ دل زباں کیلئے

اشارہ چشم کا تیرے یکایک اے قاتل
ہوا بہانہ مری مرگ ناگہاں کے لئے

بنایا آدمی کو ذوقؔ ایک جزو ضعیف
اور اس ضعیف سے کل کام دو جہاں کے لئے​

نواب اصغر علی خاں نسیمؔ کے مشاعرہ میں غزل مذکورہ بالا طرح ہوئی تھی اور مومن صاحب کہ ان کے استاد تھے، استاد مرحوم کی خدمت میں آئے اور بڑے اصرار سے لے گئے۔ یہ پہلا مشاعرہ تھا جو بندہ آزاد نے دیدہ شوق سے دیکھا، غالبؔ مرحوم تشریف نہیں لائے مگر غزل لکھی تھی، ان دونوں استادوں کی غزلیں بھی لکھ دی ہیں۔ اہل نظر لطف حاصل کریں۔

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۲۵

نجم الدولہ دبیر الملک مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ

مرزا صاحب کو اصلی شوق فارسی کی نظم و نثر کا تھا اور اسی کمال کو اپنا فخر سمجھتے تھے، لیکن چونکہ تصانیف ان کی اردو میں بھی چھپی ہیں، اور جس طرح امراؤ رؤسائے اکبر آباد میں علو خاندان سے نامی اور میرزائے فارسی ہیں اُسی طرح اُردوئے معلی کے مالک ہیں۔ اس لئے واجب ہوا کہ ان کا ذکر اس تذکرہ میں ضرور کیا جائے۔ نام اسد اللہ تھا۔ پہلے اسدؔ تخلص کرتے تھے، جھجر میں کوئی فرومایہ سا شخص اسدؔ تخلص کرتا تھا، ایک دن اُس کا مطلع کسی نے پڑھا :

اسدؔ تم نے بنائی یہ غزل خوب
ارے او شیر رحمت ہے خدا کی​

سنتے ہی اس تخلص سے جی بیزار ہو گیا، کیونکہ ان کا ایک یہ بھی قاعدہ (دیوان فارسی میں ۲۰، ۲۵ شعر کا ایک قطعہ لکھا ہے، بعض اشخاص کا قول ہے کہ ذوق کی طرف چشمک ہے، غرض کہ اس میں کا ایک شعر ہے۔

راست میگویم من و از راست سرنتواں کشیہ
ہرچہ در گفتار فخر تست آں ننگِ من است​

تھا کہ عوام الناس کے ساتھ مشترک حال ہونے کو نہایت مکروہ سمجھتے تھے، چنانچہ ۱۳۴۵ھ و ۱۸۲۸ء میں اسد اللہ الغالب کی رعایت سے غالبؔ تخلص اختیار کیا۔ لیکن جن غزلوں میں اسدؔ تخلص تھا اُنھیں اُسی طرح رہنے دیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۲۶

خاندان کا سلسلہ افراسیاب بادشاہِ توران سے ملتا ہے، جب تورانیوں کا چراغ کیانیوں کی ہوائے اقبال سے گل ہوا تو غریب خانہ برباد جنگلوں پہاڑوں میں چلے گئے، مگر جوہر کی کشش نے تلوار ہاتھ سے نہ چھوڑی۔ سپہ گری ہمت کی بدولت روٹی پیدا کرنے لگی۔ سینکڑوں برس کے بعد پھر اقبال ادھر جھکا اور تلوار سے تاج نصیب ہوا چنانچہ سلجوقی خاندان کی بنیاد انھیں میں قائم ہو گئی مگر اقبال کا جھکنا جھوکا ہوا کا ہے، کئی پشتوں کے بعد اُس نے پھر رُخ پلٹا، اور سمرقند میں جس طرح اور شرفاء تھے اسی طرح سلجوقی شہزادوں کو بھی گھروں میں بٹھا دیا۔

مرزا صاحب کے دادا گھر چھوڑ کر نکلے، نشاہ عالم کا زمانہ تھا کہ دہلی میں آئے۔ یہاں بھی سلطنت میں کچھ نہ رہا تھا، صرف پچاس گھوڑے اور نقارہ و نشان سے شاہی دربار میں عزت پائی اور اپنی لیاقت اور خاندان کے نام سے پہاسو کا ایک پرگنہ سیر حاصل ذات اور رسالے کی تنخواہ میں لیا، شاہ عالم کے بعد طوائف الملوکی کا ہنگامہ گرم ہوا، وہ بھی نہ رہا، اُن کے والد عبد اللہ بیگ خاں لکھنو جا کر نواب آصف الدولہ مرحوم کے دربار میں پہنچے، چند روز بعد حیدر آباد میں جا کر نواب نظام علی خان بہادر کی سرکار میں تین سو سوار کی جمعیت سے ملازم رہے، کئی برس بعد ایک خانہ جنگی کے بکھیڑے میں یہ صورت بھی بگڑی، وہاں سے گھر آئے اور الور میں راجہ بختاور سنگھ کی ملازمت اختیار کی، یہاں کسی لڑائی میں مارے گئے۔ اُس وقت مرزا کی پانچ برس کی عمر تھی۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۲۷

نصر اللہ بیگ خاں حقیقی چچا مرہٹوں کی طرف سے اکبر آباد کے صوبیدار تھے، انھوں نے در یتیم کو دامن میں لے لیا۔ ۱۸۰۶؁ء میں جرنیل لیک صاحب کا عمل ہوا تو صوبہ داری کمشنری ہو گئی۔ ان کے چچا کو سواروں کی بھرتی کا حکم ہوا اور چار سو سوار کے افسر ہوئے۔ سترہ سو روپیہ مہینہ ذات کا اور لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپیہ سال کی جاگیر سونگ سون کے پرگنہ پرحین حیات مقرر ہو گئی۔

مرزا چچا کے سایہ میں پرورش پاتے تھے۔ مگر اتفاق یہ کہ مرگِ ناگہانی میں وہ مر گئے۔ رسالہ برطرف ہو گیا۔ جاگیر ضبط ہو گئی، بزرگوں نے لاکھوں روپیہ کی جائداد چھوڑی تھی، قسمت سے کس کا زور چل سکتا ہے۔ وہ امیرزادہ جو شاہانہ دل و دماغ لے کر آیا تھا، اُسے ملک سخن کی حکومت اور مضامین کی دولت پر قناعت کر کے غریبانہ حال سے زندگی بسر کرنی پڑی۔ بہت تدبیریں اور وسیلے درمیان آئے مگر سب کھیل بن بن کر بگڑ گئے، چنانچہ اخیر (اصل حال یہ ہے کہ جب مرزا نے اپنا دعویٰ کلکتہ میں پیش کیا تو سرکار نے اسکا فیصلہ سرجان مالکم صاحب گورنر بمبئی کے سپرد کیا۔ کیونکہ جب جاگیروں کی سندیں لکھی گئی تھیں تو لارڈ لیک صاحب کمانڈر انچیف ہندوستان کے سکریٹری تھے اور انھیں کے دستخط سے اسناد جاری ہوئے تھے۔جب ان کے پاس یہ مقدمہ اور اس کے کاغذات پہنچے تو انھوں نے لکھا کہ مدعی غلط کہتا ہے۔ نواب احمد بخش خاں ہمارا قدیمی دوست تھا اور بڑا راستباز تھا۔ اس پر یہ اتہام ضد سے کیا گیا ہے۔ ہم نے پانچہزار روپے سالانہ لکھا تھا جس میں سے ۳ ہزار مدعی اور اس کے متوسیلین کیلئے تھے اور دو ہزار خواجہ حاجی اور اسکے وارثوں کے نام تھے۔ پھر مرزا صاحب نے ولایت میں مرافعہ کیا وہاں بھی کچھ نہوا بموجب تحقیق نواب ضیاء الدین خان بہادر دام ظلہم العالی کے تحریر ہوا۔)
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۲۸

میں کسی دوست نے انھیں لکھا کہ نظام دکن کے لئے قصیدہ کہہ کر فلاں ذریعہ سے بھیجو، اُس کے جواب میں آپ فرماتے ہیں، ۵ برس کا تھا کہ میرا باپ مرا، ۹ برس کا تھا کہ چچا مرا، اس کی جاگیر کے عوض میرے اور میرے شرکائے حقیقی کے واسطے شامل جاگیر نواب احمد بخش خاں دس ہزار روپیہ سال مقرر ہوئے۔ انھوں نے نہ دیئے، مگر تین ہزار روپیہ سال ان میں سے خاص میری ذات کا حصہ ساڑھے سات سو روپیہ سال فقط میں نے سرکار انگریزی میں غبن ظاہر کیا، کولبرک صاحب بہادر رزیڈنٹ دہلی اور استرلنگ صاحب بہادر سکرتر گورنمنٹ کلکتہ متفق ہوئے، میرا حق دلانے پر رزیڈنٹ معزول ہو گئے، سکرتر گورنمنٹ بمرگ ناگاہ مر گئے، بعد ایک زمانہ کے بادشاہ دہلی نے پچاس روپیہ مہینہ مقرر کیا، ان کے ولی عہد اس تقرر کے دو برس بعد مر گئے۔ واجد علی شاہ اودھ کی سرکار سے بہ صلہ مدح گستری ۵۰۰ روپیہ سال مقرر ہوئے، وہ بھی دو برس سے زیادہ نہ جئے، یعنی اگرچہ اب تک جیتے ہیں مگر سلطنت جاتی رہی اور تباہی سلطنت دو ہی برس میں ہوئی۔ دلی کی سلطنت کچھ سخت جان تھی، ۷ برس مجھ کو روٹی دے کر بگڑی، ایسے طالع مربی کش اور محسن سوز کہاں پیدا ہوتے ہیں، اب جو میں والی دکن کی طرف رجوع کرو، یاد رہے کہ متوسط یا مر جائے گا یا معزول ہو جائے گا اور اگر یہ دونوں امر واقع نہ ہوئے تو کوشش اس کی ضائع ہو جائے گی۔ والی شہر مجھ کو کچھ نہ دے گا اور احیاناً اگر اُس نے سلوک کیا تو ریاست
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۲۹

خاک میں مل جائے گی۔ ملک میں گدھے کے ہل پھر جائیں گے۔

غرض کہ نواب احمد بخش خاں بہادر کی تقسیم سے مرزائے مرحوم نالاں ہو کر ۱۸۳۰؁ء میں کلکتہ گئے اور گورنر جنرل سے ملنا چاہا۔ وہاں دفتر دیکھا گیا، اس میں سے ایسا کچھ معلوم ہوا کہ اعزازِ خاندانی کے ساتھ ملازمت ہو جائے اور ۷ پارچہ خلعت، معہ رقم جیفہ، مرصع مالائے مروارید ریاست دودمانی رعایت سے مقرر ہوا۔

غرض مرزا کلکتہ سے ناکام پھرے اور ایام جوانی ابھی پورے نہ ہوئے تھے کہ بزرگوں کا سرمایہ تمام کر کے دلّی میں آئے، یہاں اگرچہ گزر اُن کا امیرانہ شان سے تھا، اور امیروں سے امیرانہ ملاقات تھی، مگر اپنے علو حوصلہ اور بلند نظری کے ہاتھوں تنگ رہتے تھے، پھر بھی طبیعت ایسی شگفتہ پائی تھی کہ ان وقتوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ ہمیشہ ہنس کھیل کر غم غلط کر دیتے تھے۔ کیا خوب فرمایا ہے :

مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو
یک گونہ بیخودی مجھے دن رات چاہیے​

جب دلی تباہ ہوئی تو زیادہ تر مصیبت پڑی، ادھر قلعہ کی تنخواہ جاتی رہی، اُدھر پنشن بند ہو گئی اور انھیں رام پور جانا پڑا۔ نواب صاحب سے ۲۰، ۲۵ برس کا تعارف تھا یعنی ۱۸۵۵؁ء میں ان کے شاگرد ہوئے تھے اور ناظمؔ تخلص قرار پایا تھا، وہ گاہے گاہے غزل بھیج دیتے تھے کبھی روپیہ بھی آتا تھا۔اس وقت قلعہ کی تنخواہ جاری، سرکاری پنشن کھلی ہوئی تھی، ان کی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۳۰

عنایت فتوحِ غیبی گنی جاتی تھی۔ جب دلی کی صورت بگڑی تو زندگی کا مدار اس پر ہو گیا، نواب صاحب نے ۱۸۵۹؁ء سے سو روپیہ مہینہ کر دیا اور انھیں بڑی تاکید سے بلایا، یہ گئے تو تعظیم خاندانی کے ساتھ دوستانہ و شاگردانہ بغل گیر ہو کر ملاقات کی اور جب تک رکھا کمال عزت کے ساتھ رکھا۔ بلکہ سو روپیہ مہینہ ضیافت کا زیادہ کر دیا، مرزا کو دلّی کے بغیر چین کہاں؟ چند روز کے بعد رخصت ہو کر پھر وہیں چلے آئے چونکہ سرکاری پنشن بھی جاری ہو گئی تھی، اس لئے چند سال زندگی بسر کی۔

آخر عمر میں بڑھاپے نے بہت عاجز کیا، کانوں سے سنائی نہ دیتا تھا۔ نقشِ تصویر کی طرح لیٹے رہتے تھے، کسی کو کچھ کہنا ہوتا تھا تو لکھ کر رکھ دیتا تھا وہ دیکھ کر جواب دے دیتے تھے، خوراک دو تین برس سے یہ رہ گئی تھی کہ صبح کو پانچ سات بادام کا شیرہ، ۱۲ بجے آب گوشت، شام کو ۴ کباب تلے ہوئے، آخر ۷۳ برس کی عمر ۱۸۶۹ء ۱۲۸۵ھ میں جہان فانی سے انتقال فرمایا اور بندہ آٹم نے تاریخ لکھی۔ "آہ غالب بمرد" مرنے سے چند روز پہلے یہ شعر کہا تھا اور اکثر یہی پڑھتے رہتے تھے۔

دمِ واپسیں برسرراہ ہے
عزیزو اب اللہ ہی اللہ ہے

مرزا صاحب کے حالات اور طبعی عادات

اس میں کچھ شک نہیں کہ مرزا اہل ہند میں فارسی کے باکمال شاعر تھے مگر علوم درسی کی تحصیل طالب علمانہ طور سے نہیں کی اور حق پوچھو تو یہ بڑے فخر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۳۱

کی بات ہے کہ ایک امیرزادہ کے سر سے بچپن میں بزرگوں کی تربیت کا ہاتھ اٹھ جائے اور وہ نقطہ طبعی ذوق سے اپنے تئیں اس درجہ کمال تک پہنچائے۔ وہ کیسی طبع لایا ہو گا جس نے اس کے فکر میں بلند پروازی دماغ میں یہ معنی آفرینی، خیالات میں ایسا انداز، لفظوں میں نئی تراش اور ترکیب میں انوکھی روش پیدا کی۔جابجا خود ان کا قول ہے اور حقیقت میں لطف سے خالی نہیں کہ زبان فارسی سے مجھے مناسبت ازلی ہے، ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ میری طبیعت کو اس زبان سے ایک قدرتی لگاؤ ہے، میر مفتی عباس صاحب کو قاطع برہان بھیج کر خط لکھا ہے۔ اس میں فرماتے ہیں دیباچہ اور خاتمہ میں جو کچھ لکھ آیا ہوں سب سچ ہے۔ کلام کی حقیقت کی داد جدا چاہتا ہوں۔ نگارش لطافت سے خالی نہ ہو گی، علم و ہنر سے عاری ہوں لیکن پچپن برس سے محوِ سخن گزاری ہوں۔ مبدء فیاض کا مجھ پر احسانِ عظیم ہے، ماخذ میرا صحیح اور طبع میری سلیم ہے، فارسی کے ساتھ ایک مناسبت ازلی اور سرمدی لایا ہوں، مطابق اہل پارس کے منطق کا مزہ بھی ابدی لایا ہوں۔

ہرمزد نام ایک پارسی ژوند پاژند کا عالم تھا، اس نے اسلام اختیار کیا اور عبد الصمد اپنا نام رکھا۔ ایام سیاحت میں ہندوستان کیطرف آ نکلا اور مرزا سے بھی ملاقات ہوئی، اگرچہ ان کی عمر اس وقت ۱۴ برس کی تھی مگر مناسبتِ ازلی طبیعت میں تھی جس نے اُسے کھینچا۔ اور دو برس تک گھر مہمان رکھ کر اکتسابِ کمال کیا۔ اس روشن ضمیر کے فیضان صحبت کا انھیں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۳۲

فخر تھا اور حقیقت میں یہ امر فخر کے قابل ہے۔

میں نے چاہا کہ مراز صاحب کی تصویر الفاظ و معانی سے کھینچوں۔ مگر یاد آیا کہ انھوں نے ایک جگہ اسی رنگ و روغن سے اپنی تصویر آپ کھینچی ہے، میں اس سے زیادہ کیا کر لوں گا۔ اس کی نقل کافی ہے، مگر اول اتنا سن لو کہ مرزا حاتم علی مہرؔ ایک شخص آگرہ میں تھے، مرزا کے اور آخر عمر میں اس ہموطن بھائی سے خط و کتابت جاری ہوئی، وہ ایک وجیہ اور طرحدار جوان تھے۔ ان سے ان کی دید وادید نہ ہوئی، لیکن کسی زمانہ کی ہم وطنی، شعر گوئی، ہم مذہبی اور اتحاد خیالات کے تعلق سے شاید کسی جلسہ میں مرزا نےکہا کہ مرزا حاتم علی مہرؔ کو سنتا ہوں کہ طرحدار آدمی ہیں، دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔ اُنھیں جو یہ خبر پہنچی تو مرزا کو خط لکھا اور اپنا حلیہ بھی لکھا۔ اب اس کے جواب میں جو مرزا آپ ہی اپنی تصویر کھینچتے ہیں اُسے دیکھنا چاہیے "بھائی تمھاری طرحداری کا ذکر میں نے مغل جان سے سنا تھا جس زمانہ میں کہ وہ حامد علی خاں کی نوکر تھی اور اُس میں مجھ میں بے تکلفانہ ربط تھا تو اکثر مغل جان سے پہروں اختلاط ہوا کرتے تھے، اُس نے تمھارے شعر اپنی تعریف کے بھی مجھ کو دکھائے، بہر حال تمھارا حلیہ دیکھ کر تمھارے کشیدہ قامت ہونے کا مجھے رشک نہ ایا، کس واسطے کہ میرا قد بھی درازی میں انگشت نما ہے، تمھارے گندمی رنگ پر رشک نہ آیا، کس واسطے کہ جب میں نیتا تھا تو میرا رنگ چنپئی تھا اور دیدہ در لوگ اس کی ستائش کیا کرتے تھے، اب جو کبھی مجھ کو وہ اپنا رنگ یاد آتا ہے تو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۳۳

چھاٹی پر سانپ سا پھر جاتا ہے۔ ہاں مجھ کو رشک آیا اور میں نے خونِ جگر کھایا تو اس بات پر کہ (تمھاری) ڈاڑھی خوب گھٹی ہوئی ہے، وہ مزے یاد آ گئے کیا کہوں جی پر کیا گزری، بقول شیخ علی حزیں :

تا دستر سم بود زوم چاک گریباں
شرمندگی از کرقہ پشمینہ ندارم​

جب ڈاڑھی موچھ میں بال سفید آ گئے، تیسرے دن چیونٹی کے انڈے گالوں پر نظر آنے لگے۔ اس سے برھ کر یہ ہوا کہ آگے کے دو دانت ٹوٹ گئے، ناچار (میں نے) مسّی بھی چھوڑ دی اور ڈاڑھی بھی، مگر یہ یاد رکھیے کہ اس بھونڈے شہر (یعنی دہلی میں) ایک دردی ہے عام، مُلّا، حافظ بساطی، نیچہ بند، دھوبی، سقہ، بھٹیارہ، جلاہا، کنجڑہ، منھ پر ڈاڑھی، سر پر بال، میں نے جس دن ڈاڑھی رکھی اُسی دن سر منڈایا۔ اس فقرہ سے معلوم ہوا کہ اپنا انداز سب سے الگ رکھنا چاہیے تھے۔ لباس ان کا اکثر اہل ولایت کا ہوتا تھا، سر پر اگرچہ کلاہ پاپاخ نہ تھی، مگر لمبی ٹوپی سیاہ پوستین کی ہوتی تھی اور ایسا ضرور چاہیے تھا۔ کیونکہ وہ فارسی نویسی کو نہ فقط ذوق بلکہ عشق دلی کے ساتھ نباہتے تھے اور لباس و گفتار کی کچھ خصوصیت نہیں، وہ اپنی قدامت کی ہر بات سے محبت رکھتے تھے، خصوصاً خاندان کے اعزازوں کو ہمیشہ جانکاہ عرق ریزیوں کے ساتھ بچاتے رہے، اس اعزاز کو کہ جو اُن کے پاس باقی تھے۔ دو دفعہ آسمانی صدمے پہنچے، اول جب کہ چچا کا انتقال ہوا، دوسرے جب ۱۸۵۸؁ء میں ناکردہ گناہ بغاوت کے جرم میں پنشن کے ساتھ کرسی دربار اور خلعت بند ہوا۔ اُردوئے معلٰی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۳۴

میں بیسوں دوستوں کے نام خط ہیں، کوئی اس کے ماتم سے خالی نہیں۔ اُن کے لفظوں سے اس غم میں خون ٹپکتا ہے اور دل پر جو گزرتی ہو گی، وہ تو خدا ہی کو خبر ہے، آخر پھر ان کی جگہ اور اپنا حق لیا اور بزرگوں کے نام کو قائم رکھا۔

۱۸۴۲ء میں گورنمنٹ انگلشیہ کو دہلی کالج کا انتظام از سرِ نو منظور ہوا۔ ٹامسن صاحب جو کئی سال تک اضلاعِ شمال و مغرب کے لفٹنٹ گورنر بھی رہے، اس وقت سکریٹری تھے، وہ مدرسین کے امتھان کے لئے دلی آئے اور چاہا کہ جس طرح سو روپیہ مہینہ کا ایک مدرس عربی ہے ایسا ہی ایک فارسی کا بھی ہو، لوگوں نے چند کاملوں کے نام بتائے، ان میں مرزا کا نام بھی آیا، مرزا صاحب حسب الطلب تشریف لائے، صاحب کو اطلاع ہوئی مگر یہ پالکی سے اتر کر اس انتظار میں ٹھہرے کہ حسبِ دستور قدیم صاحب سکریٹری استقبال کو تشریف لائیں گے، جب کہ نہ وہ ادھر سے نہ یہ ادھر سے گئے، دیر ہوئی تو صاحب سکریٹری نے جمعدار سے پوچھا، وہ پھر باہر آیا کہ آپ کیوں نہیں چلتے، انھوں نے کہا کہ صاحب استقبال کو تشریف نہیں لائے میں کیونکر جاتا، جمعدار نے جا کر پھر عرض کی، صاحب باہر آئے اور کہا جب آپ دربار گورنری میں بہ حیثیت ریاست تشریف لائیں گے تو آپ کی وہ تعظیم ہو گی لیکن اس وقت آپ نوکری کے لئے آئے ہیں، اس تعظیم کے مستحق نہیں، مرزا صاحب نے فرمایا کہ گورنمنٹ کی ملازمت باعثِ زیادتی اعزاز سمجھتا ہوں، نہ یہ کہ بزرگوں کے اعزاز
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۳۵

کو بھی گنوا بیٹھوں، صاحب نے فرمایا کہ ہم آئین سے مجبور ہیں۔ مرزا صاحب رخصت ہو کر چلے آئے۔ صاحب موصوف نے مومن خاں صاحب کو بلایا، ان سے کتاب پڑھوا کر سُنی اور زبانی باتیں کر کے اسی (۸۰) روپے تنخواہ قرار دی۔ انھوں نے سو روپے سے کم منظور نہ کئے، صاحب نے کہا سو (۱۰۰) روپے لو تو ہمارے ساتھ چلو، ان کے دل نے نہ مانا کہ دلّی کو ایسا سستا بیچ ڈالیں۔ مرزا کے کھلے ہوئے دل اور کھلے ہوئے ہاتھ نے ہمیشہ مرزا کو تنگ رکھا، مگر اس تنگ دستی میں بھی امارت کے تمغے قائم تھے، چنانچہ اردوئے معلٰی کے اکثر خطوط سے یہ آئینہ ہے۔ مرزا تفتہ (مرزا صاحب سے بھی عمر میں بڑے معلوم ہوتے تھے، فارسی کے عاشق تھے، اس لئے باوجود ہندو ہونے کے مرزا تفتہ کے نام سے بڑے خوش ہوتے تھے، دیوانِ قصائد اور دیوان غزلیاب چھپوا دیا تھا، فارسی میں شعر کہتے تھے۔) اپنے شاگرد رشید کو ایک خط میں لکھتے ہیں۔ سو روپیہ کی ہنڈی وصول کر لی۔ ۲۴ روپیہ داروغہ کی معرفت اٹھے تھے وہ دیے، ۵۰ روپیہ محل میں دیے۔ ۲۶ باقی رہے وہ بکس میں رکھ لیے۔ کلیان سودا لینے بازار گیا ہے، جلد آ گیا تو آج ورنہ کل یہ خط ڈاک میں بھیج دوں گا۔ خدا تم کو جیتا رکھے اور اجر دے، بھائی بُری آ بنی ہے، انجام اچھا نظر نہیں آتا۔ قصّہ مختصر یہ کہ قصہ تمام ہوا۔

کدارناتھ آپ کا دیوان تھا، اسی عالم میں آ کر ماہ بماہ چٹھا بانٹ دیتا تھا۔ آپ کہیں سفر میں گئے ہیں تو اس کے لئے بار بار خطوط میں احکام بھیجتے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۳۶

ہیں، چنانچہ ایک خط میں لکھتے ہیں "ہنڈی میں ۱۲ دن کی میعاد تھی، ۶ دن گزر گئے تھے، ۶ دن باقی تھے، مجھ کو صبر کہا، مسّی کاٹ کر روپے لے لئے۔ قرض متفرق سب ادا ہوا، بہت سبک دوش ہو گیا۔ آج میرے پاس ۴۷ روپے نقد بکس میں ہیں اور ۴ بوتل شراب کی اور ۳ شیشے گلاب کے توشہ کانہ میں موجود ہیں، الحمد للہ علیٰ احسانہ"

ایک اور جگہ اپنی بیماری کا حال کسی کو لکھتے ہیں، محل سرا اگرچہ دیوان خانہ کے بہت قریب ہے پر کیا امکان جو چل سکوں، صبح کو ۹ بجے کھانا یہیں آ جاتا ہے۔ پلنگ پر سے کھل پڑا، ہاتھ منھ دھو کر کھانا کھایا، پھر ہاتھ دھوئے، کلی کی، پلنگ پر جا پڑا۔ پلنگ کے پاس حاجتی لگی رہتی تھی اٹھا اور حاجتی میں پیشاب کر لیا اور پڑ رہا۔

نواب آلہی بخش خاں مرحوم کی صاحبزادی سے مرزا صاحب کی شادی ہوئی اور اُس وقت ۱۳ برس کی عمر تھی۔ باوجودیکہ اوضاع و اطوار آزادانہ رکھتے تھے لیکن آخر صاحبِ خاندان تھے، گھرانے کی لاج پر خیال کر کے بی بی کے پاس خاطر بہت مدِّ نظر رکھتے تھے، پھر بھی اس قید سے کہ خلاف طبع تھی، جب بہت دق ہوتے تھے تو ہنسی میں ٹال دیتے تھے۔ چنانچہ دوستوں کی زبانی بعض نقلیں بھی نہیں، اور ان کے خطوط سے بھی اکثر جگہ پایا جاتا ہے۔ ایک قدیمی شاگرد سے ایسے معاملات میں بے تکلفی تھی۔ اس نے امراؤ سنگھ نام ایک اور شاگرد کی بی بی کے مرنے کا حال مرزا صاحب کو لکھا اور یہ بھی لکھا کہ ننھے ننھے بچے ہیں، اور اب شادی نہ کرے تو کیا کرے؟ پھر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۳۷

بچے کون پالے؟ اُس شخص کی ایک بی بی پہلے مر چکی تھی اور یہ دوسری بی بی مری تھی۔ اب حضرت اُس کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں، امراؤ سنگھ کے حال پر اُس کے واسطے رحم اور اپنے واسطے رشک آتا ہے، اللہ اللہ ایک وہ ہیں کہ دو بار بیڑیاں کٹ چکی ہیں اور ایک ہم ہیں کہ ایک اوپر پچاس برس سے جو پھانسی کا پھندا گلے میں پڑا ہے تو نہ پھندا ہی ٹوٹتا ہے نہ دم ہی نکلتا ہے۔ اس کو سمجھاؤ کہ بھائی تیرے بچّوں کو میں پال لوں گا، تو کیوں بلا میں پھنستا ہے۔" جب ان کی پنشن کھلی تو ایک اور شخص کو لکھتے ہیں۔ "تجھ کو میری جان کی قسم اگر میں تنہا ہوتا تو اس قلیل آمدنی میں کیسا فارغ البال و خوش حال رہتا۔" مرزا صاحب نے فرزندانِ روحانی یعنی پاک خیالات اور عالی مضامین کا ایک انبوہ بے شمار اپنی نسل میں یادگار چھوڑا، مگر افسوس کہ جس قدر ادھر خوش نصیب ہوئے، اسی قدر فرزندانِ ظاہری کی طرف سے بے نصیب ہوئے، چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں "سات بچے ہوئے مگر برس برس دن کے پس و پیش میں سب ملکِ عدم کو چلے گئے۔" اُن کی بی بی کے بھانجے آلہی بخش مرحوم کے نواسے زین العابدین خاں تھے۔ وہ بھی شعر کہا کرتے تھے اور عارف تخلص کرتے تھے، عارف جوان مر گئے اور دو ننھے ننھے بچے یادگار چھوڑے، بی بی ان بچوں کو بہت چاہتی تھیں، اس لئے مرزا نے انھیں اپنے بچوں کی طرح پالا، بڑھاپے میں انھیں اپنے گلے کا ہار کئے پھرتے تھے، جہاں جاتے وہ پالکی میں ہوتے تھے، اُن کے آرام
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۳۸

کے لئے آپ بے آرام ہوتے تھے، اُن کی فرمائشیں پوری کرتے تھے۔ افسوس کے مرزا کے بعد دونوں جوان مر گئے۔ نواب احمد بخش خاں مرحوم کے رشید فرزند مرزا صاحب کی تکلیف نہ دیکھ سکتے تھے۔ کمال کی دولت ان سے لیتے تھے۔ دنیا کی ضرورتوں میں انھیں آرام دیتے تھے۔ چنانچہ نواب ضیاء الدین خاں صاحب شاگرد ہیں۔ نواب امین الدین خاں مرحوم لوہارو بھی آداب خوردانہ کے ساتھ خدمت کرتے تھے۔ نواب علاؤ الدین خاں وائی حال اس وقت ولی عہد تھے۔ بچپن سے شاگرد ہیں چنانچہ مرزا صاحب نواب علاؤ الدین خاں صاحب کو لکھتے ہیں۔ "میاں بڑی مصیبت میں ہوں، محلسرا کی دیواریں گر گئی ہیں، پاخانہ ڈھ گیا۔ چھتیں ٹپک رہی ہیں۔ تمھاری پھوپھی (نواب آلہی بخش خاں مرحوم کی بیٹی، نواب احمد بخش خاں مرحوم کی حقیقی بھتیجی ہوئیں، وہ ان کی بی بی تھیں۔) کہتی ہیں "ہائے دبی مری، دیوان خانہ کا حال محل سرا سے بدتر ہے، مرنے سے نہیں ڈرتا، فقدانِ راحت سے گھبرا گیا ہوں۔ چھت چھلنی ہے، ابر دو گھنٹے برسے تو چھت چار گھنٹے برستی ہے۔ مالگ اگر چاہے کہ مرمت کرے تو کیونکر کرے۔ مینھ کھلے تو سب کچھ ہو اور پھر اثنائے مرمت میں میں بیٹھا کس طرح رہوں۔ اگر تم سے ہو سکے تو برسات تک بھائی سے وہ حویلی جس میں میر حسن رہتے تھے اپنی پھوپھی کے رہنے کو اور کوٹھی میں سے وہ بالا خانہ مع دالان زیرین جو آلہی بخش خاں مرحوم کا مسکن تھا، میرے رہنے کو دلوا دو، برسات گزر جائے گی، مرمت ہو جائیگی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۳۹

پھر صاحب اور میم اور بابا لوگ (چونکہ کوٹھے کا مکان رہنے کو مانگا ہے اس لئے اپنے تئیں صاحب اور بی بی صاحبہ اور بچوں کو بابا لوگ بنایا۔) اپنے قدیم مسکن میں آ رہیں گے۔ تمھارے والد کے ایثار و عطا کے جہاں مجھ پر احسان ہیں، ایک یہ مروت کا احسان میرے پایان عمر میں اور بھی سہی۔ غالبؔ"

مرزا کثیر الاحباب تھے، دوستوں سے دوستی کو ایسا نباہتے تھے کہ اپنایت سے زیادہ ان کی دوست پرستی خوش مزاجی کے ساتھ فریق ہو کر ہر وقت ایک دائرہ شرفا اور رئیس زادوں کا ان کے گرد دکھاتی تھی، انہی سے غم غلط ہوتا تھا اور اسی میں ان کی زندگی تھی۔ لطف یہ کہ دوستوں کے لڑکوں سے بھی وہی باتیں کرتے تھے، جو دوستوں سے ۔ ادھر ہونہار جوانوں کا مؤدب بیٹھنا، ادھر سے بزرگانہ لطیفوں کا پھول برسانا، ادھر سعادت مندوں کا چپ مسکرانا اور بولنا تو حد ادب سے قدم نہ بڑھانا، ادھر پھر بھی شوخی طبع سے باز نہ آنا، ایک عجیب کیفیت رکھتا تھا، بہرحال انہی لطافتوں اور ظرافتوں میں زمانے کی مصیبتوں کو ٹالا اور ناگوار کو گوارا کر کے ہنستے کھیلتے چلے گئے، چنانچہ میر مہدی، میر سرفراز حسین، نواب یوسف مرزا وغیرہ اکثر شریف زادوں کے لئے خطوط اردوئے معلی میں ہیں، جو کہ ان جلسوں کے فوٹو گراف دکھاتے ہیں۔

زمانہ کی بے وفائی نے مرزا کو وہ فارغ البالی نصیب نہ کی جو ان کے خاندان اور کماں کے لئے شایاں تھی، اور انہی دو باتوں کا مرزا کو
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top