شمشاد
لائبریرین
صفحہ ۶۲۰
زمین پر نور قمر کے گرنے سے صاف اظہار روشنی ہے
کہ جو ہیں روشن ضمیر ان کو فروغ ان کی فروتنی ہے
غم جدائی میں تیرے ظالم، کہوں میں کیا مجھ پہ کیا بنی ہے
جگر گذازی ہے سینہ کادی ہے، دلخراش ہے، جانکنی ہے
بشر جو اس تیرہ خاکدان میں پڑا یہ اس کی فروتنی ہے
وگرنہ قندیل عرش میں بھی اسی کے جلوہ کی روشنی ہے
ہوئے ہیں اس اپنی سادگی سے ہم آشنا جنگ و آشتی سے
اگر نہ ہو یہ تو پھر کسی سے نہ دوستی ہے نہ دشمنی ہے
کوئی ہے کافر، کوئی مسلمان، جدا ہر اک کی ہے راہ ایمان
جو اس کے نزدیک رہبری ہے وہ اسکے نزدیک رہزنی ہے
ہوئے ہیں تر گریہ ندامت سے اسقدر آستین و دامن
کہ میری تر دامنی کے آگے عرق عرق پاکدامنی ہے
نہیں ہے قانع کو خواہش زر، وہ مفلسی میں بھی ہے توانگر
جہاں میں مانند کیمیاگر ہمیشہ محتاج دل غنی ہے
لگا نہ اس بت کدہ میں تو دل، یہ ہے طلسم شکست غافل
کہ کوئی کیسا ہی خوش شمائل صنم ہے آخر شکستنی ہے
تکلفِ منزلِ محبت نہ کر چلا چل تو بے تکلف
کہ جابجا خار زار وحشت سے زیرپا فرشِ سوزنی ہے
خدنگ مژگان سے ذوقؔ اسکے دل اپنا سینہ سپر ہے جب سے
کہ جو ہیں روشن ضمیر ان کو فروغ ان کی فروتنی ہے
غم جدائی میں تیرے ظالم، کہوں میں کیا مجھ پہ کیا بنی ہے
جگر گذازی ہے سینہ کادی ہے، دلخراش ہے، جانکنی ہے
بشر جو اس تیرہ خاکدان میں پڑا یہ اس کی فروتنی ہے
وگرنہ قندیل عرش میں بھی اسی کے جلوہ کی روشنی ہے
ہوئے ہیں اس اپنی سادگی سے ہم آشنا جنگ و آشتی سے
اگر نہ ہو یہ تو پھر کسی سے نہ دوستی ہے نہ دشمنی ہے
کوئی ہے کافر، کوئی مسلمان، جدا ہر اک کی ہے راہ ایمان
جو اس کے نزدیک رہبری ہے وہ اسکے نزدیک رہزنی ہے
ہوئے ہیں تر گریہ ندامت سے اسقدر آستین و دامن
کہ میری تر دامنی کے آگے عرق عرق پاکدامنی ہے
نہیں ہے قانع کو خواہش زر، وہ مفلسی میں بھی ہے توانگر
جہاں میں مانند کیمیاگر ہمیشہ محتاج دل غنی ہے
لگا نہ اس بت کدہ میں تو دل، یہ ہے طلسم شکست غافل
کہ کوئی کیسا ہی خوش شمائل صنم ہے آخر شکستنی ہے
تکلفِ منزلِ محبت نہ کر چلا چل تو بے تکلف
کہ جابجا خار زار وحشت سے زیرپا فرشِ سوزنی ہے
خدنگ مژگان سے ذوقؔ اسکے دل اپنا سینہ سپر ہے جب سے