بیٹیاں
بیٹیاں
ہر رشتے کو ہر حال میں نبھاتی ہیں بیٹیاں
پھر بھی ان پہ تہمتیں لگاتی ہے یہ دنیا
ماں باپ کی دہلیز پر جنم جب لیتی ہیں بیٹیاں
نہ جانے کیوں غم میں تبدیل ہو جاتی ہیں اس گھر کی خوشیاں
ماں باپ کیوں نہیں سوچتے کچھ دن مہمان ہیں بیٹیاں
چھوڑ وہ دہلیز وہ آنگن اک دن چلی جائیں گی بیٹیاں
اک روز بن ماں ممتا نچھاور کرتی ہیں بیٹیاں
ہر فرض باخوبی انجام دیتی ہیں بیٹیاں
سونا ہو ہر آنگن جو نہ ہو یہ بیٹیاں
بیکار ہے ہر ساون جو جھولے نہ یہ بیٹیان
نہ دفن کرو اے لوگوں کفن میں یہ بیٹیاں
تمہارے ہی جسم کا اک حصہ ہیں یہ بیٹیاں
بند کر دو اے حیوانوں کھیلنا تم انکی عزت سے
تمہی میں سے کسی کی ماں کسی کی بہن ہیں بیٹیاں
(شاعر نامعلوم - کاشفی کی پسندیدہ شاعری)