محمداحمد

لائبریرین
آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے
جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پسِ دیوار گرے

کیا کہوں دیدہ ء تر، یہ تو مرا چہرہ ہے
سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے

شکیب جلالی
 
دریافت کیجے گردشِ صد کہکشاں مگر
بس اک مقامِ حضرتِ انساں نہ پوچھیے
جب سے خبر ہوئی کہ ہے بسمل ابھی حیات
اٹھتی نہیں ہیں، غیرتِ مژگاں نہ پوچھیے
فاتح الدین بشیر
 
نگاہِ شوق نہیں، آہِ صبح و شام نہیں
عجب فسردہ دلی حیف مجھ پہ طاری ہے
یہی متاع ہے میری، یہی مرا حاصل
نہالِ غم کی لہو سے کی آبیاری ہے
نگہ میں آبِ رُخِ یار، ہاتھ میں تیشہ
زمیں کی مانگ اسی جہد نے سنواری ہے
محمد وارث
 

محمداحمد

لائبریرین
ترکِ دنیا کا ارادہ ہی کیا تھا کہ وہ شخص
آگیا خواہشِ دنیا کو جگانے کے لئے

جمال احسانی

ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اُتر جائے گا

پروین شاکر
 

شمشاد

لائبریرین
تنہائیوں کا راج ہے دل میں تمہارے بعد
ہم نے کسی کو اس میں بسایا نہیں کبھی
(تسنیم کوثر)
 
Top