یا رب! چمنِ نظم کو گلزارِ ارم کر
اے ابرِ کرم! خشک زراعت پہ کرم کر
تو فیض کا مبدا ہے، توجہ کوئی دم کر
گم نام کو اعجاز بیانوں میں رقم کر
جب تک یہ چمک مہر کے پرتو سے نہ جائے
اقلیمِ سخن میرے قلمرو سے نہ جائے
(میر انیس)
یا رب عروسِ فکر کو حُسن و جمال دے
ملکِ سخنوری کو دُرِ بے مثال دے
رنگینیِ کلام کو سحرِ حلال دے
آئے قمر کو رشک وہ اوجِ کمال دے
گل کاریاں کروں جو مضامیں کے باغ میں
پھولوں کی بو بہشت سے آئے دماغ میں
(میر انیس)
ایک قطرے کو جو دوں بسط تو قلزم کر دوں
بحرِ موّاجِ فصاحت میں تلاطم کر دوں
ماہ کو مہر کروں، ذروں کو انجم کر دوں
گنگ کو ماہرِ اندازِ تکلم کر دوں
عمر گذری ہے اسی دشت کی سیاحی میں
پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں
(میر انیس)