کاشفی

محفلین
مِرا نشیمن بکھر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے
جو خواب زندہ ہے مر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے
(شاہدہ حسن)
 

عبدالحسیب

محفلین
خلوتِ رنگیں میں بھی ڈستا ہے یوں دنیا کا حال
جیسے پیتے ہوئے، بھوکے بال بچّوں کا خیال

-مخدوم محئ الدین
 
میرے مکاں تک آئی تو خود سر تھی کس قدر
اس کی گلی سے باد صبا با ادب چلی

اوروں کا ذکر زور کے لہجے میں تھا مگر
میری ہی بات صرف وہاں زیر لب چلی
اسعد بدایونی
 

محمداحمد

لائبریرین
زخموں کو پھول، خون کو رنگِ قبا کہیں
پتھر یہ چاہتے ہیں اُنہیں آئینہ کہیں
صحرا ہیں تشنگی کے، سبیلیں ہیں زہر کی
پی کر مریں اِسی کو، اِسی کو دوا کہیں
تاج بھوپالی
 
اے مرے ہمنشیں چل کہیں اور چل
اس چمن میں اب اپنا گزارہ نہیں

بات پھولوں کی ہوتی تو سہہ لیتے ہم
اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں

استاد قمر جلالوی۔
 

شیزان

لائبریرین
کیسے کیسے ہجر جھیلے ہیں در و دیوار نے​
پھر بھی قائم ہے حصارِ جسم و جاں اپنی جگہ​
داستاں گو قتل ہوتا ہے کہانی میں سلیم​
تب جنم لیتی ہے کوئی داستاں اپنی جگہ​
سلیم کوثر​
 
Top