showbee

محفلین
تم چلو تو سِتارے بھی چلنے لگیں
آنسوؤں کی طرح
خواب پہ خواب انکھوں میں جلنے لگے
آرزوں کی طرح
تیری منزل بنے میرا ہر راستہ
تو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا
میں تیرے سنگ کیسے چلوں ساجنا
تو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا
 

showbee

محفلین
ہمیں دریافت کرنے سے ہمیں تسخیر کرنے تک
بہت ہیں مرحلے باقی، ہمیں زنجیر کرنے تک
ہزاروں بار سوچو گے، ہمیں تحریر کرنے تک
ہمارا دل ہے پیمانہ، سو پیمانہ تو جھلکے گا
چلو دو گھونٹ تم بھر لو، ہمیں تاثیر کرنے تک
ہنر تکمیل سے پہلے، مصور بھی چُھپاتا ہے
ذرا تم بھی چُھپا رکھو، ہیمں تعمیر کرنے تک
وہ ہم کو روز لوٹتے ہیں، اداؤں سے، بہانوں سے
خدا رکھے! لوٹیرے کو، ہمیں فقیر کرنے تک
 

showbee

محفلین
اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب نہ سورج نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں میں کسی حسن کی جھلکن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا
ممکن ہے کوئی وہم ہو ممکن ہے سنا ہو
گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا
شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شائید
اب آ کے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا
اک بیر نہ اک مہر نہ اک ربط نہ رشتہ
تیرا کوئی اپنا نہ پرایا کوئی میرا
مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت بڑی ہے
لیکن میرے دل یہ تو فقط ایک گھڑی ہے
ھمت کرو جینے کو ابھی عمر پڑی ہے
 

showbee

محفلین
ضبط کر کے ہنسی کو بُھول گیا
میں تو اُس زخم ہی کو بُھول گیا

ذات در ذات ہمسفر رہ کر
اجنبی، اجنبی کو بُھول گیا

صبح تک وجہِ جانکنی تھی جو بات
میں اُسے شام ہی کو بُھول گیا

عہدِ وابستگی گزار کے میں
وجہِ وابستگی کو بُھول گیا

سب دلیلیں تو مجھ کو یاد رہیں
بحث کیا تھی اِسی کو بُھول گیا

کیوں نہ ہو ناز اِس ذہانت پر
ایک میں، ہر کسی کو بُھول گیا

سب سے پُراَمن واقعہ یہ ہے
آدمی، آدمی کو بُھول گیا

قہقہہ مارتے ہی دیوانہ
ہرغِم زندگی کو بُھول گیا

خواب ہا خواب جس کو چاہا تھا
رنگ ہا رنگ اسی کو بُھول گیا

کیا قیامت ہوئی اگر اِک شخص
اپنی خوش قسمتی کو بُھول گیا

سوچ کر اُس کی خلوت انجمنی
واں میں اپنی کمی کو بُھول گیا

سب بُرے مجھ کو یاد رہتے ہیں
جو بَھلا تھا اُسی کو بُھول گیا

اُن سے وعدہ تو کر لیا لیکن
اپنی کم فُرصتی کو بُھول گیا

بستیو! اب تو راستہ دے دو
اب تو میں اس گلی کو بُھول گیا

اُس نے گویا مُجھی کو یاد رکھا
میں بھی گویا اُسی کو بُھول گیا

یعنی تم وہ ہو، واقعی؟ حد ہے
میں تو سچ مُچ سبھی کو بُھول گیا

آخری بُت خدا نہ کیوں ٹھہرے
بُت شکن بُت گری کو بُھول گیا

اب تو ہر بات یاد رہتی ہے
غالباً میں کسی کو بُھول گیا

اس کی خوشیوں سے جلنے والا جون
اپنی ایذا دہی کو بُھول گیا
 
ضبط کر کے ہنسی کو بُھول گیا
میں تو اُس زخم ہی کو بُھول گیا

ذات در ذات ہمسفر رہ کر
اجنبی، اجنبی کو بُھول گیا

صبح تک وجہِ جانکنی تھی جو بات
میں اُسے شام ہی کو بُھول گیا

عہدِ وابستگی گزار کے میں
وجہِ وابستگی کو بُھول گیا

سب دلیلیں تو مجھ کو یاد رہیں
بحث کیا تھی اِسی کو بُھول گیا

کیوں نہ ہو ناز اِس ذہانت پر
ایک میں، ہر کسی کو بُھول گیا

سب سے پُراَمن واقعہ یہ ہے
آدمی، آدمی کو بُھول گیا

قہقہہ مارتے ہی دیوانہ
ہرغِم زندگی کو بُھول گیا

خواب ہا خواب جس کو چاہا تھا
رنگ ہا رنگ اسی کو بُھول گیا

کیا قیامت ہوئی اگر اِک شخص
اپنی خوش قسمتی کو بُھول گیا

سوچ کر اُس کی خلوت انجمنی
واں میں اپنی کمی کو بُھول گیا

سب بُرے مجھ کو یاد رہتے ہیں
جو بَھلا تھا اُسی کو بُھول گیا

اُن سے وعدہ تو کر لیا لیکن
اپنی کم فُرصتی کو بُھول گیا

بستیو! اب تو راستہ دے دو
اب تو میں اس گلی کو بُھول گیا

اُس نے گویا مُجھی کو یاد رکھا
میں بھی گویا اُسی کو بُھول گیا

یعنی تم وہ ہو، واقعی؟ حد ہے
میں تو سچ مُچ سبھی کو بُھول گیا

آخری بُت خدا نہ کیوں ٹھہرے
بُت شکن بُت گری کو بُھول گیا

اب تو ہر بات یاد رہتی ہے
غالباً میں کسی کو بُھول گیا

اس کی خوشیوں سے جلنے والا جون
اپنی ایذا دہی کو بُھول گیا

شاعر جون ایلیا ہیں؟
 

کاشفی

محفلین
سجاد(علیہ السلام) اسیرِ جور ہوئے، افسوس کسی نے یہ نہ کہا
یہ پاؤں ستونِ کعبہ ہیں، زنجیر کسے پہناتا ہے
(علامہ سیماب اکبر آبادی)
 

showbee

محفلین
ستارے جو دمکتے ہیں
کسی کی چشمِ حیراں میں
ملاقاتیں جو ہوتی ہیں
جمالِ ابروباراں میں

یہ نہ آباد وقتوں میں
دلِ نوشاد میں ہوگی
محبت اب نہی ہوگی
یہ کجھ دن بعد میں ہوگی

گزر جائیں گے جب یہ دن
یہ اُن کی یاد میں ہوگی
 

showbee

محفلین
دنیا میں ہوں، دنیا کا طلبگار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہی ہوں

زندہ ہوں مگر زیست کی لزت نہی باقی
ہرچند کی کے ہوں ہوش میں، ہوشیار نہی ہوں

وہ گل ہوں خزاں نے جسے برباد کیا ہے
الجھوں کسی دامن سے میں، وہ خار نہی ہوں
 

showbee

محفلین
آجا کہ ابھی ضبط کا موسم نہی گزرا
آجا کہ پہاڑوں پہ ابھی برف جمی ہے
خوشبو کے جزیروں سے سِتاروں کی حدوں تک
سب کجھ ہے میرے پاس، بس "تمہاری" ہی کمی ہے
 

showbee

محفلین
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا
آجا کہ ابھی ضبط کا موسم نہی گزرا
آجا کہ پہاڑوں پہ ابھی برف جمی ہے
خوشبو کے جزیروں سے سِتاروں کی حدوں تک
سب کجھ ہے میرے پاس، بس "تمہاری" ہی کمی ہے
 

showbee

محفلین
جان کی پروا بھی کس کو ہو جب قاتل ہو یاروں سا
باتیں ہو دلداروں جیسی لہجہ ہو غمخواروں سا
 

showbee

محفلین
دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے
ہو میرے دپ سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
زندگی میری ہو پروانے کی صورت یارب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب
ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
دردمندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
میرے اللہ! بُرائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اُس راہ پہ چللانا مجھ کو
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
 
Top