کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمد وارث

لائبریرین
حادِثہ تھا گزر گیا ہوگا
کس کے جانے کی بات کرتے ہو

ہم کو اپنی خبر نہیں یارو
تم زمانے کی بات کرتے ہو


شاعر۔ نا معلوم (اگر کسی کے علم میں ہو تو بتا کر ممنونِ احسان کریں)
 

فرخ منظور

لائبریرین
حادِثہ تھا گزر گیا ہوگا
کس کے جانے کی بات کرتے ہو

ہم کو اپنی خبر نہیں یارو
تم زمانے کی بات کرتے ہو


شاعر۔ نا معلوم (اگر کسی کے علم میں ہو تو بتا کر ممنونِ احسان کریں)

وارث صاحب اگر تو یہ اسی غزل کے اشعار ہیں جو میڈم نور جہاں نے گائی بھی ہے - "آشیانے کی بات کرتے ہو، دل جلانے کی بات کرتے ہو" تو شائد میں آپ کی کچھ مدد کر سکوں -
 

محمد وارث

لائبریرین
جی ہاں وہی ہے اور اسے فریدہ خانم نے بھی گایا ہے۔

اور شکریہ اگر شاعر کا نام بتا سکیں کہ تلاش میں ہوں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
وارث بھائی اس غزل کے شاعر "جاوید قریشی صاحب" ہیں جو کہ سیکریٹری اطلاعات بھی رہ چکے ہیں اور ادیبوں کے سرکاری سپورٹر سمجھے جاتے تھے -
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ فرخ صاحب، آپ نے خوب یاد دلائی جاوید قریشی صاحب کی۔ مجھے یہ غزل بہت پسند ہے اور ایک عرصے سے شاعر کا نام جاننے کیلیے سرگرداں تھا۔ نوازش آپ کی۔

ایک اور مشہور غزل ہے، آپ نے یقیناً سنی ہوگی، اقبال بانو نے گائی ہے، اسکے شاعر کا نام بھی اگر آپ یا کوئی اور دوست جانتے ہوں تو بتا کر شکریہ کا موقع دیں۔



داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دیے جلانے لگے

خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
 

محمد وارث

لائبریرین
تُند خُو ہے کب سنے وہ دل کی بات
اور بھی برہم کو برہم کیا کریں

اپنے ہی غم سے نہیں ملتی نجات
اس بنا پر فکرِ عالم کیا کریں


شاعر۔ نامعلوم
 

فرخ منظور

لائبریرین
اصغر اس ہجوم ِ غریبی میں تیری یاد
آئی ہے اک طلسم ِ تمنّا لیے ہوئے

اصغر گونڈوی کا یہ شعر جس طرح یاد تھا لکھ دیا - اگر کوئی دوست اسکی تصحیح کر سکیں اور پوری غزل مہیّا کر سکیں تو عنائت ہوگی- ا
 

حسن علوی

محفلین
تیرے شیشے میں مئے باقی نہیں ھے
بتا کیا تو میرا ساقی نہیں ھے؟

سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ھے یہ رزاقی نہیں ھے

(علامہ اقبال)
 

شمشاد

لائبریرین
اصغر اس ہجوم ِ غریبی میں تیری یاد
آئی ہے اک طلسم ِ تمنّا لیے ہوئے

اصغر گونڈوی کا یہ شعر جس طرح یاد تھا لکھ دیا - اگر کوئی دوست اسکی تصحیح کر سکیں اور پوری غزل مہیّا کر سکیں تو عنائت ہوگی- ا

لیجیئے جناب پوری غزل حاضر ہے :

پاسِ ادب میں جوشِ تمنا لیئے ہوئے
میں بھی ہوں اک حباب میں دریا لیئے ہوئے

رگ رگ میں اور کچھ نہ رہا جُز خیالِ دوست
اُس شوخ کو ہوں آج سراپا لیئے ہوئے

سرمایہ حیات ہے حرمانِ عاشقی
ہے ساتھ اک صورتِ زیبا لیئے ہوئے

جوشِ جنوں میں چھوٹ گیا آستانِ یار
روتے ہیں منہ میں دامنِ سہارا لیئے ہوئے

'اصغر' ہجومِ دردِ غریبی میں اس کی یاد
آئی ہے اک طلسمی تمنا لیئے ہوئے
(اصغر گوندوی)​
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت بہت شکریہ شمشاد صاحب!
الگ بیٹھے تھے پھر بھی آنکھ ساقی کی پڑی ہم پر
اگر ہے تشنگی کامل تو پیمانے بھی آئیں گے
 

شمشاد

لائبریرین

چلنے کا حوصلہ نہیں، رُکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مُجھ کو نڈھال کر دیا

ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
اُس نے مگر بچھڑتے وقت کوئی اور سوال کر دیا
(پروین شاکر)​
 

فرخ منظور

لائبریرین
صبا کے ہاتھ میں نرمی ہے ان کے ہاتھوں کی
ٹھہر، ٹھہر کے ہوتا ہے آج دل کو گماں
وہ ہاتھ ڈھونڈھ رہے ہیں‌ بساطِ محفل میں
کہ دل کے داغ کہاں ہیں نشستِ درد کہاں
؂"فیض"
 

شمشاد

لائبریرین
کیا نزاکت ہے جو توڑا شاخِ گل سے کوئی پھول
آتش گل سے پڑے چھالے تمہارے ہاتھ میں
(امیر مینائی)
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top