اِک پشیمان سی حسرت مُجھے سوچتا ہے
اب وُہی شہر محبت سے مُجھے سوچتا ہے
میں تو مُحدود سے لمحوں میں مِلی تھی اُس سے
پھر بھی وہ کِتنی وضاحت سے مُجھے سوچتا ہے
زمانے والوں سے چھُپ کے رونے کے دن نہیں ہیں
اُسے یہ کہنا اُداس ہونے کے دن نہیں ہیں
میں جان سکتی ہُوں وَصل میں اصل بھید کیا ہے
مگر حقیقت شناس ہونے کے دن نہیں ہیں
کسی اور غم میں اتنی خلشِ نہاں نہیں ہے
میرا غم میرے رفیقو غمِ رائیگاں نہیں ہے
مری روح کی حقیقت مرے آنسوؤں سے پوچھو
میرا مجلسی تبسّم میرا ترجماں نہیںہے
(مصطفیٰ زیدی)
آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں
اب وہ نہ میں ہوں نہ تو ھے نہ وہ ماضی ھے فراز
جیسے دو شخص تمنا کے سرابوں میں ملیں