کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

زونی

محفلین
متاعِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ھے
کہ خون میں ڈبو لیں ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ھے تو کیا کہ رکھ دی ھے
ہر ایک حلقہء زنجیر میں زباں میں نے
 

شمشاد

لائبریرین
ہم اپنے آپ میں‌ یوں گُم ہوئے ہیں مدت سے
ہمیں تو جیسے کسی کا بھی انتظار نہیں

کسی کو ٹوٹ کر چاہیں یا چاہ کر ٹوٹیں
ہمارے پاس تو اتنا بھی اختیار نہیں
 

شمشاد

لائبریرین
گو اس کی خدائی میں مہاجن کا بھی ہے ہاتھ
دنیا تو سمجھتی ہے فرنگی کو خداوند

احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآں کو بنا سکتے ہیں پاژند
(اقبال)
 

شمشاد

لائبریرین
نہ زباں کوئی غزل کی، نہ زباں سے باخبر میں
کوئی دلکشا صدا ہو، عجمی ہو یا کہ تازی

اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و سازِ رومی، کبھی پیچ و تابِ رازی
(اقبال)
 

شمشاد

لائبریرین
انا پہ چوٹ پڑے بھی تو کون دیکھتا ہے
دُھواں سا دِل سے اُٹھے بھی تو کون دیکھتا ہے
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top