جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصوّرِ جاناں کیے ہوئے
(غالب)
بہت شکریہ وارث صاحب لیکن اصل شعر میں ایک ہلکا سا لفظی تغیر ہے جس کی وجہ سے شعر کا پورا مفہوم بدل جاتا ہے- اصل شعر ہے -
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت، کہ رات دن
بیٹھے رہیں تصوّرِ جاناں کیے ہوئے
یعنی فرصت کے رات دن نہیں ڈھونڈ رہا بلکہ صرف فرصت ڈھونڈ رہا ہے اور چاہتا ہے کہ دن رات تصورِ جاناں کیے ہوئے بیٹھا رہے-
حضور ایک لفظی تغیّر سے مفہوم اس لیے بدل گیا کہ
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے