کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
تمہارے شہر کی ہر چھاؤں مہرباں تھی مگر
جہاں پہ دھوپ کڑی تھی وہاں شجر ہی نہ تھا
(پروین شاکر)
 

شمشاد

لائبریرین
کوئے ستم کی خامشی آباد کچھ تو ہو
کچھ تو کہو ستم کشو، فریاد کچھ تو ہو
بیداد گرسے شکوۂ بیداد کچھ تو ہو
بولو، کہ شورِ حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
(فیض)
 

شمشاد

لائبریرین
شاخ پر خونِ گل رواں ہے وہی
شوخیِ رنگِ گلستاں ہے وہی

سر وہی ہے تو آستاں ہے وہی
جاں وہی ہے تو جانِ جاں‌ہے وہی
 

شمشاد

لائبریرین
دشت ِ افسردہ میں اک پھول کھلا ہے سو کہاں
وہ کسی خواب ِگریزاں میں ملا ہے سو کہاں
 

مون

محفلین
ہو اگر خود نگر و خودگر و خودگیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
(اقبال)
 

شمشاد

لائبریرین
تجھے میں مانگ رہا ہوں ، یہ کس بہانے سے
چھپا ہوا ہے مری ، خواہشِ سوال میں تُو
 

فرخ منظور

لائبریرین
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں

(اقبال)
یعنی اقبال نے تغیّر کو ایک ثبات دے دیا -:cool:
 

شمشاد

لائبریرین
پھر ایک خوابِ وفا بھر رہا ہے آنکھوں میں
یہ رنگ ہجر کی شب جاگ کر نہیں آیا
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top