اگر اکثریت نسل پرست ہے تو ۶۰ کی دہائی سے پوری دنیا کے تارکین وطن کیسے اپنے ملکوں میں آنے دے رہے ہیں؟غیر متفق۔۔۔
اگر اکثریت نسل پرست ہے تو ۶۰ کی دہائی سے پوری دنیا کے تارکین وطن کیسے اپنے ملکوں میں آنے دے رہے ہیں؟غیر متفق۔۔۔
میں نے پاکستان کے حوالے سے بات کی تھی۔ یورپ میں رنگ و نسل یا مذہب دیکھ کر شادی کرنے کا کوئی رواج نہیں ہےیورپ کی اکثر روایات اخلاق سوز اور مذہب کے خلاف ہیں۔
او بشیر! ذرا طاہر کو بھیجنا ۔ 2 گھنٹے سے لائٹ نہیں ہے۔جسم سے چھو کر بلب جلانے والا بھارتی بچہ
بھارتی ریاست کیرالہ میں ایک ایسا حیرت انگیز بچہ موجود ہے جو ایل ای ڈی بلب کو بغیر بجلی کے محض اپنے جسم کے کسی بھی حصے سے چھو کر روشن کردیتا ہے۔نو سالہ بچے طاہر کی بلب روشن کرنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہورہی ہے، ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بچہ بلب کو ہاتھ، پیر یا جسم کے کسی بھی حصے سے چھوتا ہے تو وہ جل اٹھتا ہے۔بچے کے والد نذیر کا کہنا ہےکہ ایک بار وہ ایک بلب خرید کر لائے اور بچے سے کہا کہ وہ اسے اوپر ریک میں رکھ دے، بچے کے ہاتھ لگانے پر وہ بلب جل اٹھا، میں اسے شعبدہ سمجھا اور کہا کہ وہ ایسا نہ کرے مگر طاہر اس عمل کو نہ روک سکا۔
والد کا کہنا ہے کہ میں نے بچے کے جسم پر بار بار بلب چھوکر اور جلا کر دیکھا اور حیران رہ گیا۔ان کا یہ بھی کہنا ہے بچےکی اس خاصیت پر بہت خوش ہوں اور فخر محسوس کرتاہوں،یہ صلاحیت خدا کا تحفہ ہے۔طاہر کی یہ صلاحیت دیکھ کر بچے کے ایک رشتہ دار بہت خوش ہوئے اور انہوں نے اس کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردی جو کہ دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئی اور یہ بچہ راتوں رات سوشل میڈیا پر مشہور ہوگیا۔جس علاقے میں طاہر رہائش پذیر ہے وہاں کے رہنے والے اس معاملے پر حیران ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ چونکہ اس بچے کا والد ایک الیکٹریشن ہے اس لیے ممکن ہے کہ اس نے بچے کے جسم کے گرد کوئی بیٹری چھپا کررکھی ہو اور بچے کو محض کرنٹ پاس کرنے والا ایک موصل یعنی کنڈیکٹر بنایا ہو۔یہ بچہ طاہر اپنی اس صلاحیت کے ساتھ سائنسدانوں کیلئے بھی تحقیقات کی نئی راہیں کھول سکتا ہے۔
روزنامہ جنگ
عارفوالا(نمائندہ نوائے وقت) فیس بک کی دوستی محبت کے بعد شادی میں تبدیل‘ فن لینڈ کی دوشیزہ پاکستانی نوجوان کو دل دے بیٹھی شادی کے بعد عارفوالا آمد ۔تفصیل کے مطابق نیو کرسچن کالونی کے نوجوان گلشان روکس بھٹی کی فیس بک پر فن لینڈ کی رہائشی 22سالہ کیتھرن کی عارفوالا کے رہائشی گلشان روکس سے فیس بک پر دوستی ہوگئی اور گلشان روکس ویزہ لیکر فن لینڈ روانہ ہوگیا جہاں اس نے کیتھرن سے باقاعدہ شادی کرلی اور گزشتہ روز اپنی بیوی کو عارفوالا لے آیا۔ کیتھرن نے مقامی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مجھے پاکستان آکر بہت خوشی ہوئی ۔مجھے میرے سسرال والوں نے حقیقی بیٹی کا پیار دیا۔ پاکستانی کلچر دیکھ کر میں فن لینڈ کی آزادی بھول گئی۔ کیتھرن نے مزید بتایا کہ پاکستانی کھانوں و خصوصاً خربوزے کی لذت مجھے زندگی بھر یاد رہے گی۔ کیتھرن کے خاوند نے بتایا مجھے کیتھرن سے شادی کر کے بہت خوشی ہوئی ۔
پتا نہیں ایسی "فیس بُک" کدھر ہوتی ہے!
حسب و نسب و مذہب دیکھنے میں کیا برائی ہے؟ یورپ کی اکثر روایات اخلاق سوز اور مذہب کے خلاف ہیں۔ کیا ضرورت ہے ان کی تقلید کرنے کی؟
جزاک اللہ عبید بھائی۔ لیکین وہاں پر ایڈیٹ نہیں کر پارہا۔
مراسلے کو رپورٹ کرنا ہوگا۔ تدوین کا اختیار کچھ وقت کے بعد ختم ہوجاتا ہے۔جزاک اللہ عبید بھائی۔ لیکین وہاں پر ایڈیٹ نہیں کر پارہا۔
لیکن تلواروں کا فیشن ختم ہوئے تو صدیاں بیتیںسعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں تاریخ کے پہلے فیشن ویک کا آغاز ہو گیا ہے جس کی افتتاحی تقریب روائتی تلواروں کے رقص سے کی گئی ۔
استعمال کا دور ختم ہوا لیکن فیشن تو باقی ہے۔لیکن تلواروں کا فیشن ختم ہوئے تو صدیاں بیتیں
زیک بھائی !کیا کراچی جیسی گرمی امریکہ میں بھی ہونے لگی ہے ؟لیکن تلواروں کا فیشن ختم ہوئے تو صدیاں بیتیں
تلواروں کا "دور"لیکن تلواروں کا فیشن ختم ہوئے تو صدیاں بیتیں
افسوس کہ یہ دنیا سحرخیزوں کی ہے جو شب بیداروں کو مار کر چھوڑیں گےنئی تحقیق: دیر سے جاگنے والوں میں جلد موت کا امکان
(بی بی سی اردو)
ہم جیسے بوڑھے شاید اسی ڈر سے صبح جلدی اُٹھ جاتے ہیں!
دنیا سے زیادہ دنیا کے حالات خراب ہیں جو مرغوں سے بھی پہلے اٹھنے پر مجبور کر دیتے ہیں!افسوس کہ یہ دنیا سحرخیزوں کی ہے جو شب بیداروں کو مار کر چھوڑیں گے
عدنان بھیا کی شخصیت کا یہ پہلو لائقِ تقلید ہے کہ وہ ہمہ وقت اپنی اصلاح پر آمادہ رہتے ہیں۔آپ کی توجہ دلانے کا اور حوصلہ افزائی کا شکریہ ۔
مجھے بھی بچپن میں ایسے کپڑے پہننے کا بہت شوق تھا ۔مختلف بیماریوں میں مبتلا بچے’سپر ہیروز‘ کے روپ میں
امریکہ کے ایک فوٹوگرافر نے مختلف بیماریوں سے لڑتے چھ ننھے بچوں کو سپر ہیروز کے روپ میں ڈھال کر ان کا فوٹو شوٹ کیا جسے بے حد پسند کیا گیا ہے۔
ڈیلی میل کے مطابق ’جوش روسی‘ نامی امریکی فوٹوگرافر نے مختلف بیماریوں میں مبتلا چھ بہادر بچوں کو ہالی ووڈ کی مشہور زمانہ فلم جسٹس لیگ کے کرداروں میں تبدیل کر کے انہیں ایک نئے انداز میں اپنی بیماری سے لڑتے دکھایا۔
ان بچوں میں دو سے نو سال تک کی عمر کے بچے شامل ہیں جنہوں نے ’ونڈر ویمن‘، ’سپر مین‘، ’بیٹ مین‘اور دیگر جسٹس لیگ کے کرداروں کا روپ دھارا ہواہے۔
ڈیلی میل سے بات کرتے ہوئے جوش روسی کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے شوٹ شروع کیا تو کچھ بچے بیمار اورکم دلچسپی لیتے نظر آئے لیکن جیسے ہی بچوں نے سپر ہیروز کے ملبوسات زیب تن کیے تو ان کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے اور وہ پوری طرح اس کردار میں ڈھل گئے۔
جوش نے مزید بتایا کہ سپر ہیروز کے روپ میں بچوں کا فوٹو شوٹ کرنے کا خیال انہیں اس وقت آیا جب وہ اپنی چار سالہ بیٹی کی سالگرہ پر اسے ونڈر ویمن کے کاسٹیوم میں تیار کر رہے تھے۔
ان چھ بچوں کی تصاویر وائرل ہونے کے بعد جوش کو امریکہ بھر سےلوگ ایسی ہی تصویریں بنوانے کی درخواست کر رہے ہیں جبکہ جوش اور ان کی اہلیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا استعمال صرف متاثرہ بچوں کے لیے کریں گے۔
ان بہادر بچوں میں ایک تین سالہ صوفی نامی بچی شامل ہے جو آنکھوں کے سرطان جیسے مرض میں مبتلا ہے۔ فوٹوشوٹ کروانے سے قبل وہ بہت گھبرا رہی تھی لیکن ونڈر ویمن کا لباس پہنتےہی وہ اپنے آپ کو اصل ونڈر ویمن سمجھنے لگی۔
کیڈن، ایک ایسی بیماری کا شکار ہے جس میں جسم کے اندرونی اعضاباہر کی جانب بڑھنے لگتے ہیں ایسی صورتحال میں کیڈن کی ماں نے اپنے بچے کی ٹانگیں کٹوانے کا فیصلہ کیا تاکہ اس کی جان بچائی جاسکے۔
پانچ سالہ کیڈن نے سائبرگ کا روپ اپنایا۔ سائبرگ وہ کردار ہے جو ایک خوفناک حادثے میں اپنی ٹانگیں کھو دیتا ہے جس کے بعد اس کے والد اسے مصنوعی ٹانگیں لگواتے ہیں۔
سپر مین کا کردار ٹیگن نامی بچے نے بخوبی نبھایا، یہ نو سالہ بچہ ہے جو نامکمل دل کے ساتھ اس دنیا میں آیا۔ اب تک ٹیگن کی تین بار اوپن ہارٹ سرجری ہوچکی ہے اور ڈاکٹروں کے مطابق اب اس کی حالت پہلے سے کافی بہتر ہے۔
سات سالہ زیدن نامی بچہ ’اے ڈی ایچ ڈی‘ کا شکار ہے۔ اس کو بھاگنے دوڑنے کا بے حد شوق تھا لیکن بیماری نے اس کا یہ شوق پورا نہ ہونے دیا۔ جوش کا کہنا تھا کہ زیدن کے اس شوق کو مدد نظر رکھتے ہوئے اسے ’دا فلیش ‘ کا کردار دیا۔
کنسر کے مرض میں مبتلا دو سالہ بچے کی’ ایکوا مین‘ کے روپ میں تصویروں نے سب کو حیران کردیا۔ متائسی نامی بچے نے فوٹو شوٹ کے دوران ثابت کردیا کہ وہ واقعی کسی سپر ہیرو سے کم نہیں ہے۔
پانچ سالہ سمن نے ’بیٹ مین‘ کا کردار بنھایا جبکہ وہ دماغ کے سرطان جیسے مرض میں مبتلا ہے۔
ان چھ ننھے سپر ہیروز کو فوٹوشوٹ کے بعد نیو یارک بھیجا گیا جہاں انہوں نے کامک کان فیسٹیول میں تمام جسٹس لیگ کے کرداروں سے ملاقات کی جن کا روپ وہ دھارے ہوئے تھے۔
کومل زیدی
حالانکہ زیک سر امریکہ میں رہتے ہیں لیکن اسلام کے بارے میں، میں ان کی وسیع معلومات سے بہت متاثر ہوا ہوں ۔یہ امام ایک وقت میں تو گزرے نہیں اور ان کے شاگرد بھی مختلف معاملات میں ان سے اور آپس میں اختلاف رکھتے تھے۔ لہذا ایک امام کو فالو کرنا تو کہیں بھی ضروری نہیں