اسلام اور حقوقِ نسواں
نگہت فرمان جمع۔ء 6 مارچ 2020
جب بھی عورتوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ اسلام نے عورتوں پر بہت ظلم کیا ہے فوٹو : فائل
جب بھی عورتوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ اسلام نے عورتوں پر بہت ظلم کیا ہے، اسے حقوق سے محروم اور قیدی بناکر رکھا ہے۔
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والے ممالک اور ادارے تو ابھی سو برس پہلے ہی سامنے آئے ہیں۔ جب کہ اسلام نے پندرہ سو برس قبل ہی عورتوں کو مظالم اور زیادتیوں سے آزادی دلائی تھی۔ سب سے پہلے اسلام کی رُو سے بہ حیثیت انسان مرد و عورت دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور دونوں اشرف المخلوقات ہیں، ورنہ اس سے پہلے کے مذاہب اور تہذیبیں تو عورت کو انسان بھی ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔
جو حقوق عورتوں کو اسلام نے دیے ہیں وہ دنیا کی کوئی بھی تہذیب یا ادارہ آج تک نہیں دے سکا۔ اسلام نے عورت کو ہر حیثیت سے ایک منفرد مقام دیا ہے اور اس کے حقوق کا تعین کیا ہے۔ اگر وہ بیوی ہے تو گھر کی ملکہ، بیٹی ہے تو رحمت و نعمت، بہن ہے تو اس کی پرورش کرنے والے بھائی کے لیے جنّت کی بشارت ہے اور ماں ہے تو اس کے قدموں تلے جنّت ہے۔ عورت کے حوالے سے اسلام کا یہ مجموعی تصوّر ہے۔ کیا اتنا پاکیزہ اور جامع تصور کوئی بھی تہذیب پیش کر سکتی ہے؟
اسلام نے عورتوں کی تعلیمی، معاشرتی و معاشی حقوق و اختیارات کو بھی واضح طور پر بیان کیا ہے۔ ما ں کی گود کو بچے کا پہلا مکتب قرار دیا گیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ عورت کا تعلیم یافتہ اور مہذّب ہونا کتنا ضروری ہے۔ انہیں حلال روزی کمانے اور اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرّف کا پورا اختیار ہے۔ شادی بیاہ کے معاملے میں اگرچہ ولی کو لڑکا تلاش کرنے اور پسند کرنے کا اختیار ہے، لیکن لڑکی کی مرضی اور خواہش کے بغیر کہیں بھی اس کی شادی نہیں کی جاسکتی اور اس کی رضامندی لازم اور ضروری ہے۔ اسلام عورت، مرد دونوں کے لیے حقوق اور اختیارات طے کرتا ہے، اگر دونوں اپنے اپنے دائرے میں رہ کر انہیں برتیں تو انسانی معاشرہ ہر طرح سے خوش حال اور مامون بن سکتا ہے۔
آج مسلمانوں کی کچھ خواتین یورپ کی تقلید میں آزادی نسواں کے نام پر دھوکے کا شکار ہیں۔ جب کہ یورپ کی مظلوم عورتیں بے راہ روی کے بھیانک نتائج کے مشاہدے کے بعد اسلام کی طرف مائل ہیں۔ یہ آزادی نسواں کا دل فریب نعرہ نرا دھوکا ہے۔ اس نعرے کی آڑ میں ان کی عزت و عفّت سے کھیلا جاتا اور عورت سے ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کا مرتبہ چھینا جا رہا ہے۔ وہ خاتون جو گھر میں شرافت کا مجسم نمونہ بن کر احترام و توقیر کی علامت تھی، اس نعرے کی بہ دولت اس کی نسوانیت جیسی متاع بے بہا چھین کر ہول ناک شہوانی نگاہوں کا شکار بنا دیا گیا۔ یہ سب استحصالی ٹولے کی کارستانی ہے کہ آج بنت حوّا کی شرم و حیا اور عفت و عصمت سرِ بازار نیلام کی جارہی ہے۔
دور حاضر میں یورپ و امریکا میں عورت ایک ایسی مخلوق ہے جو صرف تجارتی اشیاء کی فروخت کے لیے استعمال ہورہی اور اس کے جسم کو تجارتی اشیاء کی فروخت میں اضافے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ کیا یہی عورت کی آزادی اور اس کی عزت و تکریم اور اس کے حقوق کی علامت ہے۔۔۔ ؟
یاد رہے کہ یہ سلوک بھی عورت کے ساتھ اس وقت تک برتا جاتا ہے جب تک وہ مردوں کے لیے پُرکشش رہتی ہے، اور جب اس کی جاذبیت کم ہوجاتی ہے تو اس کی قیمت لگنا بھی بند ہوجاتی اور جب اس کی تمام جسمانی چمک دمک ماند پڑجاتی ہے تو یہ سرمایہ دارانہ معاشرہ اس سے منہ موڑ لیتا ہے۔ پھر وہ ادارے جہاں اس نے جوہر کمال دکھائے تھے، اسے مسترد کردیتے ہیں اور پھر وہ تنہا یا کسمپرسی کی حالت میں کسی اولڈ ہوم یا نفسیاتی اسپتال میں زندگی کے دن پورے کرتی ہے۔
اگر آپ اس تحریک کے علم برداروں کی تحریریں پڑھیں اور تقریریں سنیں تو ایسا لگتا ہے کہ اس تحریک کے علم برداروں نے عورتوں کی آزادی اور حقوق کا سارا دائرہ جنسی آزادی میں سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ کیا جنسی انارکی کو رواج و فروغ دینا کسی بھی طرح سے آزادی نسواں کہلایا جاسکتا ہے۔۔۔۔ ؟
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے اعداد و شمار بتا تے ہیں کہ مغربی معاشرے میں اتنی آزادی ہونے کے باوجود عورتیں مردوں کی نسبت 20 فی صد زیادہ کام کرتی ہیں۔ کیوں کہ وہ باہر بھی کام کرتی ہیں اور گھر کے معاملات بھی انہیں نمٹانے پڑتے ہیں۔ دنیا بھر کے تمام کاموں کا اندازہ لگایا گیا تو پتا چلا کہ ان کاموں کا 66 فی صد عورتوں کے ذمے ہے اور مرد صرف 34 فی صد کام کرتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ان کے بنائے ہوئے ہیں جو عورتوں کی آزادی کے بڑے علم بردار ہیں۔ خواتین اب یہ خود سوچ لیں کہ وہ آزادی حاصل کررہی ہیں یا مزید شکنجوں میں جکڑی جارہی ہیں۔