مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں، کیونکہ احتجاج تو عوام کا حق ہے اور میری تمام تر ہمدردیاں ان لوگوں کیساتھ ہیں جو احتجاج میں شامل ہیں، لیکن احتجاج کا مقصد حکومت کو گرانا ہے اور بہانہ کرپشن اور الیکشن میں دھاندھلی ہے۔ اگر واقعی میں الیکشن رگنگ کے بارے میں احتجاج ہوتا تو کمیٹیاں بھی بنی ہوئی ہیں، سپریم کورٹ کی بھی کمیٹی بنی ہوئی ہے، تو اصولاً تو احتجاج کا اس کے بعد کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔
اگر تو تحریک انصاف ایک سیاسی پارٹی ہے تو ان کو اپنی پوری کوشش کرنی چاہیے کہ سیاسی سسٹم کے ذریعے ہی اگلے الیکشن جیتیں (مار دھاڑ کی سیاست نہیں، کیونکہ پھر گلو بٹ اور تحریک انصاف کے کارکنوں میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا)۔ اگر تو تحریک انصاف انقلابی پارٹی ہے تب تو ان کو سسٹم کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے، اور ہر طرح کی مضیبت برداشت کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے، جو کہ بظاہر نظر نہیں آتا کہ عمران خان نے بہت سے compromisesکئے ہیں اصولوں پر، تو عمران خان کم از کم انقلابی تو نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی تحریک انصاف کے چنیدہ لیڈران جاگیردار ہیں جن کے کسان اکیسوی صدی میں بھی غلامی کی زندگی گزارتے ہیں۔
اس لئے تحریک انصاف کے کچھ سپورٹرز کو بھی عمران کی یہ سب gimmicks کافی غیر منطقی لگتی ہیں۔
پس ثابت ہوا کہ سارا چکر حکومت کرنے کا ہے، باقی سب حیلے بہانے ہیں۔
ملک کے قانون کے مطابق انتخابی عذرداریوں کو چھ سے آٹھ میں نمٹایا جانا چاہیئے ۔ اگر نون لیگ نے دھاندلی نہیں کی تو چار حلقوں کے معاملات مقررہ وقت میں نمٹا لیتی ۔
اگر وہ چار حلقوں کے معاملے میں سچے تھے تو ڈرتے کیوں رہے
نیا الیکشن کمیشن کیوں نہیں بنایا گیا
جب 11 مئی 2014 کے جلسے میں انتخابی اصلاحات کا مطالبہ کیا گیا تو حکومت جمہوری تقاضوں کے تحت ان اصلاحات کے لئے کمیٹیاں بنا دیتی ۔ جب 14 اگست کو احتجاج کی کال دی گئی تو حکمران عمرے پر جانے کی بجائے مذاکرات شروع کر دیتے
جب 14 افراد کا قتل ہوا تو حکومت فوری انصاف فراہم کرتی
ملک میں انصاف ہوتا تو جوڈیشیل کمیشن حکومت کو کلین چٹ نہ دیتا
ملک کی عدلیہ آزاد ہوتی تو گلو بٹ کو فوری قرار واقعی سزا دیتی ۔ بیکری ملازم کو پیٹنے والے کی شناخت ہو جاتی
اُلٹا منہاج والوں پر مقدمات
ملک میں جمہوریت ہوتی تو ایک ہی خاندان سے اتنے افراد وزارتوں پر فائز نہ ہوتے
پولیس آزاد ہوتی تو عدالت کا حکم آنے پر 21 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرتی
یہاں شفاف حکمرانی ہوتی تو اتفاق فاؤنڈری چوٹی کے ڈیفالٹرز میں شامل نہ ہوتی
شریفوں کو جمہوریت سے بہت محبت ہے تو استعفی دے کر جمہوریت پر قربان ہو جائیں اپنی ہی جماعت سے کسی اور کو وزیر اعظم بنا دیں
اور عوام کا ضمیر زندہ ہوتا یا عوام جمہوریت پسند ہوتی تو نواز شریف سے مطالبہ کرتی کہ چار سیٹوں کی وجہ سے جمہوریت کو داؤ پر نہ لگاؤ
حکومت جمہوریت کے استحکام کے لئے ان سیٹوں پر ضمنی انتخابات کروا دیتی احتجاج کرنے والوں کے نعرے چھین لیتی
عوام کا ضمیر زندہ ہوتا تو حکومت پر دباؤ ڈالتی کے ماڈل ٹاؤن میں گولی چلانے کا حکم دینے والے کو چوک میں پھانسی دی جائے
اگر کوئی سسٹم کی خرابیاں دور کرنے کا بیڑہ اُٹھاتا ہے تو امام حسین کی طرح اکیلا ہی جاتا ہے مگر تاریخ نہ تو کسی یزید کو معاف کرتی ہے اور ہی کوفیوں کو
جب مہلت تمام ہو جائے تو اللہ بھی توبہ قبول نہیں کرتا