آزادی مارچ اپڈیٹس

زرقا مفتی

محفلین
x1252224_18949639.jpg.pagespeed.ic.btlEzpJCT4.jpg

http://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2014-08-28&edition=LHR&id=1252224_18949639
 

زرقا مفتی

محفلین
Nawaz is reaping what he had sown, says Gilani

LAHORE: Former premier Yousuf Raza Gilani has said that Nawaz Sharif is responsible for the crisis.

"Had Nawaz Sharif given due respect to supremacy of the parliament, the situation would have been different today. He is reaping what he had sown," Gilani said while talking to Dawn here on Wednesday.

"Nawaz Sharif would not have faced this situation had he shown due respect to the ruling of the speaker when I was prime minister. Nawaz in fact had weakened the parliament during my tenure and now he must realise his mistake," he said.

Commenting on Sharif's speech in the National Assembly, Mr Gilani said the prime minister was articulating that since he had the full support of the parliament, therefore it was not possible for him to resign as there was no such provision in the Constitution.

"I remind Mr Sharif that the members of his party chanted slogans 'go Gilani go' despite the fact that I enjoyed support of the house and the ruling of the speaker in my favour," he said.

The former prime minister said the PML-N undermined the institution of parliament at that time by not honouring the speaker's ruling who was the custodian of the house in the parliamentary system of democracy.

He said he had made all the state institutions accountable to the parliament and the record of the parliamentary history of that period was witness to the fact. On the contrary, Mr Sharif hardly showed up in the lower and upper houses.

http://www.dawn.com/news/1128299/
 

کاشفی

محفلین
ہم محکوموں کے پاؤں تلے یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
 
آخری تدوین:

کاشفی

محفلین
پاکستانی میڈیا
جیو GEO: دھرنے میں لوگوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے
اے آر وائی ARY: یہ دنیا کا سب سے بڑا دھرنا ہے
پی ٹی وی PTV: چتکبری سُونڈی مارنے کے طریقے
 

آبی ٹوکول

محفلین
یہ تو کمال ہی ہوگئی جی نذیر ناجی اور ایسا کالم ابھی چند پہلے تو موصوف ٹی وی پر کہہ رہے تھے کہ عمران خان ذاتی اقتدار کی جنگ لڑرہا ہے اپنے فقط کرسی مانگ رہا اور آج یہ امیدوں کا محور کیسے بن گیا ہیں جی ؟؟؟

http://dunya.com.pk/index.php/author/nazeer-naji/2014-08-28/8259/52744710#.U_7mmfmSyvo
 

سویدا

محفلین
یہ تو کمال ہی ہوگئی جی نذیر ناجی اور ایسا کالم ابھی چند پہلے تو موصوف ٹی وی پر کہہ رہے تھے کہ عمران خان ذاتی اقتدار کی جنگ لڑرہا ہے اپنے فقط کرسی مانگ رہا اور آج یہ امیدوں کا محور کیسے بن گیا ہیں جی ؟؟؟

http://dunya.com.pk/index.php/author/nazeer-naji/2014-08-28/8259/52744710#.U_7mmfmSyvo

امیدوں کاموسم
نذیر ناجی

اندھیروں میں تنوع نہیں ہوتا۔ رنگینیاں نہیں ہوتیں۔ لہریں نہیں ہوتیں۔ تمام جانداروں کی نگاہوں کو بیکار کر دیتا ہے۔ سارے تنوع ‘ ساری رنگینیاں اور حسن کے سارے مظاہر‘ روشنی میں ہوتے ہیں۔ اسی لئے اندھیروں کو موت اور مایوسی سے تشبیہہ دی جاتی ہے اور روشنی کو امیدوں‘ آرزوئوںاور خوشیوں سے۔ اندھیرا ترتیب اور بے ترتیبی میں‘ فرق کی صلاحیت ختم کر دیتا ہے۔ جبکہ روشنی آپ کو ترتیب‘ توازن اور بدصورتی میں امتیاز کرنے کی صلاحیت دیتی ہے اور آپ زندگی اور دنیا کو سنوارنے‘ نکھارنے اور حسین بنانے کا شوق‘ حسب ذوق پورا کر سکتے ہیں۔انہی لوگوں کو راستے نظر آتے ہیں۔ رنگ نظر آتے ہیں۔ قوس قزح دکھائی دیتی ہے۔ یہ حسن کی نیرنگیاں بھی دیکھتے ہیں اور حسن کے پیکر بھی تراش لیتے ہیں۔یہی لوگ ہیں‘ جو زندگی کو آگے بڑھاتے ہیں۔ جو سورہ رحمن میں بیان کی ہوئی‘ اللہ کی نعمتوں کو جھٹلانے کی بجائے‘ ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ لوگ جو اسلام آباد کی ریڈ زون میں‘ ڈیرے ڈالے پڑے ہیں‘ انہی میں سے ہیں۔ چاروں طرف پھیلے بے ضمیری کے اندھیروں میں‘ بے بسی اور لاچاری کی زندگی گزارنے کی بجائے‘ یہ زندگی میں تبدیلی‘ تنوع اور حسن تلاش کرتے ہیں۔ اندھیروں کے خدائوں کے پجاری‘ اس زندگی کی لطافتوں سے محروم ہوتے ہیں۔ ہمارا پاکستان جو بدعنوانی اور کرپشن میں ڈوبتا ڈوبتا‘ اپنے بڑے حصے کو بے ضمیری کے اندھیروں کی نذر کر چکا ہے۔ اس میں کہیں کہیں روشنی کی لو سر اٹھاتی ہے۔ اندھیروں کی دبیز چادر کے نیچے‘ کہیں کہیں چراغ کی لوروشنی کا سندیسہ دے کر‘ امیدوں اور حوصلوں کو جلا بخشتی ہے۔ جب اس طرح کے کئی چراغ اور ان کی کئی لوئیں‘ اندھیروں کے پھیلے سمندر میں‘ جابجا سر اٹھاتی ہیں‘تو روشنی کو راستے ملنے لگتے ہیں اور وہ کرن در کرن ہر طرف پھیلتے ہوئے اندھیروں پر غالب آ جاتی ہے۔
ابھی ہمیں چند چراغوں کی لوئیں دکھائی دی ہیں۔ اندھیروں کے خدائوں کے پجاری‘ انہیں دیکھ کر خوف سے تھرتھر کانپ رہے ہیں کہ
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی
وہ روشنی کے ڈر سے ‘ ان چراغوں کو بجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جب چراغوں کے روشن ہونے کا موسم آتا ہے‘ تو جوت سے جوت یوں ملنے لگتی ہے‘ جیسے سروں میں سر مل کر‘ گیت کو جنم دیتے ہیں۔ ہم ایک مدت سے وطن عزیز کو لہردرلہر ‘امڈتے ہوئے اندھیروں میں ڈوبتے دیکھ رہے تھے۔ ہماری اقدار‘ ہماری سوجھ بوجھ‘ ہماری انسانیت‘ ہمارا حسن نظر‘ ہماراذوق سلیم‘ ہماری اخلاقیات‘ ہماری عزت نفس‘ ہر چیزاندھیروں کی نذر ہو رہی تھی۔ مایوسیوں نے ہم سے حوصلے چھین لئے تھے۔ یوں لگتا تھا‘ قدرت نے ہم سے ہمارے حصے کی روشنی‘ واپس لینے کی ٹھان لی ہے۔ لیکن خدا اپنی دنیا کو ہمیشہ اندھیروں میں ڈبو کر نہیں رکھتا۔ جب اندھیرے بڑھ جائیں‘ تو ان میں کہیں کہیں چراغوں کی چھوٹی چھوٹی لوئیں اگنے لگتی ہیں۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ خدا نے ہمیں فراموش نہیں کیا۔ ہم اس کی نگاہ کرم کے‘ کسی نہ کسی گوشے میں آج بھی موجود ہیں۔ انفرادی سطح پر جابجا‘ ایسے خوبصورت تجربے ہمیں نصیب ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن قومی سطح پر ایسا کم کم ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ ہر طرف سے ہمیں مایوسیوں نے گھیرے میں لے لیا‘ چند چراغوں کی لوئیں لہرائیں۔ روشنی کے پیاسوں کے چہروں پر رونق آ گئی اور اندھیروں کے خدائوں کے پجاری‘ روشنی کی شعاعوںپر وحشیانہ یلغاریں کرتے نظر آنے لگے ہیں۔
ہمیں اندھیرے کے جس دریا میں ڈبویا گیا تھا‘ یوں لگتا ہے کہ ہم اس کے دوسرے کنارے کے قریب آ گئے ہیں۔ جس طرح ہر قوم کی زندگی میں تاریکی کا ایک دور آتا ہے۔ اسی طرح ہم پر بھی آیا۔ یہ دور آخر کار ختم ہونا ہے۔ ہم پر چھائی ہوئی تاریکی کا دور بھی ختم ہونے جا رہا ہے۔ آیئے! روشنی کی ان شعاعوں کو دیکھیں۔ جنہیں بجھانے کے لئے‘ اندھیروں کے خدائوں کے پجاری ‘ صف بند ہو کر جھپٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عمران خان نے جب 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف آواز اٹھائی‘ تو یہ اکیلی اور تنہا آواز تھی۔عمران خان کہہ رہے تھے کہ صرف 4انتخابی حلقوں کے نتائج کی چھان بین کرنے دو‘ ان سے پتہ چل جائے گا کہ دھاندلی کتنی ہوئی ہے؟ عمران کا دعویٰ تھا کہ دھاندلی نصف سے زیادہ حلقوں میں ہوئی ہے اور اگر یہ بات درست نکلتی‘ تو ان انتخابات کے نتیجے میں‘ جنم لینے والی اسمبلیاں‘ غیرنمائندہ ثابت ہوتیں اور اس کے اراکین کی بنائی ہوئی حکومتیں بھی اپنے جوازسے محروم ہو جاتیں۔عمران کا یہ مطالبہ نہیں مانا گیا۔ لیکن اس نے اپنا سفر جاری رکھا۔ اس نے انصاف کے تمام دروازوں پر دستک دی۔ ناکام ہونے کے بعد وہ سڑکوں پر نکل آیا اور لوگ ساتھ آنے لگے اور کارواں بننے لگا۔ جب اکیلی آواز کی تنہائی دور ہونے لگی‘ تو اندھیروں کے خدائوں کے پجاری‘ بڑھتے ہوئے خطرات کا اندازہ کر کے ہاتھ پائوں مارنے لگے۔ انہوں نے اپنے اپنے اختلافات بھلا دیئے۔ ناجائز ہونے کے خوف نے انہیں یکجا کر دیا اور انہوں نے جمہوریت اور پارلیمنٹ کی ڈھالیں اٹھا کر‘ روشنی کی شعاعوںکو روکنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ وہ یہ بھول گئے کہ پارلیمنٹ اور جمہوریت ‘ شفاف انتخابات کے نتیجے میں جنم لیتے ہیں۔ دھاندلی کے تعفن سے پیدا ہونے والے ادارے کو‘ نہ تو پارلیمنٹ کہا جا سکتا ہے ۔ نہ ہی اس کے طرز کارکردگی کو جمہوریت قرار دیا جا سکتا ہے۔ جب جمہوریت کی بنیاد ہی موجود نہیں‘ تو جمہوریت کیسی؟ جس کے اراکین ہی جعلی نتائج کی پیداوار ہوں‘ وہ پارلیمنٹ کیسی؟ جمہوری نظام اور اداروں کو تواندھیروں کے خدائوں کے پجاریوں نے اپنے منحوس پنجوںمیں جکڑ رکھا ہے۔ جب تک جعلی پارلیمنٹ اور جعلی جمہوریت کا صفایا نہیں ہوگا‘ حقیقی پارلیمنٹ اور حقیقی جمہوریت وجود میں نہیں آ سکتی۔ قوم اندھیروں میں غرق رہنے کی سزا پوری کر کے‘ آزادی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ چراغ ایک ایک کر کے‘ روشن ہونے لگے ہیں۔ بے حسی میںڈوبے خیالات‘ ضمیر کی انگلیوں کا لمس محسوس کرنے لگے ہیں۔ اندھیروں میں ڈوبی ہوئی نگاہیں‘ روشنی کے رخساروں کے بوسے لینے لگی ہیں۔سچائی کی طاقت انگڑائیاں لیتی ہوئی‘ بیداریوں سے ہمکنار ہونے لگی ہے۔بچھڑے موسموں کے ساتھی‘ ایک ایک کر کے قریب آنے لگے ہیں۔ حسین موسموں کے آشنا چہرے‘ دکھائی دینے لگے ہیں۔ آیئے! اندھیروں کے ہاتھ جھٹک کر‘ سچائی کا راستہ اختیار کرنے والوں سے ملیں۔ یہ ڈاکٹر طاہر القادری ہیں‘ جو اپنی گرجدار آواز اور باوفا فدائیوں کے ساتھ‘ گندے نظام کو اکھاڑ پھینکنے کا عزم لے کر‘ میدان میں اترے۔ یہ عمران خان ہیں‘ جو کرپشن کے متعفن ماحول میں تیار کئے گئے‘ انتخابی نتائج پر کھڑے جعلی اداروں اور نظام کا ملبہ صاف کرنا چاہتے ہیں۔ اندھیرے کے پجاری اکٹھے ہو کر‘ انہیں راستے سے ہٹانے کے جتن کر رہے ہیں۔ لیکن روشنی چراغ در چراغ ‘ راستوں کو ہموار کر رہی ہے۔ چراغ ایک ایک کر کے روشن ہو رہے ہیں۔ یہ اندھیروں کے خدائوں سے بغاوت کرنے والے آفتاب چیمہ ہیں۔ ان سے ایک قدم پیچھے خالد خٹک ہیں۔ صداقت کی شمعیں کبھی کبھی انصاف کے بلند ایوانوں میں روشن ہوا کرتی تھیں۔اب یہ سارے ایوانوں میں روشن ہونے لگی ہیں۔روشنی کا پہلا جھونکا‘ ایڈیشنل سیشن اینڈ ڈسٹرکٹ جج راجہ اجمل خان کی عدالت سے نکلا۔ چند ہی روز بعد دوسرا جھونکا جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ سے اٹھا‘ یہ رپورٹ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے لکھی ہے اور لاہور ہائی کورٹ کے جج مسٹر جسٹس محمود مقبول باجوہ نے‘ تو پورا فانوس ہی روشن کر دیا۔ ایک چھوٹی سی موم بتی گلبرگ لاہور کی پولیس کے ڈرائیور‘ رمضان نے جلائی۔ اس کے ساتھیوں نے روایتی حربے استعمال کر کے ثابت کرنا چاہا کہ اس نے یہ کام نشے کی حالت میں کیا ہے۔ اسے ہسپتال میں نشے کا سرٹیفکیٹ دلانے کے لئے بھیجا گیا‘ تو ڈاکٹر کے ہاتھ میں اپنی شمع تھی۔ اس نے جھوٹا سرٹیفکیٹ دینے سے انکار کر دیا۔ لہر چل نکلی ہے۔ اب یہ ہر طرف پھیلے گی۔ روشنی کی لہریں اندھیروں پر غالب آنے لگیں گی۔ امیدوں کے موسم میں‘ ہم اپنے نئے پاکستان سے ہم آغوش ہوں گے۔ کرپشن سے پاک۔ ہاتھوں میں برکت اور آنکھوں میں نور لئے ‘خزاں زدہ اہل وطن!امیدوں کے پہلے پہلے دنوں کی مہک مبارک۔
 

تیز

محفلین
عمران خان ، طاہر القادری کی طرح دیگر سیاسی جماعتوں کے برعکس ، اگر یہی دھرنا کسی دینی جماعت نے کیا ہوتا ، تو اب تک انکو بلڈوزر سے کچل دیا جاتا ، اور لال مسجد سے بھی بڑا سانحہ ہوتا ۔ کیونکہ ہمارے لوگ اسلام پر سخت اور جمہوریت پر نرم ہیں
 

کاشفی

محفلین
1512346_711729285561342_4274505884285794307_n.jpg

Famous model Iman Ali at Karachi Dharna last night
اب تو واقعی میں دھرنا جوائن کرنے کا seriously سوچنا پڑے گا۔۔:)
 
عمران خان ، طاہر القادری کی طرح دیگر سیاسی جماعتوں کے برعکس ، اگر یہی دھرنا کسی دینی جماعت نے کیا ہوتا ، تو اب تک انکو بلڈوزر سے کچل دیا جاتا ، اور لال مسجد سے بھی بڑا سانحہ ہوتا ۔ کیونکہ ہمارے لوگ اسلام پر سخت اور جمہوریت پر نرم ہیں
پھر تو مجبوراً حکومت کا ساتھ دینا ہی پڑتا ہمیں۔۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
مجھے ن لیگ کے ایک کارکن نے بتایا تھا کہ بچپن میں نماز نا پڑھنے کی صورت میں نواز کو ابا جی سے ٹانگوں پر ڈنڈے پڑتے تھے۔ :)
شریف برادران اور اُن کے ابو کو میں نے خُود لوگوں کا مفت علاج کراتے دیکھا ہے۔ اور اُس وقت وہ حکومت میں نہیں تھے۔ ہر اِنسان کی شخصیت کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔
 
آخری تدوین:
مسجد جانے پر پڑتے تھے نواز کو ڈنڈے۔۔۔
ڈنڈے کے خوف سے اس نے مندر جانا شروع کیا اور اب ہندوستان کا خاص آدمی ہے یہ۔
دوائی کی جگہ منشیات دلاتے ہوں گے۔ اور اسی طرح ان کا دھندا چل نکلا۔
 

ابن رضا

لائبریرین
شریف برادران اور اُن کے ابو کو میں نے خُود لوگوں کا مفت علاج کراتے دیکھا ہے۔ اور اُس وقت وہ حکومت میں نہیں تھے۔ ہر اِنسان کی شخصیت کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔
مفت علاج کرانے سے کیا بدعنوانی اور قتل و غارت کا لائسنس مل جاتا ہے ان کو؟
 

جاسمن

لائبریرین
کوئی بھی شخص نہ مکمل اچھا ہوتا ہے اور نہ ہی مکمل بُرا۔ ہم میں سے اکثر کو شریف برادران کی حکومت سے ڈھیروں شکایتیں ہیں۔اور اِن میں سے اکثر درست بھی ہوں گی۔ لیکن اُن کے سوشل ورک کی میں چشم دید گواہ ہوں۔اور ایسا سوشل ورک کہ جِس کے بارے میں کوئی اِشتہار بازی نہیں(ہے ناں حیرت کی بات!:))
 
Top