چلو کچھ لوگ تو پہچانے گئے ۔
آسف زرداری سے لے کر قادری تک سب غریبوں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ چولہا غریب کا ٹھنڈا ہوتا ہے ۔ کوئی سیاستدان غریب نہیں ہوا ،کسی نے جائداد کارخانے نہیں بیچے ، بنکوں میں گروی رکھوائے قوم کے پیسوں سے قرضہ لیا ، الیکشن لڑا اور قرضے معاف کرائے ۔ آج یہ فوج کو ثالث کر رہے ہیں کل کیا خبر بیوروکریسی کو ثالث بنائیں ۔قادری نے تو ائرپورٹ سے ہی کور کمانڈر کو پکارنا شروع کردیا تھا مگر وہ نہیں آیا مگر عمران جس کے دروازے پر وزیر اعظم خود گیا اب اس تک وفاقی وزرا کی بھی پہنچ نہیں تھی وہ بھی خوشی سے دیوانہ ہو کر فورا رات ہی کو چل پڑا ۔ نہ جانے اس کی گردن کا سریا کیسا نکلا ۔
شائد ایوب خان نے اسی وجہ سے سیاتدنوں پر ایبڈو کے تحت چھے سال کے لئے پابندی لگا دی تھی8 ۔ یہ منافق سیاستدان پاکستان کولوٹنے میں متحد ہوتے ہیں اپنی باری کا انتظار بھی گراں گزرتا ہے جب مسئلے کے حل کے لئے پارلیمنٹ موجود ہے ، سیکورٹی کونسل نامی ایک ادارہ ہے تو حکومت کی آرمی چیف سے مداخلت کی درخواست ۔۔۔چہ معنی دارد، فوج تو حکومت کے حکم کی تابع ہے ،، واہ زمانے کی نیرنگیاں۔
یہ غلاموں کے تاجر ہیں ۔ جس دن سیاسی ورکر نے اپنے قائد کی غلاط بات سے بغاوت کی اس دن انقلاب آئے گا ۔ اندھی تقلید ، قائد کی ناجائز باتوں کی حمایت میں قتل و غارت کرنا انہی غلام روحوں کا شیوہ ہے ۔ یہی غلام روحیں میڈیا میں گشت کر رہی ہیں ۔ ہنس ہنس کر مباحثہ کر رہے ہیں ۔ الفاظوں کی مو شگافییاں ہو رہی ہیں ۔ جلتی پر تیل ڈال کر ریٹنگ حاصل کر رہے ہیں ۔
مستنصر حسین تارڑ نے سات آٹھ سال پہلے ایک کالم میں لکھا تھا کہ جب کوئی بڑا آدمی مرتا ہے تو کالم نویس کے دل میں لڈو پھوٹتے ہیں کہ تین چاردن کا مواد مل گیا واہ کیا بات ہے لکھاریوں کی ۔
بس اب تو یہی دعا کہ اللہ ظالموں کا عبرت ناک انجام دکھا دے ۔اس ملک کو ظالموں سے پاک کردے تو ہی بہتر تدبیر کرنے والا ہے ۔