آزادی مارچ اپڈیٹس

زرقا مفتی

محفلین
1395208_837369222972166_7440263656446848866_n.png
 

زرقا مفتی

محفلین
دُنیا بھر میں زاید المعیاد آنسو گیس کے استعمال کی مذمت کی جاتی ہے اور اسے انسانی صحت کے لئے مضر قرار دیا جاتا ہے
Expired Tear Gas Used In Riot Control By Sikkim Police’
http://voiceofsikkim.com/expired-tear-gas-used-in-riot-control-by-sikkim-police/

Report: Egyptian police using expired U.S. tear gas
http://content.usatoday.com/communi...lice-using-expired-us-tear-gas/1#.VAMgH8WSxnU

Expired tear gas used on OU students
http://www.cinejosh.com/telugu-political-news/5051/expired-tear-gas-used-on-ou-students.html


 
دُنیا بھر میں زاید المعیاد آنسو گیس کے استعمال کی مذمت کی جاتی ہے اور اسے انسانی صحت کے لئے مضر قرار دیا جاتا ہے
Expired Tear Gas Used In Riot Control By Sikkim Police’
http://voiceofsikkim.com/expired-tear-gas-used-in-riot-control-by-sikkim-police/

Report: Egyptian police using expired U.S. tear gas
http://content.usatoday.com/communi...lice-using-expired-us-tear-gas/1#.VAMgH8WSxnU

Expired tear gas used on OU students

http://www.cinejosh.com/telugu-political-news/5051/expired-tear-gas-used-on-ou-students.html

بیٹی آنسو گیس ہر صورت صحت کے لیے مضر ہے

اس سے زیادہ مضر یہ ہے کہ لوگوں کو بے وقوف بنا کر استعمال کیا جاوے
 
آخری تدوین:
دُنیا بھر میں زاید المعیاد آنسو گیس کے استعمال کی مذمت کی جاتی ہے اور اسے انسانی صحت کے لئے مضر قرار دیا جاتا ہے
Expired Tear Gas Used In Riot Control By Sikkim Police’
http://voiceofsikkim.com/expired-tear-gas-used-in-riot-control-by-sikkim-police/

Report: Egyptian police using expired U.S. tear gas
http://content.usatoday.com/communi...lice-using-expired-us-tear-gas/1#.VAMgH8WSxnU

Expired tear gas used on OU students

http://www.cinejosh.com/telugu-political-news/5051/expired-tear-gas-used-on-ou-students.html

زائد المعیاد کا شوشہ وہی چھوڑتے ہیں جن کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے کیوں کہ انہیں استعمال کنندہ کے خلاف ایک پوائنٹ جو مل جاتا ہے۔
بی بی سی نے ایک ماہر سے پوچھ گچھ کی ہے ذرا ملاحظہ ہو

Reports of expired tear gas canisters picked up by protesters in Egypt led to theories that it could be more toxic.

But Mr Wright says if enough time has elapsed that the chemicals have broken down inside the can, then it makes the canister less effective.

ربط: بی بی سی

اس کے علاہ بھی ہتھیاروں کی بہت ویب سائٹس پر بہت سے ایکسپرٹس کی طرف سے اس پر لکھا گیا ہے ملاحظہ ضرور کیجیے گا۔ میں ایسی کوئی بھی بات سن کر تحقیق ضرور کرتا ہوں۔ آخر غاروں میں نہیں اب گوگل کے ساتھ رہتے ہیں لائبریری جانے کی بھی ٹینشن نہیں تو اتنی زحمت تو کر ہی سکتے ہیں کہ تھوڑا مطالعہ کر لیں کچھ کہنے سے پہلے۔
 
’قائد نے کہا کچھ نہیں ہوگا، آگے چلتے ہیں‘

اسلام آباد کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال پمز کے ایمرجنسی وارڈ میں لائے جانے زخمیوں کی اکثریت کو پولیس کی مزاحمت کا اندازہ نہیں تھا۔

آنسو گیس سے متاثرہ افراد تو کچھ دیر بعد بات کرنے کے قابل ہوگئے لیکن زخمی ہونے والے افراد کی اکثریت کے سر پر چوٹیں آئیں تھیں اور وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں تھے۔
متاثر ہونے والے جہانگیر ایبٹ آباد سے عوامی تحریک کے دھرنے میں سنیچر کو ہی پہنچے تھے۔

جہانگیر کے مطابق ٹی وی کوریج دیکھ کر اندازہ ہوا کہ حالات پرامن ہیں تو وہ بھی اسلام آباد پہنچے اور اپنے قائد طاہر القادری کے وزیراعظم ہاؤس جانے کے اعلان کے ساتھ ہی مارچ شروع کر دیا۔

’قائد نے یقین دہانی کرائی تھی کہ کچھ نہیں ہوگا، اب آگے وزیراعظم ہاؤس چلتے ہیں، پولیس کچھ نہیں کہے گی۔ ہم نغموں اور ترانوں کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے کہ اچانک پہلے گولی چلنے کی آواز سنائی دی اور اس کے ساتھ ہی چاروں طرف سے آنسو گیس کی شیلنگ شروع ہو گئی اور پھر ہسپتال پہنچ کر ہوش آیا۔‘

ساتھ کے بستر پر ناہید پروین ابھی تک آنسو گیس کی شلینگ سے سنبھل نہیں پائی تھیں اور ساتھ کھڑے ان کے شوہر منظور حسین کے مطابق وہ جلوس کے تقریباً درمیان میں تھیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’پہلے جلوس کے آگے آنسو گیس کے گولے گرنے لگے اور اس کے ساتھ ہی سڑک کے دونوں جانب کھڑی پولیس نے بھی مظاہرین کو گھیرے میں لے کر آنسو گیس کی شیلنگ شروع کر دی اور پھر افراتفری میں کسی کو کوئی ہوش نہیں رہا۔‘

13 سالہ اومار کا قریبی عزیز نو سالہ علی ابھی تک آنسو گیس کے اثر سے باہر نہیں نکل پایا تھا اور ہوش میں نہیں تھا۔

اومار کے مطابق: ’پولیس کے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے استعمال کے دوران جب بھاگ کر پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پہنچے تو وہاں ہجوم نے یہ کہہ کر پارلیمنٹ کے احاطے کے جنگلے توڑنے شروع کر دیے کہ قائد پارلیمان کے اندر پہنچ گئے۔ اسی دوران ہجوم کے ساتھ اندر جانے کی کوشش کی تو پیچھے سے پولیس نے آنسو گیس کے گولے فائر کرنا شروع کر دیے، اس کے بعد علی بے ہوش ہو گئے اور میری حالت بھی خراب ہو گئی، لیکن ساتھ موجود بڑے عمر کے لڑکوں نے ہمیں اٹھا کر ہسپتال پہنچا دیا۔‘

نویں کلاس کے طالب علم مراتب شاہد کنٹینر ہٹانے والی کرین کے ساتھ تھے۔ مراتب خود تو ہسپتال پہنچ گئے لیکن ان کی والدہ، والد، بہن اور بھائی کا تاحال کوئی پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔

مراتب کے مطابق: ’کرین کے ساتھ لڑکوں نے جیسے ہی دو کنٹینر ہٹائے اور تیسرے کنٹینر کے اوپر پہنچے تو فائرنگ ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی آنسو گیس کی شیلنگ شروع ہو گئی، میرے پاس نمک تھا، گیلے کپڑے تھے لیکن اس کا کچھ فائدہ نہیں ہوا، اور نیم بے ہوشی کی حالت میں سڑک پر گر گیا۔‘

ساتھ کے بستر پر پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے پولیس اہلکار شکیل کا موقف بھی دیگر زخمیوں سے مختلف نہیں تھا۔

’سب ٹھیک طرح سے چل رہا تھا اور جلوس کے ساتھ پیچھے پیچھے چل رہے تھے کہ اچانک ہی آنسو گیس کی شیلنگ شروع ہو گئی اور پھر مڑنے والے مظاہرین نے راستے میں کھڑے اہلکاروں کو مارنا شروع کر دیا، میرے پاس حفاظتی جیکٹ نہیں تھی، ہجوم کی مار پیٹ سے ایک طرف جا گرا، ایک طرف تو آنسو گیس سے برا حال تھا، دوسرے مشتعل ہجوم نے صورتحال اور مشکل کر دی، گرنے کے ساتھ ہی دیگر اہلکار مدد کو پہنچے اور مظاہرین کو ہٹا کر مجھے ایمبولینس تک پہنچایا۔‘

آنسو گیس سے متاثرہ حفیظ چین میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن اپنے قائد کی کال پر اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ پڑھائی ادھوری چھوڑ کر 15 اگست کو اسلام آباد پہچنے تھے۔ جو کچھ ہوا اس کو ابھی پوری طرح سے حفیظ سمجھ نہیں پائے تھے اور واقعات کا خوف ان کے ذہن پر ابھی بھی غالب تھا۔

’آپ کے پاس کوئی اطلاع ہے کہ پولیس اہلکار یہاں ہمیں پکڑنے آ رہے ہیں، میرے دیگر ساتھیوں نے کہا کہ پولیس کبھی بھی آ سکتی ہے اور ہمیں ہسپتال کے اندر سے پکڑ کر لے جائے گی۔‘

جب میں ہسپتال پہنچا تو ہجوم بہت مشتعل تھا اور مرکزی دروازے کے قریب حفاظتی ڈیوٹی پر آنے والے اسلام آباد پولیس کے ایک گروپ کو مار کر بھگا دیا تھا اور اس میں سے ایک پولیس اہلکار ہسپتال کے بستر پر بے ہوشی کی حالت میں پڑا تھا۔

جب میں ہسپتال سے واپس جا رہا تھا تو ہجوم کافی کم ہو چکا تھا اور ہسپتال کے داخلی دروازے پر بلوہ پولیس اہلکار ڈنڈوں سمیت چوکس کھڑے تھے، جبکہ ایک گھنٹہ پہلے ایک زخمی پولیس اہلکار کو ہسپتال کا عملہ بڑی مشکل سے گھیر کر وارڈ تک لایا تھا، اب ایمبولینس سے پنجاب پولیس کا زخمی اہلکار آرام سے خود چل کر وارڈ کے اندر چلا گیا۔
 
بریکنگ نیوز:

بہت زیادہ امید ہے کہ ملک میں کودتا ہو اور مارشل لا لگے۔ اس کی ذمہ داری قادری و عمران پر ہوگی۔ پاکستان کی عوام انھیں کبھی معاف نہیں کرے گی
 
ایک جنگل میں شیر کی حکمرانی تھی۔ کچھ جانور اس سے خوش نہیں تھے مگر شیر طاقتور تھا اور مخالفین کا کوئی لیڈر بھی نہیں تھا۔ مخالفین نےبہت غور و خوض کرکے دو شریر بندروں سے رابطہ کیا جو جنگل میں ہر ایک کو تنگ کرتے رہتے تھے۔ بالاخر بہت بحث اور لالچ کے بعد ان دونوں بندروں کو راضی کرلیا کہ وہ شیر کے مخالف لیڈر بن جاویں اور جنگل کے بادشاہ بن جائیں اور شیر کو برطرف کردیں۔ ایک بڑی پارٹی ہوئی اور ان دو بندروں کو جنگل کا متبادل بادشاہ منتخب کرلیا گیا۔
ادھر شیر کو پتہ چلا تو اگلی صبح وہ مخالفین کی طرف گیا۔ مخالفین نے اپنے دونوں بادشاہ سلامتوں کو اشارہ کیا کہ شیر کا مقابلہ کریں۔ اشارہ ملنا تھا کہ دونوں بندر تیار ہوگئے۔ شیر کے اگے بڑھنے پر بندروں نے کیلے لے کر ایک درخت سے دوسرے درخت تک چھلانگ لگانی شروع کردی۔ یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں۔ مخالفین بڑے پریشان ہوئے کہ یہ شریربندر کیا کررہے ہیں۔ شرمندگی بھی ہورہی تھی۔ انھوں نے بندروں سے کہا کہ کچھ کرو۔ ان دونوں بندروں نے کہا کرتو رہے ہیں۔ ہمیں تو یہی اتا ہے ۔ یہی کررہے ہیں
عمران اور قادری کو دھرنے اتے ہیں اور دھرنے ہی کررہے ہیں۔ کبھی ادھر کبھی ادھر۔ بس دھرنے۔

تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ

ایک جنگل میں شیر کی حکمرانی تھی۔ کچھ جانور اس سے خوش نہیں تھے مگر شیر طاقتور تھا اور مخالفین کا کوئی لیڈر بھی نہیں تھا۔ مخالفین نےبہت غور و خوض کرکے دو شریر بندروں سے رابطہ کیا جو جنگل میں ہر ایک کو تنگ کرتے رہتے تھے۔ بالاخر بہت بحث اور لالچ کے بعد ان دونوں بندروں کو راضی کرلیا کہ وہ شیر کے مخالف لیڈر بن جاویں اور جنگل کے بادشاہ بن جائیں اور شیر کو برطرف کردیں۔ ایک بڑی پارٹی ہوئی اور ان دو بندروں کو جنگل کا متبادل بادشاہ منتخب کرلیا گیا۔
ادھر شیر کو پتہ چلا تو اگلی صبح وہ مخالفین کی طرف گیا۔ مخالفین نے اپنے دونوں بادشاہ سلامتوں کو اشارہ کیا کہ شیر کا مقابلہ کریں۔ اشارہ ملنا تھا کہ دونوں بندر تیار ہوگئے۔ شیر کے اگے بڑھنے پر بندروں نے پتھر اٹھا کر تمام جانورں کو مارنا شروع کردیا، درختوں کو اگ لگانا شروع کردی۔ درخت سے دوسرے درخت تک چھلانگ لگانی شروع کردی۔ یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں۔ مخالفین بڑے پریشان ہوئے کہ یہ شریربندر کیا کررہے ہیں۔ شرمندگی بھی ہورہی تھی۔ انھوں نے بندروں سے کہا کہ کچھ کرو۔ ان دونوں بندروں نے کہا کرتو رہے ہیں۔ ہمیں تو یہی اتا ہے ۔ یہی کررہے ہیں
عمران اور قادری کو صرف فساد اور دھرنے اتے ہیں اور وہ یہی کررہے ہیں
 

صائمہ شاہ

محفلین
شدید دکھ ہورہا ہے آپ سب کا رسپانس دیکھ کر
بے گناہ لوگ مارے جارہے ہیں جو آپ کے ہم وطن ہیں کیا کسی کے پاس ان کے لئے بھی وقت ہے یا صرف ان کی سیاسی ترجیحات انکی موت کا جواز بننے کے لئے کافی ہے اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر آپ سب کی سیاسی بصیرت کو سلام
انسانی حقوق کا کہیں ذکر نہیں اگر آپ شرفا کے حامی ہیں تو یہ سب تشدد بجا ہے کیونکہ انسانیت کا میعار سیاسی ترجیحات سے ہی طے پاتا ہے پاکستان میں ، حتٰی کہ میڈیا کو بھی نہیں بخشا گیا
 
شدید دکھ ہورہا ہے آپ سب کا رسپانس دیکھ کر
بے گناہ لوگ مارے جارہے ہیں جو آپ کے ہم وطن ہیں کیا کسی کے پاس ان کے لئے بھی وقت ہے یا صرف ان کی سیاسی ترجیحات انکی موت کا جواز بننے کے لئے کافی ہے اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر آپ سب کی سیاسی بصیرت کو سلام
انسانی حقوق کا کہیں ذکر نہیں اگر آپ شرفا کے حامی ہیں تو یہ سب تشدد بجا ہے کیونکہ انسانیت کا میعار سیاسی ترجیحات سے ہی طے پاتا ہے پاکستان میں ، حتٰی کہ میڈیا کو بھی نہیں بخشا گیا

سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ غریب عوام جو ہمیشہ سے پستی آئی ہے اسے کہیں بھی کوئی بھی پسنے سے بچانے کے لیے پیچھے رکھنے پر تیار نہیں بلکہ پسوانے کے لیے ہمیشہ کی طرح قربانی کے بکرے کے طور پر آگے رکھا جاتا ہے۔

یہ بات یہاں لکھنے کی تو نہیں تھی لیکن آپ نے بات ایسے کر دی کہ لکھنا پڑ رہا ہے، میں کل شام 8 بجے کراچی سے اسلام آباد پہنچا تھا اور اس ساری صورتحال کو دیکھتا رہا اور رات جب ٹوئیٹر پر کچھ ٹوئیٹس سے پتا چلا کہ پمز میں زخمیوں کے لیے خون کی اشد ضرورت ہے تو صبح 4 تک بجے میں خون دے کر واپس گھر آ چکا تھا۔ یہی ہمارے بس میں ہے اور شاید اتنا ہی ہم کر سکتے ہیں۔

اللہ پاک تمام زخمیوں کو صحتِ عطا فرمائیں، اللہ کرے ان کی تکلیف کی شدت ختم ہو، اور جو بھی حقیقی ذمہ دار ہے ان کے زخموں کا اور دکھ کا چاہے وہ عمران خان، قادری یا نواز شریف یا کوئی بھی اور ہو وہ اپنے انجام کو پہنچے۔ آمین۔
 

عثمان

محفلین
شدید دکھ ہورہا ہے آپ سب کا رسپانس دیکھ کر
بے گناہ لوگ مارے جارہے ہیں جو آپ کے ہم وطن ہیں کیا کسی کے پاس ان کے لئے بھی وقت ہے یا صرف ان کی سیاسی ترجیحات انکی موت کا جواز بننے کے لئے کافی ہے اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر آپ سب کی سیاسی بصیرت کو سلام
انسانی حقوق کا کہیں ذکر نہیں اگر آپ شرفا کے حامی ہیں تو یہ سب تشدد بجا ہے کیونکہ انسانیت کا میعار سیاسی ترجیحات سے ہی طے پاتا ہے پاکستان میں ، حتٰی کہ میڈیا کو بھی نہیں بخشا گیا
جو لوگ مارے جارہے ہیں وہ خود اپنے گھروں سے چل کر جائے وقوع پر پولیس اور ریاست سے جھڑپ کے لیے پہنچے ہیں۔ ایسا کہاں برداشت کیا جاتا ہے۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ غریب عوام جو ہمیشہ سے پستی آئی ہے اسے کہیں بھی کوئی بھی پسنے سے بچانے کے لیے پیچھے رکھنے پر تیار نہیں بلکہ پسوانے کے لیے ہمیشہ کی طرح قربانی کے بکرے کے طور پر آگے رکھا جاتا ہے۔

یہ بات یہاں لکھنے کی تو نہیں تھی لیکن آپ نے بات ایسے کر دی کہ لکھنا پڑ رہا ہے، میں کل شام 8 بجے کراچی سے اسلام آباد پہنچا تھا اور اس ساری صورتحال کو دیکھتا رہا اور رات جب ٹوئیٹر پر کچھ ٹوئیٹس سے پتا چلا کہ پمز میں زخمیوں کے لیے خون کی اشد ضرورت ہے تو صبح 4 تک بجے میں خون دے کر واپس گھر آ چکا تھا۔ یہی ہمارے بس میں ہے اور شاید اتنا ہی ہم کر سکتے ہیں۔

اللہ پاک تمام زخمیوں کو صحتِ عطا فرمائیں، اللہ کرے ان کی تکلیف کی شدت ختم ہو، اور جو بھی حقیقی ذمہ دار ہے ان کے زخموں کا اور دکھ کا چاہے وہ عمران خان، قادری یا نواز شریف یا کوئی بھی اور ہو وہ اپنے انجام کو پہنچے۔ آمین۔
آمین
 
Top