’قائد نے کہا کچھ نہیں ہوگا، آگے چلتے ہیں‘
اسلام آباد کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال پمز کے ایمرجنسی وارڈ میں لائے جانے زخمیوں کی اکثریت کو پولیس کی مزاحمت کا اندازہ نہیں تھا۔
آنسو گیس سے متاثرہ افراد تو کچھ دیر بعد بات کرنے کے قابل ہوگئے لیکن زخمی ہونے والے افراد کی اکثریت کے سر پر چوٹیں آئیں تھیں اور وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں تھے۔
متاثر ہونے والے جہانگیر ایبٹ آباد سے عوامی تحریک کے دھرنے میں سنیچر کو ہی پہنچے تھے۔
جہانگیر کے مطابق ٹی وی کوریج دیکھ کر اندازہ ہوا کہ حالات پرامن ہیں تو وہ بھی اسلام آباد پہنچے اور اپنے قائد طاہر القادری کے وزیراعظم ہاؤس جانے کے اعلان کے ساتھ ہی مارچ شروع کر دیا۔
’قائد نے یقین دہانی کرائی تھی کہ کچھ نہیں ہوگا، اب آگے وزیراعظم ہاؤس چلتے ہیں، پولیس کچھ نہیں کہے گی۔ ہم نغموں اور ترانوں کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے کہ اچانک پہلے گولی چلنے کی آواز سنائی دی اور اس کے ساتھ ہی چاروں طرف سے آنسو گیس کی شیلنگ شروع ہو گئی اور پھر ہسپتال پہنچ کر ہوش آیا۔‘
ساتھ کے بستر پر ناہید پروین ابھی تک آنسو گیس کی شلینگ سے سنبھل نہیں پائی تھیں اور ساتھ کھڑے ان کے شوہر منظور حسین کے مطابق وہ جلوس کے تقریباً درمیان میں تھیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’پہلے جلوس کے آگے آنسو گیس کے گولے گرنے لگے اور اس کے ساتھ ہی سڑک کے دونوں جانب کھڑی پولیس نے بھی مظاہرین کو گھیرے میں لے کر آنسو گیس کی شیلنگ شروع کر دی اور پھر افراتفری میں کسی کو کوئی ہوش نہیں رہا۔‘
13 سالہ اومار کا قریبی عزیز نو سالہ علی ابھی تک آنسو گیس کے اثر سے باہر نہیں نکل پایا تھا اور ہوش میں نہیں تھا۔
اومار کے مطابق: ’پولیس کے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے استعمال کے دوران جب بھاگ کر پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پہنچے تو وہاں ہجوم نے یہ کہہ کر پارلیمنٹ کے احاطے کے جنگلے توڑنے شروع کر دیے کہ قائد پارلیمان کے اندر پہنچ گئے۔ اسی دوران ہجوم کے ساتھ اندر جانے کی کوشش کی تو پیچھے سے پولیس نے آنسو گیس کے گولے فائر کرنا شروع کر دیے، اس کے بعد علی بے ہوش ہو گئے اور میری حالت بھی خراب ہو گئی، لیکن ساتھ موجود بڑے عمر کے لڑکوں نے ہمیں اٹھا کر ہسپتال پہنچا دیا۔‘
نویں کلاس کے طالب علم مراتب شاہد کنٹینر ہٹانے والی کرین کے ساتھ تھے۔ مراتب خود تو ہسپتال پہنچ گئے لیکن ان کی والدہ، والد، بہن اور بھائی کا تاحال کوئی پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔
مراتب کے مطابق: ’کرین کے ساتھ لڑکوں نے جیسے ہی دو کنٹینر ہٹائے اور تیسرے کنٹینر کے اوپر پہنچے تو فائرنگ ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی آنسو گیس کی شیلنگ شروع ہو گئی، میرے پاس نمک تھا، گیلے کپڑے تھے لیکن اس کا کچھ فائدہ نہیں ہوا، اور نیم بے ہوشی کی حالت میں سڑک پر گر گیا۔‘
ساتھ کے بستر پر پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے پولیس اہلکار شکیل کا موقف بھی دیگر زخمیوں سے مختلف نہیں تھا۔
’سب ٹھیک طرح سے چل رہا تھا اور جلوس کے ساتھ پیچھے پیچھے چل رہے تھے کہ اچانک ہی آنسو گیس کی شیلنگ شروع ہو گئی اور پھر مڑنے والے مظاہرین نے راستے میں کھڑے اہلکاروں کو مارنا شروع کر دیا، میرے پاس حفاظتی جیکٹ نہیں تھی، ہجوم کی مار پیٹ سے ایک طرف جا گرا، ایک طرف تو آنسو گیس سے برا حال تھا، دوسرے مشتعل ہجوم نے صورتحال اور مشکل کر دی، گرنے کے ساتھ ہی دیگر اہلکار مدد کو پہنچے اور مظاہرین کو ہٹا کر مجھے ایمبولینس تک پہنچایا۔‘
آنسو گیس سے متاثرہ حفیظ چین میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن اپنے قائد کی کال پر اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ پڑھائی ادھوری چھوڑ کر 15 اگست کو اسلام آباد پہچنے تھے۔ جو کچھ ہوا اس کو ابھی پوری طرح سے حفیظ سمجھ نہیں پائے تھے اور واقعات کا خوف ان کے ذہن پر ابھی بھی غالب تھا۔
’آپ کے پاس کوئی اطلاع ہے کہ پولیس اہلکار یہاں ہمیں پکڑنے آ رہے ہیں، میرے دیگر ساتھیوں نے کہا کہ پولیس کبھی بھی آ سکتی ہے اور ہمیں ہسپتال کے اندر سے پکڑ کر لے جائے گی۔‘
جب میں ہسپتال پہنچا تو ہجوم بہت مشتعل تھا اور مرکزی دروازے کے قریب حفاظتی ڈیوٹی پر آنے والے اسلام آباد پولیس کے ایک گروپ کو مار کر بھگا دیا تھا اور اس میں سے ایک پولیس اہلکار ہسپتال کے بستر پر بے ہوشی کی حالت میں پڑا تھا۔
جب میں ہسپتال سے واپس جا رہا تھا تو ہجوم کافی کم ہو چکا تھا اور ہسپتال کے داخلی دروازے پر بلوہ پولیس اہلکار ڈنڈوں سمیت چوکس کھڑے تھے، جبکہ ایک گھنٹہ پہلے ایک زخمی پولیس اہلکار کو ہسپتال کا عملہ بڑی مشکل سے گھیر کر وارڈ تک لایا تھا، اب ایمبولینس سے پنجاب پولیس کا زخمی اہلکار آرام سے خود چل کر وارڈ کے اندر چلا گیا۔