آزادی مارچ اپڈیٹس

BwWoIHXCEAEzSv0.jpg
بڑے تیز ہیں یار مٹی گھاس کا ڈھیر بنا کر اس پر شیلز کی تہہ بنا کر دونوں کے ڈھیر دکھا دیے حالانکہ صاف نظر آ رہا ہے۔ :beat-up:
 

آبی ٹوکول

محفلین
یہ ہے ہمارے ملک و قوم کا منتخب وزیر اعظم جو ایک فقرہ قومی زبان کا مکمل نہیں بول سکتا یار میں تو سمجھتا تھا کہ محض انگریجی بولنے میں ہی اسے ہچکچاہت ہے اس لیے اوبامہ کہ سامنے پرچیاں کھول کر بیٹھ گیا مگر تف ہے یار مجھے شرم آتی ہے اسے وزیر اعظم مانتے ہوئے

 

زرقا مفتی

محفلین
حیرت مجھے صرف پڑھے لکھے سلجھے ہوئے لوگوں کی جانب سے بھی کی جانے والی اندھی تقلید پر ہے۔ یہی راگ ابھی دنیا نیوز کی خبروں میں الاپا جا رہا تھا کہ پولیس نے زائد المیعاد آنسو گیس شیل استعمال کیے اور ثبوت کے طور پر شیل دکھائے بھی اب آپ بھی ملاحظہ کر لیں اور پھر mfg کے معنے اپنی ڈکشنری میں درست کر لیں۔


آپ کا جواب یہاں موجود ہے رجوع کر لیجئے
 

آبی ٹوکول

محفلین
امریکہ و یورپ سمیت تمام غیر ملکی طاقتیں حکومت کی پشت پناہی پر ہیں تمام کی تمام اسٹیبلشمنٹ حتٰی کے تمام کی تمام اپوزیشنز جماعتیں بھی اس تحریک کے خلاف متحد ہوچکیں ہیں اور کمر بستہ ہیں تعجب ہے پھر بھی اسے اسکرپٹ رائٹنگ اور سازش سے تعبیرکیا جارہا ہے جبکہ اوپر بیان کردہ تمام شواہدات اسے خالصتا عوامی تحریک ثابت کررہے ہیں
 
یہ ہے ہمارے ملک و قوم کا منتخب وزیر اعظم جو ایک فقرہ قومی زبان کا مکمل نہیں بول سکتا یار میں تو سمجھتا تھا کہ محض انگریجی بولنے میں ہی اسے ہچکچاہت ہے اس لیے اوبامہ کہ سامنے پرچیاں کھول کر بیٹھ گیا مگر تف ہے یار مجھے شرم آتی ہے اسے وزیر اعظم مانتے ہوئے

میرا نہیں خیال کہ الفاظ کے بہتر چناؤ کے لیے رہنمائی لینا اتنا ذلت آمیز ہے کہ آپ کے لیے ڈوب مرنے کی سچوئشن پیدا ہو رہی ہے۔
میڈیا کے سامنے الفاظ کا بہتر چناؤ محرم سے مجرم بننے کے لیے شاید کافی ضروری ہے۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
میرا نہیں خیال کہ الفاظ کے بہتر چناؤ کے لیے رہنمائی لینا اتنا ذلت آمیز ہے کہ آپ کے لیے ڈوب مرنے کی سچوئشن پیدا ہو رہی ہے۔
میڈیا کے سامنے الفاظ کا بہتر چناؤ محرم سے مجرم بننے کے لیے شاید کافی ضروری ہے۔
میرے بھائی کوئی ایک مرتبہ کی بات ہو تو تب نہ یہ چاہے کوئی جلسہ کرئے پریس کانفرنس کرئے غیر ملکی دورے پر سربراہان مملکت سے گفتگو کرئے یہاں تک کہ لائیو انٹر ویو تو یہ دیتا نہیں ریکارڈڈ میں بھی بس یہی کرتا رہتا ہے بات بات پر میں نے سنا تھا کہ جس شخص میں کچھ بھی نہ ہو محض اچھا بول لیتا ہو عامۃ الناس اسے بھی لیڈری کے منصب پر فائز کردیتے ہیں مگر اسے تو وہ بھی نہیں آتا نہ جانے پھر قوم نے اس میں کیا دیکھا
 
میرے بھائی کوئی ایک مرتبہ کی بات ہو تو تب نہ یہ چاہے کوئی جلسہ کرئے پریس کانفرنس کرئے غیر ملکی دورے پر سربراہان مملکت سے گفتگو کرئے یہاں تک کہ لائیو انٹر ویو تو یہ دیتا نہیں ریکارڈڈ میں بھی بس یہی کرتا رہتا ہے بات بات پر میں نے سنا تھا کہ جس شخص میں کچھ بھی نہ ہو محض اچھا بول لیتا ہو عامۃ الناس اسے بھی لیڈری کے منصب پر فائز کردیتے ہیں مگر اسے تو وہ بھی نہیں آتا نہ جانے پھر قوم نے اس میں کیا دیکھا
یعنی کوئی ہکلا حکومت کے قابل نہیں ہو سکتا یا سلو ریسپونڈنٹ اس قابل نہیں کہ وہ حکومت کر سکے :)
 

آپ کا جواب یہاں موجود ہے رجوع کر لیجئے

یہاں ایک بات یہ بھی بتاتا چلوں کہ فائر ایکسٹنگوئشر کی طرح ٹیئر گیس شیل بھی ایکس پائر ہونے کے بعد اپنی ایجیکشن پاور کھوتا ہے نا کہ اس کے اندر موجود گیس نقصاندہ ہوتی ہے۔
 
جی ہاں حکومت میں بیٹھے گلو بٹ تو صرف غلط روایت ڈال سکتے ہیں
روایت ڈال سکتے ہیں عوام کو قتل کرنے کی
روایت ڈال سکتے ہیں جھوٹ بولنے کی
روایت ڈال سکتے ہیں ڈیل کر کے ملک سے فرار ہونے کی
روایت ڈال سکتے ہیں قانون شکنی کی
روایت ڈال سکتے ہیں ریاستی دہشت گردی کی

لیکن ایسی غلط روایات ڈالنے والوں پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی
ذمہ داری عائد ہوتی ہے اصول پسندوں پر
جو نظام کی درستگی کا مطالبہ کر رہے ہیں

سچ ہے کہ معاشرے میں اخلاقی اقدار کی موت واقع ہو چکی ہے
اب ملزم وہ نہیں جو قتل کرتا ہے
مجرم وہ ہے جو قاتل کو قانون کے کٹہرے میں لانا چاہتا ہے
نظام کی درستگی کا مطالبہ جائز ہے ۔ اس سے کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ اختلاف ہے تو طریقہ کار پے۔ اس طرح سے سیاسی فوائد حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ صرف شعبدہ بازی ہے۔ وزیراعظم کے استعفٰی سے ملک کے مسائل حل نہیں ہوں گے = آپکی پارٹی کے منتخب صدر کی پریس کانفرنس آ گئی ہے۔ سن لیں- شاید کوئی بات واضح ہو سکے۔
 
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ ان سمیت پارٹی قیادت طاہرالقادری کے ہمراہ وزیرِ اعظم ہاؤس جانے کے حق میں نہیں تھے اور آگے بڑھے کا فیصلہ عمران خان نے تنہا کیا تھا۔

اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرس میں ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے پارٹی رہنماؤں کو یقین دہانی کروائی تھی کہ پریڈ گراؤنڈ سے وزیرِاعظم ہاؤس کی جانب پیش قدمی نہیں کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی فیصلے کی توثیق شاہ محمود قریشی سمیت تحریکِ انصاف کے دوسرے رہنماؤں کی تھی لیکن کچھ دیر بعد شیخ رشید اور شاہد سیف اللہ آئے اور عمران سے بات کی۔

’عمران نے کہا کہ وزیر اعظم ہاؤس کی جانب جائیں گے کیونکہ طاہرالقادری نے کہا ہے کہ جب تک عمران پیش قدمی کا اعلان نہیں کریں گے وہ بھی نہیں کریں گے۔‘

"عمران نے کہا کہ وزیر اعظم ہاؤس کی جانب جائیں گے کیونکہ طاہرالقادری نے کہا ہے کہ جب تک عمران پیش قدمی کا اعلان نہیں کریں گے وہ بھی نہیں کریں گے"

جاوید ہاشمی

جاوید ہاشمی کا مزید کہنا تھا کہ ’میں نے دوبارہ کہا کہ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ طاہرالقادری کیا کہتے ہیں۔ اپنے ان کارکنوں کی حفاظت کی ذمہ داری ہم پر ہے۔ اس پر عمران نے کہا کہ آپ نے جانا ہے تو چلے جائیں۔‘

جاوید ہاشمی نے کہا کہ میں نے بغاوت نہیں کی میں اب بھی تحریکِ انصاف کا منتخب صدر ہوں۔

اگر عمران خان واپس پریڈ گراؤنڈ میں آ جائیں تو میں بھی واپس آ جاؤں گا: ’میں نے سات سال جن جمہوری اداروں کے تحفظ کے لیے جیل کاٹی، اب ان پر حملہ نہیں کر سکتا۔‘

جاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ ’نوجوان تبدیلی لانا چاہتے ہیں لیکن میں اپنی جماعت کی قیادت سے کہتا ہوں انھیں زیادہ مشکل میں نہ ڈالیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کہ رہے کہ مجھے اشارے ہیں کہ کچھ نہیں ہوگا لیکن میں نے کہا تھا کہ لوگ مریں گے، میڈیا والے مریں گے، ہم دوسروں کو مصیبت میں ڈال دیں گے۔‘

’میں چاہتا تھا کہ مذاکرات کا عمل ختم ہو جائے تو کوئی قدم اٹھائیے گا اور شاہ محمود قریشی نے بھی انٹرویو کے لیے وہاں سے جاتے ہوئے خان صاحب کو یہی مشورہ دیا تھا۔‘

جاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ کسی بھی جماست میں جمہوریت نہیں ہے مسلم لیگ ن میں بھی ڈکٹیٹر شپ ہے۔ اگر خان صاحب بھی ملک بھر میں پارٹی کے پڑھے لکھے کارکنوں کی تبدیلی کی خواہشات کا خیال کرتے تو اچھا تھا۔‘

انھوں نے خدشتہ ظاہر کیا کہ ’ہم میں اور مارشل لا میں زیادہ فاصلہ نہیں رہ گیا۔ اگر ایسا ہو گیا تو ہم برسوں تک صفائیاں دیتے دیتے مر جائیں گے۔‘

جاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی دہشت گرد یا کوئی دوسری قوت صورتحال کا فائدہ اٹھا گئی تو ہم جمہوریت کی بات کرنے سے بھی شرمائیں گے۔ ہمیں اس شرمندگی سے بچائیں خان صاحب۔‘

جاوید ہاشمی نے اس بات پر زور دیا کہ ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کا فیصلہ تھا کہ ہم آگے نہیں جائیں گے۔

یاد رہے کہ جاوید ہاشمی اور پاکستان تحریکِ انصاف کی قیادت میں احتجاج کے طریقۂ کار پر پہلے بھی کئی مرتبہ اختلافِ رائے ہوا ہے۔ اس سے پہلے آزادی مارچ کے لاہور سے آغاز کے موقع پر بھی جاوید ہاشمی اس وقت ناراض ہوکر ملتان چلے گئے تھے جب طاہر القادری نے اپنے انقلاب مارچ کے عمران خان کے آزادی مارچ کے ساتھ اسلام آباد آنے کا اعلان کیا تھا۔

تاہم جاوید ہاشمی کے تحفظات دور کرتے ہوئے پاکستان تحریکِ انصاف نے نہ صرف اپنا مارچ الگ رکھنے کا فیصلہ کیا بلکہ اس کی قیادت بھی جاوید ہاشمی کے سپرد کر دی۔

ربط: بی بی سی
 
Top