پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ ان سمیت پارٹی قیادت طاہرالقادری کے ہمراہ وزیرِ اعظم ہاؤس جانے کے حق میں نہیں تھے اور آگے بڑھے کا فیصلہ عمران خان نے تنہا کیا تھا۔
اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرس میں ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے پارٹی رہنماؤں کو یقین دہانی کروائی تھی کہ پریڈ گراؤنڈ سے وزیرِاعظم ہاؤس کی جانب پیش قدمی نہیں کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی فیصلے کی توثیق شاہ محمود قریشی سمیت تحریکِ انصاف کے دوسرے رہنماؤں کی تھی لیکن کچھ دیر بعد شیخ رشید اور شاہد سیف اللہ آئے اور عمران سے بات کی۔
’عمران نے کہا کہ وزیر اعظم ہاؤس کی جانب جائیں گے کیونکہ طاہرالقادری نے کہا ہے کہ جب تک عمران پیش قدمی کا اعلان نہیں کریں گے وہ بھی نہیں کریں گے۔‘
"عمران نے کہا کہ وزیر اعظم ہاؤس کی جانب جائیں گے کیونکہ طاہرالقادری نے کہا ہے کہ جب تک عمران پیش قدمی کا اعلان نہیں کریں گے وہ بھی نہیں کریں گے"
جاوید ہاشمی
جاوید ہاشمی کا مزید کہنا تھا کہ ’میں نے دوبارہ کہا کہ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ طاہرالقادری کیا کہتے ہیں۔ اپنے ان کارکنوں کی حفاظت کی ذمہ داری ہم پر ہے۔ اس پر عمران نے کہا کہ آپ نے جانا ہے تو چلے جائیں۔‘
جاوید ہاشمی نے کہا کہ میں نے بغاوت نہیں کی میں اب بھی تحریکِ انصاف کا منتخب صدر ہوں۔
اگر عمران خان واپس پریڈ گراؤنڈ میں آ جائیں تو میں بھی واپس آ جاؤں گا: ’میں نے سات سال جن جمہوری اداروں کے تحفظ کے لیے جیل کاٹی، اب ان پر حملہ نہیں کر سکتا۔‘
جاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ ’نوجوان تبدیلی لانا چاہتے ہیں لیکن میں اپنی جماعت کی قیادت سے کہتا ہوں انھیں زیادہ مشکل میں نہ ڈالیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کہ رہے کہ مجھے اشارے ہیں کہ کچھ نہیں ہوگا لیکن میں نے کہا تھا کہ لوگ مریں گے، میڈیا والے مریں گے، ہم دوسروں کو مصیبت میں ڈال دیں گے۔‘
’میں چاہتا تھا کہ مذاکرات کا عمل ختم ہو جائے تو کوئی قدم اٹھائیے گا اور شاہ محمود قریشی نے بھی انٹرویو کے لیے وہاں سے جاتے ہوئے خان صاحب کو یہی مشورہ دیا تھا۔‘
جاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ کسی بھی جماست میں جمہوریت نہیں ہے مسلم لیگ ن میں بھی ڈکٹیٹر شپ ہے۔ اگر خان صاحب بھی ملک بھر میں پارٹی کے پڑھے لکھے کارکنوں کی تبدیلی کی خواہشات کا خیال کرتے تو اچھا تھا۔‘
انھوں نے خدشتہ ظاہر کیا کہ ’ہم میں اور مارشل لا میں زیادہ فاصلہ نہیں رہ گیا۔ اگر ایسا ہو گیا تو ہم برسوں تک صفائیاں دیتے دیتے مر جائیں گے۔‘
جاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی دہشت گرد یا کوئی دوسری قوت صورتحال کا فائدہ اٹھا گئی تو ہم جمہوریت کی بات کرنے سے بھی شرمائیں گے۔ ہمیں اس شرمندگی سے بچائیں خان صاحب۔‘
جاوید ہاشمی نے اس بات پر زور دیا کہ ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کا فیصلہ تھا کہ ہم آگے نہیں جائیں گے۔
یاد رہے کہ جاوید ہاشمی اور پاکستان تحریکِ انصاف کی قیادت میں احتجاج کے طریقۂ کار پر پہلے بھی کئی مرتبہ اختلافِ رائے ہوا ہے۔ اس سے پہلے آزادی مارچ کے لاہور سے آغاز کے موقع پر بھی جاوید ہاشمی اس وقت ناراض ہوکر ملتان چلے گئے تھے جب طاہر القادری نے اپنے انقلاب مارچ کے عمران خان کے آزادی مارچ کے ساتھ اسلام آباد آنے کا اعلان کیا تھا۔
تاہم جاوید ہاشمی کے تحفظات دور کرتے ہوئے پاکستان تحریکِ انصاف نے نہ صرف اپنا مارچ الگ رکھنے کا فیصلہ کیا بلکہ اس کی قیادت بھی جاوید ہاشمی کے سپرد کر دی۔
ربط:
بی بی سی