پھر غلیل بناؤں گا
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
اتوار 10 اگست 2014
ایسی پارلیمانی اکثریت کس کام کی جس سے لیڈر کوئی کام ہی نہ لے سکے
یہ تہہ در تہہ مسلح سکیورٹی کے دائرے، یہ خاردار تاروں کے نوکیلے لچھے، کونہ در کونہ پھیلے سادہ لباسئے، مہنگے ریبین کی سستی فرسٹ کاپی آنکھوں پر لگائے چوڑے چوڑے محافظ، یہ ڈالروں سے خریدے گئے اعلیٰ نسل جرمن شیفرڈ، یہ موبائل جیمرز سے لیس بلٹ پروف فلیٹ، گواہی ہے اس یقین کی کہ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ پر دل ہے کہ لرزتا ہی رہتا ہے۔
اور جب دل ہی قابو میں نہ ہو تو ملک کیسے قابو میں آئے اور حوصلہ کہاں گھونسلہ بنائے۔ ایسی پارلیمانی اکثریت کس کام کی جس سے لیڈر کوئی کام ہی نہ لے سکے۔ اگر کھلونے ہی جمع کرنے تھے تو اس کے لیے اتنی بھاگ دوڑ یا قسموں وعدوں کی کیا ضرورت تھی۔ ایک سے ایک کھلونے تو اپنے ہی گھر سے چند قدم دور آکسفورڈ سرکس کے نکڑ پر ٹوائز رس سے بھی خریدے جاسکتے تھے۔ اور کسی نے یہ بھی تو نہیں بتایا ہوگا کہ آپ کھلونوں سے کھیل تو سکتے ہیں مگر کھلواڑ نہیں کرسکتے۔ نتیجہ سامنے ہے۔ آپ کے کھلونے تک آپ سے بیگانے ہو چکے ہیں۔ کاش آپ اتنے سارے جمع کرنے سے پہلے فلم ٹوائے سٹوری ہی دیکھ لیتے۔
آدم کو تو خدا نے ایک بھی موقع نہیں دیا۔ لیکن اسی خدا نے آپ کو تین تین موقعے عطا کردیے۔ شاید اب کچھ کر جائے، شاید اب کچھ سیکھ لے، شاید اب کچھ سمجھ لے۔ لیکن آپ بھی اس بچے کی طرح ثابت ہوئے جسے بس ایک ہی دھن تھی۔
بیٹے بڑے ہو کر کیا کرو گے؟
غلیل بناؤں گا!
بیٹے اگر میں آپ کو ریموٹ کنٹرول والا جہاز لے دوں تو اڑاؤ گے؟
جی اڑاؤں گا مگر دل بھر گیا تو اسے بیچ دوں گا۔
بیچ کے کیا کروگے؟
ربڑ اور دو شاخہ لکڑی خریدوں گا اور غلیل بناؤں گا۔
اچھا اگر میں آپ کو ایک درجن غلیلیں خرید کے دے دوں تب تو آپ غلیل نہیں بناؤ گے نا؟؟؟
بالکل نہیں بناؤں گا۔ لیکن اگر وہ ٹوٹ گئیں یا گم ہوگئیں تو پھر غلیل بناؤں گا۔
اور بیٹا اگر اس دنیا سے تمام درخت غائب ہوجائیں تب کیسے غلیل بناؤ گے؟
جی پھر تو میں بس سویا کروں گا۔
اتنا کیوں سوؤ گے بیٹا؟
تاکہ خواب میں غلیلیں بناؤں۔
میں بچپن سے ایسے فلسفے سن رہا ہوں کہ مرا ہوا خاک کا دہشت زدہ لاکھ کا۔آپ خود ہی بتائیے کہ کون شخص زیادہ کارآمد ہے؟ وہ کہ جس کے سینے میں آپ سیدھی سیدھی گولی اتار دیں یا وہ کہ جس کی کنپٹی کے پاس سے زناٹے دار گولی گزار دیں۔ مرے ہوئے سے آپ کوئی کام نہیں لے سکتے لیکن دہشت زدہ آپ کا احسان مند غلام ہوجائے گا۔احسان مند یوں کہ آپ نے گولی صرف کان سے چھوا کر اسے ایک اور موقع عطا کیا ہے۔
جس نے پارٹی ہو کہ پارلیمنٹ، کہ معیشت، کہ آرٹیکل 245، سبھی سے غلیل بنانی ہے ۔اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ موٹی موٹی باتیں بھی سمجھ جائے گا، نری زیادتی ہے
ہوسکتا ہے یہ سب باتیں ٹھیک ہوں اور صدیوں کی سچائی کا نچوڑ ہوں۔ لیکن جس نے پارٹی ہو کہ پارلیمنٹ، کہ معیشت، کہ آرٹیکل 245، سبھی سے غلیل بنانی ہے ۔اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ موٹی موٹی باتیں بھی سمجھ جائے گا، نری زیادتی ہے۔آپ کچھ بھی کرلیں۔ بھلے غلیل چھین کر اس غلیل میں ڈھیلے کی جگہ اسے رکھ کے ربڑ کھینچ دیں لیکن وہ جہاں بھی گرے گا غلیل ہی بنائے گا۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ ایسے یک رخے جنونی بچے کو ڈنڈا ڈولی کر کے پھینک دینے کے بعد حالات ٹھیک ہوجائیں گے؟ سوچ ہے آپ کی۔ اگلا تو اس سے بھی بڑا جنونی غلیل باز ہے۔
پھر بھی یہ سب بچے قابلِ برداشت ہیں۔ سب اپنے ہی ہیں۔آپس میں ہی غلیل بازی کرتے ہیں۔انھیں ڈھیلا مارنے کی تو اجازت ہے ڈھیلا نکالنے کی نہیں۔ بظاہر جتنے شرارتی سہی مگر اتنا پتہ ہے کہ ایک دوسرے سے کتنی مستی کرنی ہے اور کب کسی کی کھنکھار سن کر غلیل کمر کے پیچھے چھپا لینی ہے۔ ورنہ تھوڑی دیر کے لیے غلیل چھین کر اوپر رکھ دی جاتی ہے۔ اتنی سزا عموماً کافی ہوتی ہے۔
کیا کریں جی بچوں کی تربیت تو ایسے ہی کرنی پڑتی ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/08/140810_baat_se_baat_rk.shtml