عبدالحفیظ منور
محفلین
چندباتیں ہیں قابل توجہ- ایک تو یہ کہ خان صاحب کا طرز عمل کرکٹ کے میدانوں سے لے کے سیاست کے میدانوں تک وہی ہے جو میں عرض کر چکا ہوں- اسکی گواہی کرکٹ میں ان کے زیر سایہ کھیلنے والے بہت سے کھلاڑی دے سکتے ہیں اور سیاست میں بھی۔ تازہ ترین داقعہ ایک منتخب صدر کو بیک جنبش ابرو ہٹا دینا ہے - کسی کو بھی ہمت نہیں ہے کہ خان صاحب کے فیصلے سے اتفاق نہ کرنے کی جسارت کرے۔ ذاتی طور پہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اس رویے سے۔ لیکن ایک لیڈر ایک باپ اور ایک رہبر ہوتا ہے جسکی پیردی کرنے والے اپنا دماغ استعمال کرنےکی بجائے رہبر کے قدموں کے نشان پہ اپنے قدم رکھتے ہیں- خان صاحب کے جارحانہ اور میں نہ مانوں والے طرز عمل کی جھلک انکے پیروکاروں کی تحریر اور تقریر دونوں میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ کارکنان کی اس تربیت کے ذمے دار براہ راست خان صاحب ہیں-پروفیسر صاحب کے بیانات، کتب اور دی گئی تسبیحات سے ہم جیسے گناہگار بھی واقف ہیں۔ ان کا احسان بھی گردن پہ ہے، کہ فکری سفر میں ٹھوکریں کھانے سے کئی دفعہ بچنے میں مدد فرمائی۔ لیکن ضروری نہیں، کہ ان سے احتراز کی وجہ سے آپ کسی کو مطعون ٹھہرائیں۔ اور آپ سے درخواست ہے، کہ سرخائے ہوئے لفظ سے متعلق نظرِ ثانی فرمائیں۔ کوئی اور رکن اسی گرما گرمی میں آپ کی پسندیدہ سیاسی شخصیات کو فرعون کہے گا...........پھر معاملہ ذاتیات تک آئے گا...............سیاسی بحث سے فشارِ خون بلند رہنے لگتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی لوگ گتھم گتھا ہو جاتے ہیں..... ذرا دھیرے چلیے ، امید ہے فائدہ ہو گا
دوسری بات پروفیسر صاحب کی- آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں انکو۔ آپ بتائیں کہ ہم میں سے کتنےلوگوں کی علمی سطح یہ ہے کہ پروفیسر صاحب کی بات کو سمجھ کے ان سے احتراز کر سکیں؟ میں نے جو تبصرے پڑھے ہیں ، وہ پڑھ کہ مجھے سب سے زیادہ غصہ آیا ہی خان صاحب پہ کہ یہ تربیت کی ہے بھائی صاحب نے اپنے جیالوں کی۔
تیسری بات- میں کسی سیاسی شخصیت کا اتنا بڑا حامی نہیں ہوں کہ مرنے مارنے پہ تل جاوں- سیاسی لیڈر عوامی ملکیت ہوتا ہے، ہر انسان کو حق حاصل ہے اپنی بات کہنے کا- آج کل جو الفاظ انقلابی بھائی لوگ استعمال کر رہے ہیں ، انکے مقابلے میں میرا لفظ کافی مسکین سا لگتا ہے ۔