آزادی مارچ اپڈیٹس

پروفیسر صاحب کے بیانات، کتب اور دی گئی تسبیحات سے ہم جیسے گناہگار بھی واقف ہیں۔ ان کا احسان بھی گردن پہ ہے، کہ فکری سفر میں ٹھوکریں کھانے سے کئی دفعہ بچنے میں مدد فرمائی۔ لیکن ضروری نہیں، کہ ان سے احتراز کی وجہ سے آپ کسی کو مطعون ٹھہرائیں۔ اور آپ سے درخواست ہے، کہ سرخائے ہوئے لفظ سے متعلق نظرِ ثانی فرمائیں۔ کوئی اور رکن اسی گرما گرمی میں آپ کی پسندیدہ سیاسی شخصیات کو فرعون کہے گا...........پھر معاملہ ذاتیات تک آئے گا...............سیاسی بحث سے فشارِ خون بلند رہنے لگتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی لوگ گتھم گتھا ہو جاتے ہیں..... ذرا دھیرے چلیے ، امید ہے فائدہ ہو گا :)
چندباتیں ہیں قابل توجہ- ایک تو یہ کہ خان صاحب کا طرز عمل کرکٹ کے میدانوں سے لے کے سیاست کے میدانوں تک وہی ہے جو میں عرض کر چکا ہوں- اسکی گواہی کرکٹ میں ان کے زیر سایہ کھیلنے والے بہت سے کھلاڑی دے سکتے ہیں اور سیاست میں بھی۔ تازہ ترین داقعہ ایک منتخب صدر کو بیک جنبش ابرو ہٹا دینا ہے - کسی کو بھی ہمت نہیں ہے کہ خان صاحب کے فیصلے سے اتفاق نہ کرنے کی جسارت کرے۔ ذاتی طور پہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اس رویے سے۔ لیکن ایک لیڈر ایک باپ اور ایک رہبر ہوتا ہے جسکی پیردی کرنے والے اپنا دماغ استعمال کرنےکی بجائے رہبر کے قدموں کے نشان پہ اپنے قدم رکھتے ہیں- خان صاحب کے جارحانہ اور میں نہ مانوں والے طرز عمل کی جھلک انکے پیروکاروں کی تحریر اور تقریر دونوں میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ کارکنان کی اس تربیت کے ذمے دار براہ راست خان صاحب ہیں-
دوسری بات پروفیسر صاحب کی- آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں انکو۔ آپ بتائیں کہ ہم میں سے کتنےلوگوں کی علمی سطح یہ ہے کہ پروفیسر صاحب کی بات کو سمجھ کے ان سے احتراز کر سکیں؟ میں نے جو تبصرے پڑھے ہیں ، وہ پڑھ کہ مجھے سب سے زیادہ غصہ آیا ہی خان صاحب پہ کہ یہ تربیت کی ہے بھائی صاحب نے اپنے جیالوں کی۔
تیسری بات- میں کسی سیاسی شخصیت کا اتنا بڑا حامی نہیں ہوں کہ مرنے مارنے پہ تل جاوں- سیاسی لیڈر عوامی ملکیت ہوتا ہے، ہر انسان کو حق حاصل ہے اپنی بات کہنے کا- آج کل جو الفاظ انقلابی بھائی لوگ استعمال کر رہے ہیں ، انکے مقابلے میں میرا لفظ کافی مسکین سا لگتا ہے ۔
 

کاشفی

محفلین
BwjrEtwIUAEI7ai.jpg:large
 

x boy

محفلین
ایم کیو ایم کے راہنما خالد مقبول نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں کہا کہ اگر ہم نے جمہوریت کی صحیح معنوں میں پیروی کی ہوتی تو مظاہرین حکومت کے سامنے کھڑے نہ ہوتے
انہوں نے ماڈل ٹاؤن سانحے کے متاثرین کو انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا
وہ انتخابات میں دھاندلی کا ذکر کرنا بالکل بھول گئے ۔ اگر کرتے تو بات اپنے گھر تک جا پہنچتی
انہوں نے پی ٹی وی پر حملے کی مذمت کی اور ذمہ داروں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا
 

x boy

محفلین
میرے یہاں سائٹ رسٹرکٹ ہے اس لئے فیس بک، یوٹیوب اور نیوز چینل نہیں دیکھ سکتا۔ البتہ سرچ انجن کھلا ہے
 

x boy

محفلین
چندباتیں ہیں قابل توجہ- ایک تو یہ کہ خان صاحب کا طرز عمل کرکٹ کے میدانوں سے لے کے سیاست کے میدانوں تک وہی ہے جو میں عرض کر چکا ہوں- اسکی گواہی کرکٹ میں ان کے زیر سایہ کھیلنے والے بہت سے کھلاڑی دے سکتے ہیں اور سیاست میں بھی۔ تازہ ترین داقعہ ایک منتخب صدر کو بیک جنبش ابرو ہٹا دینا ہے - کسی کو بھی ہمت نہیں ہے کہ خان صاحب کے فیصلے سے اتفاق نہ کرنے کی جسارت کرے۔ ذاتی طور پہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اس رویے سے۔ لیکن ایک لیڈر ایک باپ اور ایک رہبر ہوتا ہے جسکی پیردی کرنے والے اپنا دماغ استعمال کرنےکی بجائے رہبر کے قدموں کے نشان پہ اپنے قدم رکھتے ہیں- خان صاحب کے جارحانہ اور میں نہ مانوں والے طرز عمل کی جھلک انکے پیروکاروں کی تحریر اور تقریر دونوں میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ کارکنان کی اس تربیت کے ذمے دار براہ راست خان صاحب ہیں-
دوسری بات پروفیسر صاحب کی- آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں انکو۔ آپ بتائیں کہ ہم میں سے کتنےلوگوں کی علمی سطح یہ ہے کہ پروفیسر صاحب کی بات کو سمجھ کے ان سے احتراز کر سکیں؟ میں نے جو تبصرے پڑھے ہیں ، وہ پڑھ کہ مجھے سب سے زیادہ غصہ آیا ہی خان صاحب پہ کہ یہ تربیت کی ہے بھائی صاحب نے اپنے جیالوں کی۔
تیسری بات- میں کسی سیاسی شخصیت کا اتنا بڑا حامی نہیں ہوں کہ مرنے مارنے پہ تل جاوں- سیاسی لیڈر عوامی ملکیت ہوتا ہے، ہر انسان کو حق حاصل ہے اپنی بات کہنے کا- آج کل جو الفاظ انقلابی بھائی لوگ استعمال کر رہے ہیں ، انکے مقابلے میں میرا لفظ کافی مسکین سا لگتا ہے ۔

متفق ہوا جاسکتا ہے
 

سینٹ میں قائد حزب اختلاف سنیٹر اعتزاز احسن نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپنے خطاب کا آغاز ایک لطیفہ سے کیا۔ انکا کہنا تھا کہ ایک بیٹا اپنی ماںکی کوئی بات نہیں مانتا تھا، ایک دن پولیس نے اسے چوری کے کیس میں پکڑ لیا، ماں کو پتہ چلا تو وہ بھی تھانے پہنچ گئی اور دیکھا کہ جب پولیس والے اسکو چھتر لگاتے تو وہ کہتا ’’ہائے ماں‘‘ اس پر اسکی ماں نے جوش میں آکر کہا ’’واہ تھانیدارا صدقے جاواں، اینوں ماں تے یاد کرا دتی اے‘‘ اس کے بعد اعتزاز احسن نے کہا کہ صدقے جاؤں عمران خان اور طاہر القادری پر کہ انہوں نے نوازشریف کو پارلیمنٹ کی یاد تو دلا دی۔ اس پر ایوان میں قہقہے پھوٹ پڑے۔
 

x boy

محفلین
چوہدری اعتزاز احسن نے پارلیمان سے خطاب میں کہا کہ حزب مخالف کی تمام جماعتیں مجبورا آئین اور جمہوریت کے لئے حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں
انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ مجبوری یہ ہے کہ اپنی اگلی باری خطرے میں ہے
اعتزازاحسن کاکہناتھاکہ لشکریوں کے الزامات میں بہت صداقت بھی ہے
دھاندلی بھی ہوئی
ماڈل ٹاؤن میں ظلم بھی ہوا
انہوں نے حکومت پر نااہلی کا الزام لگایا اور نواز شریف کو سوچ بچار کا مشورہ دیا کہ وہ تیسری بار ایسی صورتحال میں کیوں ہیں۔ ان کا کہنا تھا اپنےدائیں بائیں (صلاح کاروں) کو بدلیے
شاید وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ پی پی پی تو آپ کی ٹانگیں نہیں کھینچ رہی پھر بھی آپ ہیٹ ٹرک کرنے پر تلے ہیں
، انہوں نے وزیراعظم پربھی تنقید کرتے ہوئے کہاکہ اس سے قبل بھی وزیراعظم نوازشریف نے اعلان کیا تھاکہ وہ مستعفی نہیں ہوں گے اور اگلے دن انہوں نے استعفی دے دیا۔
،اعتزازاحسن نے کہاکہ پیپلزپارٹی کی رہنمانصرت بھٹواورمحترمہ بینظیربھٹونے احتجاجی تحریکوں میں پتھرکھائے یہ لوگ خواتین اور بچوں کو آگے کر کے خود کو محفوظ کر رہے ہیں
وہ یہ کہتے ہوئے بھول گئے کہ نصرت بھٹو اور بے نظیر خواتین بھی تھیں ۔ اُنہیں یہ بتانا بھی یاد نہیں رہا کہ بے نظیر سانحہ کارساز کے وقت ایک بلٹ پروف کنٹینر میں سوار تھیں۔ اپنی ہلاکت کے وقت بھی ایک بلٹ پروف گاڑی میں سوار تھیں۔ انہوں نے حکومت سے فرمائش کر کے جیمرز بھی لگوا رکھے تھے

اعتزازاحسن کاکہنا تھاکہ پارلیمنٹ کے سامنے آکراس طرح احتجاج کی روایت غلط ہےکل کوئی آکر کہہ دے کہ وزیرستان سے فوج کا انخلاء کردیا جائے یاکوئی اورمطالبہ کردے توحکومت کیاکرے گی۔

وہ یہ بتانا بھول گئے کہ پاکستان میں پارلیمنٹ کے سامنے آ کر احتجاج کی روایت پی پی پی اور نون لیگ نے ڈالی تھی ۔ اُنہیں یہ بھی یاد نہیں رہا کہ جس آئین کی وہ بات کر رہے ہیں وہی آئین عوام کو احتجاج کا حق دیتا ہے ۔ اور جمہوریت اختلاف رائے کو برداشت کرتی ہے۔ احتجاج کرنے والوں کے مسائل حل کرتی ہے گولی نہیں چلاتی


اعتزاز احسن نے کہاکہ معاملات کوحل کرنے کے لئے حکومتی وزراء کو اپنی زبان میں مٹھاس بھرنا ہوگی، انہوں نے وزیراعظم پربھی تنقید کرتے ہوئے کہاکہ اس سے قبل بھی وزیراعظم نوازشریف نے اعلان کیا تھاکہ وہ مستعفی نہیں ہوں گے اور اگلے دن انہوں نے استعفی دے دیا۔

یعنی اب بھی اُنہیں شک ہے کہ نواز شریف استعفی دے سکتے ہیں

اعتزاز احسن نے نون لیگ ، تحریک انصاف اور عوامی تحریک پر بہت مہذب پیرائے میں کڑی تنقید کی
مگر اُن کی ساری تقر یر سن کر بھی یہ واضح نہیں ہو سکا کہ کن اصولوں کی بنیاد پر پی پی پی دھاندلی سے بننے والی ظالم اور بدعنوان حکومت کی حمایت جاری رکھیں گے۔

اعتزاز حسین سے پہلے متفق نہیں تھا لیکن اب کچھ باتیں بجا کی ہیں

۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
اسرائیل اور فلسطین کے معاملات پر ساری دنیا بولتی ہے، صرف جارج گیلوے نہیں۔
ابھی چند دن پہلے ہی امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے پاکستان میں جمہوریت کے بارے میں کوئی بات کی تو خان صاحب نے کنٹینر سے امریکہ بہادر کو للکارا مارا تھا کہ اوئے امریکا ہمارے معاملات میں دخل نا دو۔ کیونکہ امریکی بیان میں ان کے اقدامات کی حمایت نہیں تھی۔ لیکن اس سے ملتے جلتے ایک برطانوی بیان پر ان کی خاموشی بھی دیکھنے کو ملی۔ میں نے جارج گیلوے کی اس ٹویٹ کو اس تناظر میں غیر ملکی مداخلت سمجھا اور پوسٹ کرنے والی محترم رکن سے سوالیہ انداز میں پوچھا تھا ۔
:):):)
یقین مانیے کہ کہ ساری دنیا نہیں بولتی اس معاملے پر بہت سے لوگوں کی خاموشی پر ایک سوالیہ نشان ہے اور جارج نے نہ صرف کھلم کھلا اپنے موقف کا اعلان کیا بلکہ لندن میں ہونے والی تقریباً ہر ریلی میں بھی حصہ لیا
 
Top