استاد
محمد یعقوب آسی صاحب۔
پروفیسر غضنفر جب بحرِ نغمہ، بحرِ زمزمہ، بحرِ مرغوب، بحرِ اہزوجہ اور بحرِ مہزوج (ہزج سے)، بحرِ ارمولہ (رمل سے)، بحرِ ضروع (مضارع سے)، بحرِ ترانہ، بحرِ متزاج اور بحرِ مزدوج کا تعارف کراتا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ وہ روایتی عروض کو کامل و اکمل تسلیم نہیں کرتا۔
کتنی عجیب بات ہے نا! اب دیکھیں مجھے محض ایک بھی وجہ نہیں ملتی روایتی عروض کے نا مکمل ہونے کی۔
اگر آپ کہیں کہ اس میں بحور کی تعداد کم ہے تو میں کہونگا کہ 33 بحور تو سالم موجود ہیں جنہیں استعمال کرنا تو دور کسی کو نام تک نہیں یاد انکے، پھر زحافات سے بننے والی ہزاروں بحریں اور اوزان ہیں جن سب کا استعمال تو ممکن ہی نہیں کہ کسی بڑے سے بڑے عروضی نے بھی کیا ہو۔
پھر روایتی عروض کو کامل نہ سمجھنے کی وجہ یہ ضرور ہوسکتی ہے کہ اس میں بحور کے نام نئے سیکھنے والوں کے لئے تھوڑے مشکل واقع ہوتے ہیں ہیں۔
مثلاً:
بحر ہزج مثمن اخرب مکفوف مقصور:
مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیل
غور کریں تو اس میں بدلا کیا؟
وزن تو وہی ہے مگر نام بدل گیا اور نیا نام سالم بحر کے طور پر ”بحر اہزوجہ“ رکھ لیا گیا۔
دوسری ارمولہ:
اس میں بھی ”رمل مخبون محذوف“ کے نام کو ہٹا کر ارمولہ رکھ دیا گیا ہے۔
مگر ان سب جگہوں پر اوزان میں کوئی تبدیلی نہیں محض نئے نام رکھے گئے۔ تو محض مشکل اصطلاحات کی بنیاد پر اگر یہ کہا جائے کہ روایتی عروض مکمل نہیں تو اس کی کوئی وجہ نہیں نظر آتی۔ پھر یہی کہونگا کہ عروض تو پرانا ہی ہے۔ سکھانے کا طریقہ آسان کرنا مقصود ہے۔ نیا عروض بنانا مقصود نہیں۔
اسی طرح دیکھیں ہم اس وقت (اساتذہ و تلامذہ سب ملا کر) کتنی بحور استعمال کرتے ہیں؟
پندرہ عربی اور چار فارسی بحور بھی پوری مستعمل نہیں ہیں اور بحروں کا دائرہ چاہے جتنا بھی بڑا کرلیں ہم ان انیس بحروں سے آگے بڑھ ہی نہیں پائے باوجود عروضیوں کی کوشش کے بھی۔
پھر ان انیس بحروں میں بھی اکثر بحریں بالکل متروک ہیں، جو مستعمل ہیں ان میں بھی لگے بندھے اوزان استعمال ہوتے ہیں۔
مثلاً ایک عام مثال لیں : ہزج مسدس محذوف مفاعیل مفاعیلن فعولن کتنی مستعمل ہے۔ مگر اس کے مقابلہ میں مثمن محذوف مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن فعولن کتنے شاعروں نے استعمال کی؟ سب جانتے ہیں۔
یہی حال باقی بحروں کا بھی ہے۔ اس سب کے باوجود بھی ایک فضول دائرہ ”دائرہ منعکسہ“ بھی وجود میں آیا اور اب تو اسے وجود میں آئے زمانہ گزر گیا ہے۔ لیکن اس میں شاعری کتنی ہوئی؟ ہر ایک مکمل طور پر واقف ہے۔
تو ثابت ہوا کہ بحروں کی کمی نہیں، بلکہ زیادتی ہی ہے۔ تو اس حوالے سے عروض کو نا مکمل کہنا بھی زیادتی ہوئی، بحروں پر بحریں نکالتے جائیں، دائروں پر دائرے قائم کرتے جائیں لیکن ان سب کا عروض کو ایک بھی فائدہ نہ ہوگا۔
اسی طرح آپ کوئی بھی معاملہ اٹھا لیں اور غور کرلیں تو خود ہی ثابت ہوجائے گا کہ عروض ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ ہاں اگر اصطلاحات کی طرٖف آئیں تو اس حوالے سے میری رائے یہ ہے کہ:
جسے اصطلاحات کا شوق ہے وہ پورا عروضی بن جائے اور زحافات کو سمجھ لے تو کسی بحر کا نام ذہن میں رکھنا مشکل نہ ہوگا۔ اس کا تجربہ میں کر چکا ہوں۔
دوسرا یہ کہ اگر کسی کو اصطلاحات یاد رکھنے میں پریشانی ہو تو اس چکر میں پڑے گا ہی نہیں اسکے لئے نئی اور پرانی اصطلاحات یکساں ہیں محض بحروں کا وزن یاد رکھ لے۔ جو آج تک ہوتا چلا آیا ہے۔ اور یہی دستور رہا ہے کہ آج تک جس شخص کو مفاعیلن کی سالم بحر ”ہزج“ کا نام نہ یاد ہوسکا ہو وہ ”اہزوجہ“ کیوں یاد رکھے گا؟
اس حوالے سے بھی روایتی عروض کامل ٹھہرا۔
تو حقیقت یہ ہے کہ روایتی عروض کو نا مکمل کہنے کی مجھے ایک بھی وجہ نظر نہیں آتی۔ ہاں تقطیع کا جو اشاری نظام ہے وہ یقیناً ایک عمدہ نظام ہے۔
مگر اس میں وزن کہیں نہیں جاتا۔ محض تقطیع کا طریقہ بدل دیا جاتا ہے۔ بحر تو وہی ہے جو صدیوں سے استعمال ہوتی آئی ہے۔