آسان علم قافیہ
ہم جانتے ہیں کہ بیت یا شعر کی ’’زمین‘‘ کے تین جزو ہیں؛ وزن، قافیہ اور ردیف :
وزن: بیت کے دونوں مصرعوں کی بحر اور وزن کو (معلوم شرائط اور اختیارات کے تحت) مماثل ہونا چاہئے۔
قافیہ: بیت کے دونوں مصرعوں کے آخر میں واقع ہونے والے الفاظ کی مماثل صوتیت کو قافیہ کہتے ہیں۔
ردیف: بیت کے دونوں مصرعوں کے آخر میں قافیہ کے بعد کے الفاظ جو بعینہٖ متماثل ہوتے ہیں، وہ ردیف ہے۔ ردیف اختیاری ہے تاہم جب اختیار کر لی جائے تو اس کو نباہنا لازم ہو جاتا ہے۔
اقبال کی ایک غزل سے یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
تأمل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
مگر یہ بتا، طرزِ انکار کیا تھی
تمہارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی
کہیں ذکر رہتا ہے اقبال تیرا
فسوں تھا کوئی تیری گفتار کیا تھی
یہ غزل بحرِ متقارب مثمن سالم میں ہے۔ اور اس کے ہر مصرعے کا عروضی وزن ’’فعولن فعولن فعولن فعولن‘‘ ہے۔ غزل کا پہلا شعر جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ اور ہم ردیف ہیں، مطلع کہلاتا ہے۔ ان میں قافیے ’’تکرار‘‘ اور ’’عار‘‘ ہیں اور ردیف ہے: ’’کیا تھی‘‘۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ غزل کے بقیہ شعروں کے مصرعِ اول میں قافیہ یا ردیف نہیں ہے، اور مصرعِ ثانی میں یہ اہتمام موجود ہے: ۔۔۔ طرزِ انکار کیا تھی، ۔۔۔ سرکار کیا تھی، ۔۔۔ گفتار کیا تھی۔
غزل کی بحور اور اوزان کے بارے میں تفصیلی بحث کے لئے ’’آسان عروض کے دس سبق‘‘ ملاحظہ ہوں۔ ردیف کے بارے میں مختصراً جان لیجئے کہ شعر میں ردیف کا ہونا لازمی نہیں۔ بلکہ اس کے دوسرے مصرعے کا قافیہ پر مکمل ہونا لازم ہے۔ تاہم ردیف ایک بار اختیار کر لی جائے تو پھر اس کو نباہنا ضروری ہے۔ مزید یہ کہ ردیف کی لفظی حیثیت قافیے سے الگ ہونی چاہئے، قافیے اور ردیف کا خلط اصولاً درست نہیں ہے۔ مثالیں آگے آئیں گی۔
لغت کی روشنی میں ردیف کو یوں سمجھئے کہ ایک گھوڑسوار ہے جس کے ہاتھ میں گھوڑے کی باگ ہے؛ وہ قافیہ ہے۔ سواری اور سوار کا نظام یہاں مکمل ہو گیا، اب یہاں کھوڑے کی پشت پر ایک اور شخص کے بیٹھنے کی گنجائش ہے وہ ردیف ہے۔ اس کا ہونا ضروری نہیں تاہم اگر وہ ہے تو اسے بھی سنبھل کر بیٹھنا ہے اور منزل تک سنبھل کررہنا ہے۔ گھوڑے کی باگ کو بحر کہہ لیجئے اور اس کی رفتار کو وزن۔ قلم کا سفر یوں ہی ہوا کرتا ہے۔
یہاں آموختہ دہرا لیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ بلینک ورس یا بلاقافیہ کی طرح اکبر الٰہ آبادی نے ڈالی تھی کہ اس کے مصرعوں میں قافیہ کا اہتمام نہیں ہوتا، بحر اور وزن کا اہتمام بہر حال ہوتا ہے۔ بعد ازاں اس کو نظم کی ہیئت میں ’’نظمِ معرّٰی‘‘ کے نام سے تسلیم کیا گیا۔ قوافی پر بحث کے ضمن میں آزاد نظم ہمارا موضوع نہیں ہے۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ جاری ہے
اس غرض سے کہ فقیر کے لکھے پر کڑی نظر رکھیں اور اگر کہیں کچھ غلط لکھ جاؤں تو اس کی نشان دہی فرما دیں۔
بہت آداب۔