آسان علمِ قافیہ
اقبال کی ان دونوں غزلوں کے مطلعے دیکھئے:
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
دونوں مصرعوں کے آخری الفاظ ’’کیا تھی‘‘ باہم متماثل ہیں اور ان سے پہلے الفاظ تکرار، عار؛ کا اختتامیہ ’’الف۔ر‘‘ مشترک ہے۔ یہغزل کے بقیہ شعروں میں ردیف یہی رہے گی اور قافیہ کا لحاظ بھی رکھا جائے گا کہ جو بھی الفاظ ردیف سے پہلے واقع ہوں، ان کا اختتامیہ ’’الف۔ر‘‘ ہو گا۔ ان قوافی میں دو حرف مستقل ہیں، جن میں پہلا الف ہے۔ درجِ ذیل غزل کے قوافی میں صرف ایک حرف الف مستقل ہے۔
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
یہ اہتمام مطلع میں کیا جاتا ہے کہ ردیف اور قافیہ واضح طور پر پہچانے جا سکیں۔ اس کو ’’اِعلان‘‘ کہتے ہیں۔ کوئی شعر بیان کئے بغیر اِعلان مقصود ہو تو کم از کم دو ہم قافیہ لفظ سامنے رکھنے ہوں گے تاکہ کوئی ابہام واقع نہ ہو۔ مثال کے لئے یہ ایک شعر دیکھئے:
سر تو سارے خم ہیں بارِ غلامی سے
ایوانوں میں صرف کلاہیں اٹھتی ہیں
یہ بتا دیا گیا کہ اس میں ’’کلاہیں‘‘ قافیہ ہے، اس کے ہم قافیہ الفاظ کیا ہوں گے؟
ایک صورت ہے: آہیں، پناہیں، راہیں؛ وغیرہ (اہیں: کو حروفِ قافیہ قرار دیا گیا)۔ یا:
دوسری صورت ہے: دیواریں، موجیں، صبحیں، تلواریں، رسمیں؛ وغیرہ (یں: کو حروفِ قافیہ سمجھ گیا)
اس امرکا فیصلہ مطلع میں ہو تا ہے:
جب ذہنوں میں خوف کی ٹیسیں اٹھتی ہیں
دب جاتی ہیں جتنی سوچیں اٹھتی ہیں
سو، یہاں دوسری صورت (دیواریں، موجیں، صبحیں، تلواریں، رسمیں) کو اعتبار ملتا ہے، کیوں کہ ’’ٹیسیں‘‘ اور ’’سوچیں‘‘ میں ’’یں‘‘ مشترک اختتامیہ ہے۔ پہلی صورت (آہیں، پناہیں، راہیں)کسی دوسری غزل میں رہی ہو گی، اس غزل میں نہیں ہے۔اس تفصیل میں جانے کا مقصد یہ بیان کرناہے کہ عمومی معانی میں لفظ ’’کلاہیں‘‘ کے ہم قافیہ الفاظ: آہیں، پناہیں، راہیں، دیواریں، موجیں، صبحیں، تلواریں، رسمیں؛ وغیرہ ہیں، تاہم زیرِ نظر غزل میں آہیں، پناہیں، راہیں کی قید نہیں۔ پوری غزل بھی دیکھتے چلئے:
جب ذہنوں میں خوف کی ٹیسیں اٹھتی ہیں
دب جاتی ہیں جتنی سوچیں اٹھتی ہیں
سر تو سارے خم ہیں بارِ غلامی سے
ایوانوں میں صرف کلاہیں اٹھتی ہیں
الفت میں رخنے بھی اتنے پڑتے ہیں
جتنی اوپر کو دیواریں اٹھتی ہیں
حد نظر تک کوئی سفینہ بھی تو نہیں
کس کے لئے یہ سرکش موجیں اٹھتی ہیں
ایک زمانہ گزرا سورج نکلا تھا
مشرق سے اب اندھی صبحیں اٹھتی ہیں
غیر مقابل ہوں تو ہم بھی لڑ جائیں
ہم پر اپنوں کی تلواریں اٹھتی ہیں
لو آسیؔ جی، پیار کے سوتے خشک ہوئے
پریم پریت کی ساری رسمیں اٹھتی ہیں
لہٰذا ہمارے نزدیک اگر کسی غزل کے حوالے سے بات کرنا مقصود ہو تو کم از کم دو ہم قافیہ الفاظ پہلے پیش کرنے ہوں گے تاکہ ان کی مماثلت کوحوالہ سمجھا جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے۔
اور دیگر اہلِ فکرونظر۔