آنکھ، چشم، نین، دیدہ، نگاہ، نظر پر اشعار

شیزان

لائبریرین
اٹھائے کون حجاباتِ شاہد و مشہود
کہاں کسی پہ طلسم ِ پس ِ نگاہ کھلا

اختر حسین جعفری​
 

شیزان

لائبریرین
ورنہ تصویر میں کیا تھا جسے مانا جاتا
اس کی مشہوری ذرا آنکھ بھر آنے سے ہوئی​
 

شمشاد

لائبریرین
سایہءچشم میں حیراں رُخِ روشن کا جمال
سرخیءلب میں پریشاں تری آواز کا رنگ
(فیض احمد فیض)
 

شیزان

لائبریرین
وہ منکشف مِری آنکھوں میں ہو کہ جلوے میں
ہر ایک حُسن کسی حُسن کا اشارا ہے

امجد اسلام امجد​
 

شیزان

لائبریرین
نگاہیں میرے گرد آلود چہرے پر ہیں دنیا کی
جو پوشیدہ ہے باطن میں وہ جوہر کون دیکھے گا​
 

شمشاد

لائبریرین
قرضِ نگاہِ یار ادا کر چکے ہم
سب کچھ نثارِ راہِ وفا کر چکے ہم

کچھ امتحانِ دستِ جفا کر چکے ہم
کچھ اُن کی دسترس کا پتا کر چکے ہم
(فیض احمد فیض)
 

شیزان

لائبریرین
کھل نہیں سکتی ہیں اب آنکھیں میری
جی میں یہ کس کا تصور آگیا

میر درد​
 

شیزان

لائبریرین
جان سے ہوگئے بدن خالی
جس طرف تو نے آنکھ بھر دیکھا

ان لبوں نے نہ کی مسیحائی
ہم نے سوسو طرح سے مر دیکھا

میر درد​
 

شیزان

لائبریرین
دل کس کی چشم مست کا سرشار ہوگیا
کس کی نظر لگی جو یہ بیمار ہوگیا

میر درد​
 

شیزان

لائبریرین
شمع کی مانند ہم اس بزم میں
چشم نم آئے تھے دامن ترچلے

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تواس جینے کے ہاتھوں مرچلے
میر درد​
 

شمشاد

لائبریرین
ایک عالم نظر آئے گا گرفتار تمھیں
اپنے گیسوئے رسا تا بہ کمر جانے دو
(میاں داد خان سیاح)
 

شیزان

لائبریرین
وہ چشمِ زر کہاں، یہ مِری چشمِ تَر کہاں
ٹکرائی بھی تو جا کے نظر سے نظر کہاں

جانا ہے تم کو جاؤ، چلے ہو مگر کہاں
میں ڈُھونڈتا پھروں گا تمہیں دَر بہ دَر کہاں

عدیمؔ ہاشمی​
 

شیزان

لائبریرین
گُم اپنی محبت میں دونوں، نایاب ہو تم نایاب ہیں ہم
کیا ہم کو کُھلی آنکھیں دیکھیں، اِک خواب ہو تم اِک خواب ہیں ہم

آنکھیں جو ہیں اپنے چہرے پر، اِک ساون ہے اِک بھادوں ہے
اے غم کی ندی تو فکر نہ کر، اِس وقت بہت سیَراب ہیں ہم

عدیمؔ ہاشمی​
 

شیزان

لائبریرین
اے چشم فلک، اے چشم زمیں، ہم لوگ تو پھر آنے کے نہیں
دو چار گھڑی کا سپنا ہیں، دو چار گھڑی کا خواب ہیں ہم

عدیمؔ ہاشمی​
 

شیزان

لائبریرین
تُو آگ ہی لگا کے ذرا خُود کو دیکھ لے
تجھ پر یوُنہی پڑے گی کِسی کی نظر کہاں

یہ کِس مقابلے کے لیے جا رہے ہو تم
آنسو کہاں عدیم، صدف کا گہر کہاں


عدیمؔ ہاشمی​
 
Top