خوب!میری بیدار نگاہوں میں اگر بھولے سے
نیند آئے بھی تو اب خواب کہاں آتے ہیں
میں تو یکمشت اسے سونپ دوں سب کچھ لیکن
ایک مٹھی میں میرے خواب کہاں آتے ہیں
سعید خان
آنکھوں سے دور صبح کے تارے چلے گئے
نیند آ گئی تو غم کے نظارے چلے گئے
دل تھا کسی کی یاد میں مصروف اور ہم
شیشے میں زندگی کو اتارے چلے گئے
خوبصورت شعرآغاز میں کیے دیتا ہوں۔
عبدالحمید عدم صاحب کا شعر:
وہ پرندے جو آنکھ رکھتے ہیں
سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں
نین کُھلتے نہ تھے، نیند آتی نہ تھی، رات آہستہ آہستہ ڈھلتی رہی
سارے اوراقِ غم منتشر ہوگئے، دیر تک دل میں آندھی سی چلتی رہی
احمد مشتاق
خوبکبھی حیات کی ضامن، کبھی وسیلہء مرگ
نگاہِ دوست ترا کوئی اعتبار نہیں
جواب نہیں۔آنکھ پہ ہاتھ دھرے پھرتے تھے لیکن شہر کے لوگوں نے
اُس کی باتیں چھیڑ کے ہم کو لہجے سے پہچان لیا