آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟

تین دن میں Anthony Hope کا ناول The Prisoner of Zenda ایک بار پھر پڑھ لیا اور اب اسی کا سلسلہ وار دوسرا ناول Rupert of Hentzau (آن لائن ای بُک مل گئی) پڑھنا شروع کیا ہے۔ دلچسپ کہانی ہے۔ پہلا ناول انٹرمیڈیٹ کے کورس میں تھا۔ امتحان ختم ہوتے ہی چھٹیوں میں اس ناول کو پہلی مرتبہ پڑھنے کا شرف حاصل کیا تھا، اس سے پہلے امتحان کے لیے بنے بنائے نوٹس سے کام چلایا تھا۔تب سے کئی مرتبہ اسے پڑھ چکے ہیں۔
روپرٹ آف ہینتزا بھی ختم ہوئی۔ اچھا دلچسپ ناول ہے۔
 
اس کا اردو ترجمہ نہیں ہے؟
اردو ترجمہ دیکھا نہیں ہے، شاید ہو۔ میں چونکہ عربی ادب کا طالب علم ہوں اس لیے ابن المقفع کا عربی ترجمہ ہی پڑھا۔
ابن المقفع کو عربی ادب میں جومقام حاصل ہے اس کے پیش نظر عربی ادب کا طالب علم ان کی تحریروں سے مستغنی نہیں ہوسکتا۔
 

فاخر رضا

محفلین
اردو ترجمہ دیکھا نہیں ہے، شاید ہو۔ میں چونکہ عربی ادب کا طالب علم ہوں اس لیے ابن المقفع کا عربی ترجمہ ہی پڑھا۔
ابن المقفع کو عربی ادب میں جومقام حاصل ہے اس کے پیش نظر عربی ادب کا طالب علم ان کی تحریروں سے مستغنی نہیں ہوسکتا۔
سلام. میں نے سنا ہے کہ فصاحت و بلاغت کی وجہ سے نہج البلاغہ بھی عربی ادب کے طلاب پڑھتے ہیں. کیا یہ صحیح ہے؟ خاص طور پر الازہر یونیورسٹی میں
 
بہت اچھی بات ہے۔ ویسے تو مجھے کتابیں پڑھنے کا شوق نہیں مگر کوئی ناول، کہانی یا واقعہ سُنادے تو میں سُن لیتا ہوں۔ خاص کر ہمیں اُردو میں کتابیں پڑھنی چاہیے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
گزشتہ دنوں یونہی لائبریری میں کتابیں کھنگالتے ہوئے رضا علی عابدی کی 'ریل کہانی' نظر آئی تو کافی عرصے بعد کوئی اردو سفرنامہ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کی 'جرنیلی سڑک' سکول کے دنوں میں پہلی بار پڑھی تھی۔ اب یہ کتاب پڑھ کر بھی ایسا کی محسوس ہوا جیسے بی بی سی کی کوئی اردو دستاویزی فلم دیکھ رہی ہوں۔
 
سلام. میں نے سنا ہے کہ فصاحت و بلاغت کی وجہ سے نہج البلاغہ بھی عربی ادب کے طلاب پڑھتے ہیں. کیا یہ صحیح ہے؟ خاص طور پر الازہر یونیورسٹی میں
معلوم نہیں، شاید الازہر کے نصاب میں شامل ہو، ہمارے ہاں پاکستان میں تو شاید کہیں شامل نہیں
 
اور مجھے اکثر کتابوں پر مبنی فلمیں دیکھ کر نجانے کیوں مایوسی ہوتی ہے۔

ہارڈ کور پڑھنے والوں کے ساتھ تو یہی ہوتا ہے:) کبھی کبھی فلم اچھی ہوتی ہے۔ اس کی فلم کافی مشہور ہے ویسے۔

ہمیں تو آج تک کوئی فلم اس کی کتاب سے بہتر نہیں نظر آئی، بلکہ بقول فرحت کیانی بہنا مایوسی ہی ہوئی۔
 
ٹو سر ود لو انگریزی ڈراما جسے اصل کہانی سے ایوب خان دن نے ڈرامہ کی شکل میں ۲۰۱۳ میں ڈھالا اور ہمیں یہ کتاب ای بک کی شکل میں برٹش کونسل لائبریری سے ملی۔

ایوب خان دن صاحب نےاس شہرہء آفاق کتاب کی ڈرامائی تشکیل بہت خوبصورت انداز میں کی ہے جس کی کما حقہ تعریف تقریباً ناممکن ہے۔


۲۰۱۳ میں چھپے اس ڈرامے نے مجبور کردیا کہ اسے ایک ہی نشست میں پڑھا جائے۔
 

نمرہ

محفلین
ہمیں تو آج تک کوئی فلم اس کی کتاب سے بہتر نہیں نظر آئی، بلکہ بقول فرحت کیانی بہنا مایوسی ہی ہوئی۔
میں تو نہیں مانتی مگر لوگ کہتے ہیں کہ لارڈ آف دا رنگز کی فلمیں زیادہ اچھی ہیں۔ پرائڈ اینڈ پریجڈس کی نئی والی فلم بھی اچھی ہے، مگر اصل کہانی سے بڑھ کر نہیں۔ ویسے سٹیفن کنگ کی کہانیوں پر بنی فلمیں زیادہ اچھا ہوتی ہیں، ڈارک ٹاور والے حالیہ ڈزاسٹر کے علاوہ۔
 
Top