محب علوی
مدیر
روپرٹ آف ہینتزا بھی ختم ہوئی۔ اچھا دلچسپ ناول ہے۔
کچھ تفصیل بتائیں اس ناول کی۔
روپرٹ آف ہینتزا بھی ختم ہوئی۔ اچھا دلچسپ ناول ہے۔
کچھ تفصیل بتائیں اس ناول کی۔
سر مجھے تو اقبال کے اس خطبے کی سر آصف اعوان کی کتاب سے بھی سمجھ نہیں آئیعلم اور مذہبی تجربہ۔ ڈاکٹر محمد آصف اعوان
حالانکہ سب سے آسان ترین انھوں نے ہی لکھا ہے۔ میرا اس پر ریسرچ پیپر پرنٹ ہورہا ہے۔ ان شا اللہ۔ اکتوبر میں اشاعت کے بعد میں آپ کو دے دوں گا پڑھ لیجیے گا سمجھ آجائےگی۔ پھر بھی سمجھ نہ آئے تو خطبات پر میرا پی ایچ ڈی کا مقالہ پڑھ لیجیے گا اگلے سال جنوری تک۔ انشا اللہ سمجھ آجائے گی۔سر مجھے تو اقبال کے اس خطبے کی سر آصف اعوان کی کتاب سے بھی سمجھ نہیں آئی
سر انہوں نے بھی پی ایچ ڈی لیول کا لکھا ہوا۔۔جب تک آپ کی پی ایچ ڈی مکمل ہو گی تب تک میرا ایم اے ہو جانا۔۔۔میری بدقسمتی ہے کہ سر افضال احمد انور کی رہنمائی کے باوجود سب کچھ سر سے گزر گیاحالانکہ سب سے آسان ترین انھوں نے ہی لکھا ہے۔ میرا اس پر ریسرچ پیپر پرنٹ ہورہا ہے۔ ان شا اللہ۔ اکتوبر میں اشاعت کے بعد میں آپ کو دے دوں گا پڑھ لیجیے گا سمجھ آجائےگی۔ پھر بھی سمجھ نہ آئے تو خطبات پر میرا پی ایچ ڈی کا مقالہ پڑھ لیجیے گا اگلے سال جنوری تک۔ انشا اللہ سمجھ آجائے گی۔
پھر بھی نہ سمجھ آیا تو؟؟؟حالانکہ سب سے آسان ترین انھوں نے ہی لکھا ہے۔ میرا اس پر ریسرچ پیپر پرنٹ ہورہا ہے۔ ان شا اللہ۔ اکتوبر میں اشاعت کے بعد میں آپ کو دے دوں گا پڑھ لیجیے گا سمجھ آجائےگی۔ پھر بھی سمجھ نہ آئے تو خطبات پر میرا پی ایچ ڈی کا مقالہ پڑھ لیجیے گا اگلے سال جنوری تک۔ انشا اللہ سمجھ آجائے گی۔
پھر ایک ملاقات کا شرف بخشئے گا انشا اللہ میں سمجھانے کی کوشش کروں گا۔پھر بھی نہ سمجھ آیا تو؟؟؟
میں اپنی نہیں عائشہ صدیقہ صاحبہ کی بات کررہا ہوں!!!پھر ایک ملاقات کا شرف بخشئے گا انشا اللہ میں سمجھانے کی کوشش کروں گا۔
نہیں، ایسی بات نہیں،حقیقت تو یہ ہے کہ اس کا اولین ترجمہ جو سید نذیر نیازی نے کیا ہے، وہ نسبتاً مشکل ہے، ڈاکٹر آصف اعوان صاحب نے تو کافی آسان تشریح کی ہے۔ ویسے اس حوالے سے ڈاکٹر عبادت بریلوی کا ترجمہ دیکھا جاسکتا ہے، خلیفہ عبدالحکیم نے بھی آسان کام کیا ہے، سعید احمد اکبر آبادی کا کام بھی نسبتاً آسان ہے۔سر انہوں نے بھی پی ایچ ڈی لیول کا لکھا ہوا۔۔جب تک آپ کی پی ایچ ڈی مکمل ہو گی تب تک میرا ایم اے ہو جانا۔۔۔میری بدقسمتی ہے کہ سر افضال احمد انور کی رہنمائی کے باوجود سب کچھ سر سے گزر گیا
انشا اللہ عائشہ صاحبہ کو بھی سمجھ آجائے گا۔ مجھے قوی امید ہے۔در اصل ان خطبات کو سمجھنے کے لیے علمِ منطق، فلسفہ اور علم الکلام کا بنیادی علم ہونا ضروری ہے۔ اگر نہیں ہے تو سمجھانے والے پر منحصر ہے کہ وہ ان خطبات کی تفہیم کس طرح کرتا ہے۔میں اپنی نہیں عائشہ صدیقہ صاحبہ کی بات کررہا ہوں!!!
لیکن سمجھنے والی عقل و فہم کا بھی اپنا حصہ ہوتا ہے۔۔۔انشا اللہ عائشہ صاحبہ کو بھی سمجھ آجائے گا۔ مجھے قوی امید ہے۔ وہ ذہین ہیں اور جامعہ میں میری سٹوڈنٹ رہ چکی ہیں۔در اصل ان خطبات کو سمجھنے کے لیے علمِ منطق، فلسفہ اور علم الکلام کا بنیادی علم ہونا ضروری ہے۔ اگر نہیں ہے تو سمجھانے والے پر منحصر ہے کہ وہ ان خطبات کی تفہیم کس طرح کرتا ہے۔
بات جزوی درست ہے۔اگر دماغی طبی خرابی نہ ہو تو عقل و شعور کے دائروں کو وسعت دینا عین ممکنات میں سے ہے۔ علامہ صاحب نے پہلے خطبے میں اس موضوع سے بھی ذرا مختلف انداز میں بحث کی ہے۔ شعور ایسی چیز نہیں جسے ادھار لیا جاسکے ، لیکن ایسی چیز بھی نہیں جس میں وقت اور ماحول کے ساتھ تبدیلی رونما نہ ہوسکے، اسی طرح عقل کے زوایے اور دائرے پیدائش سے موت تک تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔لیکن سمجھنے والی عقل و فہم کا بھی اپنا حصہ ہوتا ہے۔۔۔
میرا خیال ہے!!!
سمجھ گئی ہیں ناں عائشہ صدیقہ ؟؟؟بات جزوی درست ہے۔اگر دماغی طبی خرابی نہ ہو تو عقل و شعور کے دائروں کو وسعت دینا عین ممکنات میں سے ہے۔ علامہ صاحب نے پہلے خطبے میں اس موضوع سے بھی ذرا مختلف انداز میں بحث کی ہے۔ شعور ایسی چیز نہیں جسے ادھار لیا جاسکے ، لیکن ایسی چیز بھی نہیں جس میں وقت اور ماحول کے ساتھ تبدیلی رونما نہ ہوسکے، اسی طرح عقل کے زوایے اور دائرے پیدائش سے موت تک تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
عمران بھائی آپ نے مجھے سمجھ کیا رکھامیں اپنی نہیں عائشہ صدیقہ صاحبہ کی بات کررہا ہوں!!!
عمران بھائی آپ نے مجھے سمجھ کیا رکھا
سر ابھی میں لاشعور کے تابع نہیں ہوئی اور ایسا بھی نہیں کہ شعور کی رو بہتی چلی جائے۔۔۔۔اور آپ یہ عمران بھائی کی باتوں پہ دھیان بالکل نہ دیںبات جزوی درست ہے۔اگر دماغی طبی خرابی نہ ہو تو عقل و شعور کے دائروں کو وسعت دینا عین ممکنات میں سے ہے۔ علامہ صاحب نے پہلے خطبے میں اس موضوع سے بھی ذرا مختلف انداز میں بحث کی ہے۔ شعور ایسی چیز نہیں جسے ادھار لیا جاسکے ، لیکن ایسی چیز بھی نہیں جس میں وقت اور ماحول کے ساتھ تبدیلی رونما نہ ہوسکے، اسی طرح عقل کے زوایے اور دائرے پیدائش سے موت تک تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔