اندرا گاندھی کے چھوٹے بیٹے سنجے گاندھی کی سوانح عمری، "دی سنجے سٹوری"۔
کتاب انتہائی بدمزہ نکلی ہے! اس میں کچھ بیچنے والوں کا بھی قصور ہے۔ یہ کتاب پہلی بار 1978ء میں سنجے کی زندگی میں چھپی تھی (سنجے گاندھی 1980ء میں ہلاک ہو گیا تھا)، موجودہ ایڈیشن 2012ء کا ہے اور بک سیلرز نے اس کی تاریخ بھی 2012ء کی ڈال دی ہے حالانکہ مصنف نے سوائے ایک نیا دیباچہ لکھنے کے، جس میں سنجے کی موت کا ذکر ہے، کتاب کا ایک لفظ بھی نہیں چھیڑا۔ اگر مجھے علم ہو جاتا کہ کتاب 1978ء میں چھپی تھی تو کبھی نہ خریدتا، وجہ یہ ہے کہ 1977ء میں کانگریس کی شرمناک شکست کے بعد انڈیا میں ایمرجنسی، اندرا گاندھی اور سنجے گاندھی وغیرہ کے بارے میں پروپیگنڈا کتابوں کا طوفان امڈ آیا تھا جنہیں "ایمرجنسی کوئیکیز" کہا گیا تھا، یہ بھی انہیں پروپیگنڈا کتابوں میں سے ہے۔ دو سو صفحات کی مختصر سی کتاب اور وہ بھی چھوٹے صفحات پر اور قیمت انڈیا میں پانچ سو اور مجھے پاکستان میں ایک ہزار کی ملی، مہنگے ناشرین نے چھاپی ہے (ہارپر کولنز انڈیا)۔ پروپیگنڈا کتاب اوپر سے اتنی مہنگی خرید لی تھی سو اب بد مزہ منہ کے ساتھ اسے ختم کر رہا ہوں۔
سنجے گاندھی کے بارے میں چند باتیں:
-انڈیا میں راجیو گاندھی کے بوفورز اسکینڈل سے پہلے انڈیا میں کرپشن کا کوئی اسکینڈل سب سے زیادہ اچھلا تو وہ سنجے گاندھی کے "مروتی" گاڑیوں کا اسکینڈل تھا جس میں کروڑوں کا گھپلا ہوا۔ سنجے بغیر کسی کوالیفیکشن کے، ان گاڑیوں کا انجن ڈئزائن کر رہا تھا اور مدد دہلی کے ایک موٹر مکینک سے لے رہا تھا، انڈین گورنمنٹ نے سالانہ پچاس ہزار گاڑیاں بنانے کا ٹھیکہ بھی دے دیا تھا اور ہریانہ گورنمنٹ نے زمین بھی کوڑیوں کے بھاؤ دی۔ پبلک اور ڈیلروں کے کروڑوں ڈوب گئے۔
-سنجے گاندھی اپنی ماں اندرا گاندھی اور نانا جواہر لال نہرو کا محبوب تھا، اور اسکی کوئی بات نہیں ٹالی جاتی تھی، نتیجے کے طور پر جب وہ سیاست میں آیا تو اپنی ماں کے لیے سر درد بنا رہا۔
-1975ء میں جب الہ آباد ہائیکورٹ نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کو نا اہل قرار دیتے ہوئے لوک سبھا کی رکنیت ختم کر دی اور چھ سال کے لیے پابندی بھی لگا دی تو کہتے ہیں کہ اندرا نے کرسی چھوڑ کر سپریم کورٹ میں لڑنے کا فیصلہ کیا تھا اور عبوری طور پر ایک کانگریسی وزیر اعظم بنانے کا ارادہ تھا۔ سنجے نے اندرا کو اس ارادے سے منع کیا بلکہ یہ کہا کہ ایمرجنسی لگا کر ہائیکورٹ کا حکم نہ مانا جائے، اپوزیشن کو اندر کر دیا جائے، سنسر نافذ کر دیا جائے تو مسئلہ حل ہو جائے گا، اور پھر یہی کچھ ہوا۔
-ایمرجنسی میں سنجے نے اپنی من مانی کی۔ سنسر شپ نافذ کی، عدالتوں کو تالے لگوا دیے اور پریس والوں کی بجلی کاٹ دی۔ وزیرِ اطلاعات آئی کے گجرال کو حکم دیا کہ ٹی وی اور ریڈیو پر خبریں پڑھنے سے پہلے اسے دکھائی جائیں، گجرال نہ مانا تو چند دنوں کے اندر گجرال کو فارغ کر کے ماسکو کھڈے لائن لگا دیا گیا۔
-اندرا گاندھی کے کئی ایک سوانح نگاروں اور دوستوں نے لکھا ہے کہ جب سنجے ایسے کسی غیر آئینی اقدام پر اڑ جاتا تھا تو اندرا گاندھی بھی اس سے اپنی بات نہیں منوا سکتی تھی، جب کبھی ایسی بحث ہوئی لوگوں نے اندرا گاندھی کو کمرے سے سرخ آنکھوں اور روہانسی شکل کے ساتھ باہر نکلتے دیکھا۔
-ریاستوں کے کانگریسی وزرائے اعلیٰ براہ راست سنجے گاندھی کی سربراہی میں کام کر رہے تھے اور باقاعدہ اُس کو رپورٹ کرتے تھے جب کہ سنجے کے پاس کوئی حکومتی عہدہ نہیں تھا۔
-ایمرجنسی میں سنجے نے "یوتھ کانگریس" کی کمان سنبھالی، اور دو سالوں میں اس کے ارکان کی تعداد چھ لاکھ سے بڑھ کر پچاس لاکھ سے تجاوز کر گئی، کہا جاتا ہے کہ اُس وقت ہر غنڈے بدمعاش نے یوتھ کانگریس کی رکنیت لے لی تھی۔ یوتھ کانگریس نے پورے ملک میں اندھیر نگری مچا دی، کروڑوں کے گپھلے، تاوان، بھتے، گھوسٹ گاؤں اور نہ جانے کیا کیا۔
-سنجے نے ایک پانچ نکاتی پروگرام شروع کیا، فیملی پلاننگ، درخت اگاؤ، جہیز اور ذات پات کا خاتمہ وغیرہ اہم نکات تھے۔ فیملی پلاننگ کے نام پر جبری نس بندی کا پروگرام شروع ہوا جس میں نوجوان بچوں اور عمر رسیدہ بوڑھوں کی بھی جبری نس بندی کر دی گئی۔ وزرائے اعلیٰ سنجے کی خوشنودی حاصل کرنے کے چکر میں اپنا سارا زور صرف کرنے لگے۔ جھونپٹر پٹیاں (سلمز) ہٹانے کے نام پر لاکھوں لوگوں کو متبادل جگہ دیے بغیر بے گھر کر دیا گیا۔
-سنجے گاندھی ایک انتہائی لاپروا نوجوان تھا، کولا پوری چپلیں پہن کر جہاز اڑاتے ہوئے، 33 برس کی بھری جوانی میں، وزیر اعظم ہاؤس سے پانچ سو میٹر دور، 1980ء میں (جب اندرا پھر وزیر اعظم بن چکی تھی)، گر کر، کو پائلٹ کے ساتھ ہلاک ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ راجیو گاندھی نے جو کہ ایک کمرشل پائلٹ تھا کئی بار سنجے کو چپلیں پہن کر جہاز اڑانے سے منع کیا تھا۔
-سنجے کی موت کے بعد ہی راجیو کو سیاست میں لایا گیا ورنہ اندرا کا سیاسی وارث سنجے ہی تھا۔
-سنجے کی بیوی مانیکا اور راجیو کی بیوی سونیا کے درمیان ناچاقی تھی جو سنجے کی موت کے بعد اندرا اور مانیکا ناچاقی میں بدل گئی۔ مانیکا کو آدھی رات کے وقت وزیر اعظم ہاؤس سے زبردستی نکالا گیا، اس وقت میڈیا وہاں موجود تھا۔ مانیکا گاندھی اور ان کا بیٹا ورون گاندھی اب بی جے پی میں ہیں۔