سابق انڈین وزیرِ خارجہ، وزیرِ دفاع اور وزیرِ خزانہ، جسونت سنگھ کی خود نوشت
A Call to Honour: In Service Of Emergent India
جسونت سنگھ، بی جے پی کے ان معدودے چند سینیئر راہنماؤں میں سے تھے جن کا پس منظر راشٹریہ سوئم سیوک سَنگھ (آر ایس ایس) کا نہیں تھا اور وہ کبھی آر ایس ایس کے رکن نہیں رہے اور بی جے پی میں یہ واقعی ایک عجیب بات تھی۔ دوسرے وہ واجپائی کے ساتھ ساتھ بھاج پا میں ایک معتدل مزاج کے آدمی سمجھے جاتے تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ واجپائی نے اپنے چھ سالہ وزارتِ عظمیٰ کے دور (1998 تا 2004ء) میں جسونت سنگھ کو اپنے ساتھ ساتھ رکھا اور انتہائی اہم وزارتوں پر فائز کیا۔
جسونت سنگھ راجپوتانہ (راجستھان) کے ایک ٹھاکر راٹھور راجپوت خاندان میں پیدا ہوئے اور صحرا میں پلے بڑھے، انڈین آرمی میں کمیشن لیا اور 1962ء اور 1965ء کی جنگوں میں حصہ لیا لیکن پھر استغفیٰ دے کر سیاست میں آ گئے۔ راجستھان کے بھاج پا کے بزرجمہر بیروں سنگھ شیکھاوت ان کے سیاسی گرو تھے اور وہی ان کو جَن سَنگھ میں لائے جو 1980ء میں بے جے پی بنی۔ بھاج پا کی سیاسی جد و جہد ایک لمبی تاریخ ہے لیکن بہرحال 1998ء میں بھاج پا مستقل اقتدار میں آ گئی تو جسونت سنگھ بھی واجپائی کے ماتحت چھ سال تک تین اہم وزارتوں پر فائز رہے۔
2004ء کے انڈین الیکشنز انڈیا میں اس لحاظ سے منفرد تھے کہ بھاج پا نے اپنی سیاسی تاریخ میں پہلی بار فرقہ وارانہ مسائل اور مذہبی سیاست کی بجائے، چھ سال حکومت میں رہنے کے بعد،
"انڈیا شائننگ" کے نعرے کے تحت یہ الیکشن لڑے اور بری طرح ہار گئے۔ اور اسی 2004ء کی ہار ہی سے بھاج پا کے کچھ سینیئر لیڈروں کا زوال شروع ہوا جن میں واجپائی، آڈوانی اور جسونت سنگھ شامل تھے۔ واجپائی ریٹائر ہو گئے۔ آڈوانی چونکہ سخت گیر تھے اور جماعت میں آر ایس ایس کے نمائندہ، سو چلتے رہے اور 2009ء کے الیکشنز انہی کی سربراہی میں لڑے گئے اور پھر ہار گئے۔ 2014ء میں مودی نے آڈوانی کی ایک نہ چلنے دی اور اب آڈوانی بھاج پا میں بس تاش کے شاہ جیسے ہی ہیں۔
جسونت سنگھ بھی 2004ء کے بعد آر ایس ایس کے عتاب ہی میں رہے۔ آڈوانی نے 2005ء میں پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے کراچی میں مزارِ قائد پر حاضری دی اور قائد اعظم کی 11 اگست 1947ء کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی سے خطاب کی تعریف کیا کر دی کہ انڈیا میں کہرام مچ گیا، ہنگامے پھوٹ پڑے، آڈوانی جیسا آدمی زیرِ عتاب آ گیا تو جسونت کس کھیت کی مولی تھے۔ جسونت سنگھ نے 2009ء میں قائد اعظم پر لکھی اپنی ایک کتاب میں بھی ان کی تعریف کر دی، بس وہ بھی زیرِ عتاب آ گئے اور پارٹی سے نکال دیئے گئے، کچھ عرصہ بعد آڈوانی کی مداخلت سے واپس آ گئے۔ گو جسونت، نہرو کے شدید ناقد بھی سمجھے جاتے ہیں خاص طور پر 1937ء کے الیکشنز میں یو پی میں نہرو کی مسلم لیگ سے وعدہ خلافی (جسونت ان الیکشنز اور نہرو کے اس رویے کو ہند کی تقسیم کی وجہ سمجھتے ہیں)، نہرو کی چائنہ پالیسی اور 1962ء کی جنگ میں چین کے ہاتھون عزیمت وغیرہ لیکن آر ایس ایس کو اصل دکھ قائد اعظم کی تعریف پر تھا (نہرو پر تنقید تو سَنگھ پریوار کا ہر رکن کرتا ہے) جیسا کہ آڈوانی کیس میں اس سے پہلے ہوا تھا۔
2014ء کے الیکشنز میں پارٹی نے نہ جسونت کو ٹکٹ دیا نہ ان کے بیٹے کو، بلکہ ان کے آبائی حلقے میں ایک ایسے منحرف کانگریسی جاٹ کو ٹکٹ دے دیا جو پچھلی کئی دہائیوں سے یہاں سے کانگریس کے ٹکٹ پر بھاج پا کے خلاف لڑتا تھا۔ جسونت سنگھ نے اس فیصلے پر احتجاج کرتے ہوئے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو ایک بار پھر پارٹی سے نکال باہر کئے گئے اور پھر یہ الیکشن بھی ہار گئے۔ الیکشن کے کچھ عرصے بعد اپنے باتھ روم میں گر گئے تو سر میں شدید چوٹیں آئیں اور تب سے اب تک "کومے" کی حالت میں ہیں۔
یہ کتاب 2006ء میں چھپی تھی، سو اس میں 2009ء اور 2014ء والا "ایکشن" نہیں ہے۔ طرزِ تحریر کسی حد تک فلسفیانہ، گنجلک اور پیچیدہ ہے لیکن بہرحال انڈین سیاسیات میں ایک اہم کتاب ہے۔