آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟

کاشف اختر

لائبریرین
کتاب : امیر خسرو حیات، تعلیمات اور کلام
مصنف: ریاض جعفری
مترجم: مسعود مفتی
ناشر : اریب پبلیکیشنز
سن اشاعت: 2013
قیمت: 150
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
اگلی دفعہ اس خواب میں گولڈ لیف کی جگہ بنا کر اسکو امر کر دیں :)
دراصل گولڈ لیف کا خوابوں کے ساتھ مسئلہ نہیں ہے، یہ تو ہر وقت ہر جگہ میسر ہیں۔ کتابیں خوابوں میں اس لیے آتی ہیں کہ اول تو مطالعے کے لیے وقت کم ملتا ہے دوم بہت سی کتابیں یا تو ملتی نہیں یا استطاعت سے باہر ہوتی ہیں، سو انہوں نے خوابوں میں جگہ بنا لی ہے! :)
 

محمد وارث

لائبریرین
سابق انڈین چیف آف آرمی سٹاف جنرل وی کے سنگھ (وجے کمار سنگھ) کی خود نوشت سوانح عمری
Courage and Conviction: An Autobiography

Courage_and_Conviction.jpeg
اس کتاب سے دو واقعات جس میں مصنف نے انڈیا کے سابق آرمی چیف جنرل کرشنا سوامی سُندر جی پر کافی تنقید کی ہے۔

1984ء میں مصنف میجر کے عہدے پر تھے اور انڈین آرمی ہیڈ کوارٹر دہلی میں ملٹری آپریشنز میں سٹاف آفیسر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ مصنف نے آپریشن بلیو اسٹار، جس میں انڈین آرمی نے سکھوں کے گولڈن ٹیمپل میں کاروائی کی تھی، کھل کر تنقید کی ہے۔ بقول مصنف، یہ سراسر اندرا گاندھی کا پلان تھا اور اس وقت کے آرمی چیف اور ان کے ساتھ ایک اور جنرل (ڈائریکڑ جنرل ملٹری آپریشنز DGMO) اس آپریشن کے حق میں نہیں تھے لیکن اندرا گاندھی نے اپنے گھر میں اس سلسلے میں جو میٹنگ منعقد کی اس میں ان دو جنرلز کے ساتھ ایک تیسرے جنرل کو بھی مدعو کیا تھا جو انڈین آرمی کی ویسٹرن کمانڈ کے کمانڈر تھے، ان لیفٹنٹ جنرل، کرشنا سوامی سندر جی نے اندرا گاندھی کو یقین دلایا کہ یہ آپریشن کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ بقول مصنف، یہ چین آف کمانڈ سے انحراف تھا اور اسی وجہ سے اس آپریشن کی ساری پلاننگ آرمی ہیڈ کوارٹر کی بجائے ویسٹرن کمانڈ کے ہیڈ کوارٹر میں کی گئی۔

انہی جنرل سندرجی کو بعد میں ترقی دے کر آرمی چیف بنا دیا گیا تھا۔ 1986 کے اختتام کے قریب انہوں نے آپریشن براسٹیکس پلان کیا تھا اور یہ اس وقت انڈیا کی سب سے بڑی فوجی مشقیں تھیں جو راجستھان میں کی گئیں۔ مصنف کے بقول ان مشقوں اور فوج کی نقل و حمل کی اطلاع پاکستان کو دے دی گئی تھی۔ لیکن عین مشقوں کے دوران جنرل سندر جی نے محسوس کیا کہ پنجاب کی سرحد غیر محفوظ ہو گئی ہے اور پاکستان ادھر کاروائی کر سکتا ہے سو ریزرو فوج کو پنجاب میں تعینات کیا گیا۔ اس تعیناتی نے پاکستان کو بھی مجبور کیا کہ وہ بھی اپنی فوجوں کی نقل و حرکت کرے اور جواب میں ایک ایسا سلسلہ شروع ہو گیا کہ جو قریب قریب فُل اسکیل جنگ کی طرف چلا گیا تھا اور بہت مشکل سے یہ سارا مسئلہ ٹھنڈا ہوا۔ مصنف کے بقول یہ سارا کھیل ایک غلط اطلاع پر مشتمل تھا جو کسی ملٹری انٹیلیجنس کے آفیسر نے ملٹری آپریشنز کے آفس بھیجنے کی بجائے اپنے نمبر بنانے کے لیے سیدھا آرمی چیف کو دے دی تھی اور آرمی چیف سندر جی نے اس غلط اطلاع پر ایک جنگ کی بنا ڈال دی تھی حالانکہ مصنف کے بقول ملٹری آپریشنز آفس نے اس اطلاع پر کئی بار غور کر کے یہی نتیجہ نکالا تھا کہ اطلاع بالکل غلط ہے۔

مجھے بھی 1986ء/87ء کی یہ اکھاڑ پچھاڑ اچھی طرح یاد ہے، گاؤں کے گاؤں خالے کیے گئے تھے اور سرحدوں کے دیہاتی بیچارے اپنا سامان ٹریکٹر ٹرالیوں پر لادے ساری ساری رات سیالکوٹ میں سے گزر کر محفوظ مقامات کی طرف جاتے رہتے تھے۔ سردیوں کی راتیں اور سرحد کی دونوں جانب ہزاروں لوگوں کی اکھاڑ پچھاڑ محض ایک غلط اطلاع پر اور ایک آرمی چیف کی ہٹ دھرمی پر (بقول مصنف جو بعد میں خود انڈین آرمی کے چیف رہے)۔ پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کا اللہ ہی حافظ ہے!
 

یاز

محفلین
ڈین براؤن کا تازہ ترین ناول Origin ۔۔
ہمارے خیال میں یہ ڈین براؤن کے ناولز میں شاندار ترین ہے۔ بس اختتام کچھ توقعات سے کم ہے، لیکن اتنا بھی نہیں۔
518ICrLrtiL._SX319_BO1,204,203,200_.jpg
 

محمد وارث

لائبریرین
انڈیا اور چائنہ کی 1962ء میں ہونے والی جنگ پر کتاب پر بریگیڈیئر جان ڈالوی کی کتاب
Himalayan Blunder
بریگیڈیئر مذکور انڈین انفنٹری کی 7 بریگیڈ کے کمانڈر تھے اور یہ بریگیڈ انڈین آرمی کی بہترین بریگیڈ سمجھی جاتی تھی لیکن جنگ شروع ہونے کے بعد چند گھنٹوں کے اندر اندر چینی فوج نے اس بریگیڈ کو ختم کر دیا تھا۔ بریگیڈیئر صاحب جنگی قیدی بنے اور اس جنگ میں قید ہونے والے شاید سب سے بڑے رینک والے آفیسر تھے۔ قید سے چھوٹنے کے بعد انہوں نے مذکورہ کتاب لکھی اور چھپنے کے فوراً بعد یہ کتاب بحقِ سرکار ضبط ہو گئی، لیکن بعد میں اس کو چھاپنے کی اجازت دے دی گئی۔ مصنف موصوف نے بھارتی سیاست دانوں پر بالعموم اور نہرو پر بالخصوص سخت تنقید کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آرمی ٹاپ آفیسرز پر بھی کڑی تنقید کی ہے۔
Himalayan_blunder.jpg
 
میں نے یہ دونوں کتابیں پڑھی ہیں!
بلکہ جانباز مکمل نہیں پڑھی!ہمت جواب دے گئی تھی۔
مجھے تو کافی حد تک رنگ آمیزی ہی لگی ہے، باقی مصنف اسی پر مصر ہیں کہ یہ حقیقت ہے۔
محترم "جانباز" ہے آپکے پاس تو عنایت ہو۔
 
آخری تدوین:
دوسری کتاب جو آج کل میرے زیرِ مطالعہ ہے، وہ مجھے کوئی آٹھ، دس سال بعد واپس ملی ہے ایک دوست سے (میری خوش قسمتی)۔

کوئی مزید آٹھ، دس سال کیا آپ اس کتاب کو خود سے جدا کرنے کا ارادہ وغیرہ رکھتے ہیں-
 
آخری تدوین:
شاید، کیونکہ اب مجھے لگتا ہے کہ شاعری افسانے وغیرہ کی کوئی کتاب خریدنا بس ایک "بچگانہ حرکت" ہی ہے! :)

لیکن شاعری کی تو نہیں بلکہ افسانوں کی کتاب ہے- وغیرہ


اسکا نام 'بیسویں صدی کے شاہکار افسانے' ہے۔ مرحوم صغیر ملال نے دنیا کے چند بہترین مصنفین کے افسانوں کا ترجمہ کیا ہے، ان مصنفین میں ٹالسٹائی، الڈس ہکسلے، سارتر، کافکا، بورخیس، جیمز جوائس، ہمینگوے، او ہنری وغیرہ شامل ہیں۔ کیا خوبصورت اور لازوال افسانے اس میں شامل ہیں۔ ویلکم بک پورٹ کراچی نے 1991 میں شائع کی تھی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
لیکن شاعری کی تو نہیں بلکہ افسانوں کی کتاب ہے- وغیرہ
جی پہلے میں سمجھا کہ یہ "کلیات فراز" کی بات ہو رہی ہے کہ وہ بھی مجھے کچھ اتنے ہی عرصے بعد واپس ملی تھی بعد میں احساس ہوا کہ آپ افسانوں کی بات کر رہے ہیں۔ :)

ویسے بر سبیل تذکرہ کہ یہ شاعری اور افسانوں کی کتابیں خریدنا تو دور کی بات میں نے ان کو کچھ سالوں سے پڑھنا بھی چھوڑ رکھا ہے۔ کئی سالوں سے سیاسیات، تاریخ اور بعض کچھ اسی قسم کے نان فکشن موضوعات زیرِ مطالعہ ہیں! :)
 

سید عمران

محفلین
جی پہلے میں سمجھا کہ یہ "کلیات فراز" کی بات ہو رہی ہے کہ وہ بھی مجھے کچھ اتنے ہی عرصے بعد واپس ملی تھی بعد میں احساس ہوا کہ آپ افسانوں کی بات کر رہے ہیں۔ :)

ویسے بر سبیل تذکرہ کہ یہ شاعری اور افسانوں کی کتابیں خریدنا تو دور کی بات میں نے ان کو کچھ سالوں سے پڑھنا بھی چھوڑ رکھا ہے۔ کئی سالوں سے سیاسیات، تاریخ اور بعض کچھ اسی قسم کے نان فکشن موضوعات زیرِ مطالعہ ہیں! :)
افسانے پڑھنے کو ہمارا دل بھی نہیں چاہتا۔۔۔
کیوں کہ پہلے سے ہی پتا ہوتا ہے کہ اپنے من کی گھڑی ہوئی باتیں ہیں!!!
 

محمد وارث

لائبریرین
افسانے پڑھنے کو ہمارا دل بھی نہیں چاہتا۔۔۔
کیوں کہ پہلے سے ہی پتا ہوتا ہے کہ اپنے من کی گھڑی ہوئی باتیں ہیں!!!
پڑھنے کو دل نہ کرنا دوسری چیز ہے، میرا بھی نہیں کرتا۔

لیکن صنف 'افسانہ' ہی کی تو تنقیص نہ کر دیں سر۔ جسے آپ من گھڑت کہہ رہے ہیں وہی تخیل آفرینی ہے۔ افسانہ نگار بھی ہمارے ہی معاشرے سے ادھر ادھر سے اپنی کہانی لیتا ہے اور پھر اپنے فن اور تخیل سے اسے ادب کی ایک صنف بنا دیتا ہے۔
 
یہ شاید عمر کا تقاضہ ہے۔ آج سے بیس پچیس تیس سال پہلے میں انہی کتابوں کے پیچھے دیوانہ ہوا پھرتا تھا، اب دیکھنے کو بھی دل نہیں کرتا۔
اس عمر تک پہنچتے پہنچتے بندہ دنیا کی حقیقت بھی دیکھ لیتا ہے اور افسانوں وغیرہ کی کشش زائل ہوجاتی ہے ۔ :)
 
Top