سابق انڈین چیف آف آرمی سٹاف جنرل وی کے سنگھ (وجے کمار سنگھ) کی خود نوشت سوانح عمری
Courage and Conviction: An Autobiography
اس کتاب سے دو واقعات جس میں مصنف نے انڈیا کے سابق آرمی چیف جنرل کرشنا سوامی سُندر جی پر کافی تنقید کی ہے۔
1984ء میں مصنف میجر کے عہدے پر تھے اور انڈین آرمی ہیڈ کوارٹر دہلی میں ملٹری آپریشنز میں سٹاف آفیسر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ مصنف نے آپریشن بلیو اسٹار، جس میں انڈین آرمی نے سکھوں کے گولڈن ٹیمپل میں کاروائی کی تھی، کھل کر تنقید کی ہے۔ بقول مصنف، یہ سراسر اندرا گاندھی کا پلان تھا اور اس وقت کے آرمی چیف اور ان کے ساتھ ایک اور جنرل (ڈائریکڑ جنرل ملٹری آپریشنز DGMO) اس آپریشن کے حق میں نہیں تھے لیکن اندرا گاندھی نے اپنے گھر میں اس سلسلے میں جو میٹنگ منعقد کی اس میں ان دو جنرلز کے ساتھ ایک تیسرے جنرل کو بھی مدعو کیا تھا جو انڈین آرمی کی ویسٹرن کمانڈ کے کمانڈر تھے، ان لیفٹنٹ جنرل، کرشنا سوامی سندر جی نے اندرا گاندھی کو یقین دلایا کہ یہ آپریشن کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ بقول مصنف، یہ چین آف کمانڈ سے انحراف تھا اور اسی وجہ سے اس آپریشن کی ساری پلاننگ آرمی ہیڈ کوارٹر کی بجائے ویسٹرن کمانڈ کے ہیڈ کوارٹر میں کی گئی۔
انہی جنرل سندرجی کو بعد میں ترقی دے کر آرمی چیف بنا دیا گیا تھا۔ 1986 کے اختتام کے قریب انہوں نے آپریشن براسٹیکس پلان کیا تھا اور یہ اس وقت انڈیا کی سب سے بڑی فوجی مشقیں تھیں جو راجستھان میں کی گئیں۔ مصنف کے بقول ان مشقوں اور فوج کی نقل و حمل کی اطلاع پاکستان کو دے دی گئی تھی۔ لیکن عین مشقوں کے دوران جنرل سندر جی نے محسوس کیا کہ پنجاب کی سرحد غیر محفوظ ہو گئی ہے اور پاکستان ادھر کاروائی کر سکتا ہے سو ریزرو فوج کو پنجاب میں تعینات کیا گیا۔ اس تعیناتی نے پاکستان کو بھی مجبور کیا کہ وہ بھی اپنی فوجوں کی نقل و حرکت کرے اور جواب میں ایک ایسا سلسلہ شروع ہو گیا کہ جو قریب قریب فُل اسکیل جنگ کی طرف چلا گیا تھا اور بہت مشکل سے یہ سارا مسئلہ ٹھنڈا ہوا۔ مصنف کے بقول یہ سارا کھیل ایک غلط اطلاع پر مشتمل تھا جو کسی ملٹری انٹیلیجنس کے آفیسر نے ملٹری آپریشنز کے آفس بھیجنے کی بجائے اپنے نمبر بنانے کے لیے سیدھا آرمی چیف کو دے دی تھی اور آرمی چیف سندر جی نے اس غلط اطلاع پر ایک جنگ کی بنا ڈال دی تھی حالانکہ مصنف کے بقول ملٹری آپریشنز آفس نے اس اطلاع پر کئی بار غور کر کے یہی نتیجہ نکالا تھا کہ اطلاع بالکل غلط ہے۔
مجھے بھی 1986ء/87ء کی یہ اکھاڑ پچھاڑ اچھی طرح یاد ہے، گاؤں کے گاؤں خالے کیے گئے تھے اور سرحدوں کے دیہاتی بیچارے اپنا سامان ٹریکٹر ٹرالیوں پر لادے ساری ساری رات سیالکوٹ میں سے گزر کر محفوظ مقامات کی طرف جاتے رہتے تھے۔ سردیوں کی راتیں اور سرحد کی دونوں جانب ہزاروں لوگوں کی اکھاڑ پچھاڑ محض ایک غلط اطلاع پر اور ایک آرمی چیف کی ہٹ دھرمی پر (بقول مصنف جو بعد میں خود انڈین آرمی کے چیف رہے)۔ پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کا اللہ ہی حافظ ہے!