یہ "اسطو خودوس" کیا ہے
منکہ نیم حکیم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک پھول دار پودا ہے جس کی 39اقسام ہیں۔ یہ پودا یورپ، ایشیا اور افریقا میں ملتا ہے۔اسکی ڈنڈی ایک ہاتھ لمبی اور کھردری ہوتی ہے۔ ڈنڈی کے آس پاس پھولوں کے خوشے نکتے ہیں۔اس کے پتوں کی شکل ضعتر کے پتوں جیسی ہوتی ہے۔ ایک ایک خوشے میں بہت سے پھول ہوتے ہیں۔ پھول کا رنگ نیلا سفیدی مائل کسی قدرگلابی ہوتا ہے۔ اور اس پر باریک رواں پایا جاتاہے۔ بیج باریک اور چپٹا ہوتا جسے ملنے پر کافور جسی خوشبو آتی ہے۔ اس کے خشک پتے اور پھول بطور دوا مستعمل ہیں۔ اس کا تیل نکلتا ہے۔ نیز خشک پھول سبز یا کالی چائے میں ملائے جاتے ہیں۔ بھارت میں لوگ اس کے پتوں کو سلاد وغیرہ میں شامل کرتے ہیں۔ ماہرین کی رو سے اسطو خودوس (Lavender) کے پتے سکون بخش ہیں۔ خاص طور پر اس کے تیل کی خوشبو بے چین اعصاب پر خوشگوار اثر ڈالتی ہے۔
امریکا میں ایک تجربے سے انکشاف ہوا کہ جس کمرے میں اسطوخودوس کے تیل کی خوشبو بسی ہو، وہاں بیٹھے مریض کم بے چینی دکھاتے ہیں۔ حتیٰ کہ امتحان دینے والے طلبہ و طالبات کو یہ خوشبو سونگھائی گئی، تو وہ ’’امتحانی اضطراب‘‘ میں مبتلا نہیں ہوئے۔ جرمنی میں تو اسطو خودوس کی سکون بخش خصوصیت کے باعث اس کے پھولوں کے عرق سے ایک گولی تیار کر لی گئی۔ ماہرین اِسے بے سکونی (Anxiety)دور کرنے والی مشہور ادویہ مثلاً ایٹیوان (Ativan)اور ویلیم (Valiam)کے ہم پلہ قرار دیتے ہیں۔
یہ مشہور ومعروف خوش بودار پھول لیونڈر ہے جو بہت سے طبی فوائد رکھتاہے۔خاص طور پر آدھے سر کے درد کےلیے مفید ہے۔
اسے پیس کر سردائی کی طرح پانی ڈال کر پیا جاتا ہے ۔۔اس طرح پینے سے یہ بہت کڑوا محسوس ہوتا ہے ۔سینے میں ریشہ کا مسئلہ اور نزلہ زکام وغیرہ کے علاج کے لیئے استعمال ہوتا ہے ۔ پاکستان میں قرشی والے "اطریفل اسطوخودوس " سے دوا بنا کر بیچتے ہیں ۔۔۔۔۔
بشکریہ گوگل اور فیس بک
بہت دعائیں