سید عمران
محفلین
بس اتنا سا؟؟؟شاہ صاحب چائے کے ساتھ صرف آدھا کلو گلاب جامن، 3 سموسے، پاؤ گاجر کا حلوہ اور دو شامی کباب کھاتے ہیں۔
اتنا تو ہماری چڑیا بھی نہیں کھاتی!!!
بس اتنا سا؟؟؟شاہ صاحب چائے کے ساتھ صرف آدھا کلو گلاب جامن، 3 سموسے، پاؤ گاجر کا حلوہ اور دو شامی کباب کھاتے ہیں۔
اس حادثے کے نتیجے میں "جمیلۃ" مِل گئیں، وقت کے ساتھ ساتھ اللہ "صبرِ جمیل" بھی دے دے گا!جی جی الحمدللہ یہ حادثہ ہوچکا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم ابھی تک اس حادثے کے اثر سے باہر نہیں نکل پائے۔
تو پھر کب آرہے ہیں کٹوہ گوشت کا ذائقہ چکھنے۔
بس اتنا سا؟؟؟
اتنا تو ہماری چڑیا بھی نہیں کھاتی!!!
بہت شکریہ بھیا
آمین بہنا۔
خوش رہیں۔
امین۔ بہت شکریہ بھیا
اللہ تعالیٰ آپ کو بھی خوش وخرم رکھے۔ آمین
یاز پائین کسی ایک علاقے کے ہو ہی نہیں سکتے۔ جس حساب سے گھومتے پھرتے اور علاقہ جات کی باریک بینیاں بتاتے، لگتا ہے پاکستان کا کونہ کونہ رہ کر دیکھ چکے ہیں۔ پر۔۔۔۔۔۔۔۔ ھن کتھے نیں !!!ہیں ں ں ں!!!
یاز بھائیان کیا بہاولپوری ہیں؟
اس شہر کی آدھی آبادی کھانا بنانے اور آدھی کھانے میں مصروف رہتی ہے اور یہاں کے باسیوں کو صبح کے ناشتے کی میز پر ہی ظہرانے اور دوپہر کے کھانے پر ہی عشائیے کی فکر ستانے لگتی ہے۔
یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ گوجرانوالہ والے کھانے کے معیار اور مقدار دونوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے۔
ان پرندوں کو ہڈیوں سمیت ہی کھاتے ہیں
ان پرندوں کی مقبولیت کی وجہ ان کا توانائی بخش ہونا بھی بتائی جاتی ہے۔
اُنھوں نے بعض ایسے گاہکوں کا بھی ذکر کیا جو ایک نشست میں ایک سو چڑے اور بٹیرے کھا جاتے ہیں تاہم اُن کا کہنا تھا کہ مہنگی ڈش ہونے کی وجہ سے ایسے گاہکوں کی تعداد کم ہے۔
بالکل درست ہے۔ سیالکوٹ سے منچلے دس دس بارہ بارہ کا گروپ اور باقاعدہ پروگرام بنا کر گوجرانوالہ ایسی ہی "لٹرم پٹرم" چیزیں کھانے جاتے ہیں!گوجرانوالہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس شہر کی آدھی آبادی کھانا بنانے اور آدھی کھانے میں مصروف رہتی ہے اور یہاں کے باسیوں کو صبح کے ناشتے کی میز پر ہی ظہرانے اور دوپہر کے کھانے پر ہی عشائیے کی فکر ستانے لگتی ہے۔
40 لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل صوبہ پنجاب کا یہ شہر جہاں فن پہلوانی کی وجہ سے مشہور ہے وہیں کھانے پینے میں بھی اپنا منفرد مقام رکھتا ہے اور یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ گوجرانوالہ والے کھانے کے معیار اور مقدار دونوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے۔
اس شہر میں دوپہر کے کھانے کا سلسلہ بھی شام پانچ بجے تک چلتا ہے اور پھر ایک گھنٹے کے وقفے کے بعد ریستوران رات کے کھانے کے لیے دوبارہ کھل جاتے ہیں۔
ایک ڈش جو اس شہر کی دنیا بھر میں پہچان بن گئی ہے وہ یہاں کے چڑے اور بٹیرے ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے پرندے جہاں ملک کے دیگر علاقوں میں رہنے والوں کی نظر میں اپنی معصومیت کی وجہ سے پسندیدہ ہیں وہیں اس شہر میں کوئی بھی مینیو ان کی بھُنی ہوئی شکل کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
سال کا کوئی بھی مہینہ یا موسم ہو گوجرانوالہ میں ’بار بی کیو‘ کی دکانوں پر ان کے شائقین کی بھیڑ لگی رہتی ہے کوئی انھیں بھون کر کھانے کا شوقین ہے تو کچھ ان کا کڑاہی گوشت بنوا کر کھانا پسند کرتے ہیں۔
شہباز احمد گوجرانوالہ میں ایک ایسا ہی ریستوران چلاتے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ چڑے اور بٹیرے ایسی ڈشز ہیں جن کی مانگ میں کبھی بھی کمی نہیں آئی بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اُن سمیت دیگر ریستورانوں کے شکاریوں کے ساتھ باقاعدہ معاہدے ہوتے ہیں جو ان کے لیے چڑوں اور بٹیروں کا شکار کرتے ہیں۔
اُنھوں نے بتایا کہ یہ ڈش گوجرانوالہ کی ایک سوغات کے طور پر جانی جاتی ہے اور بہت سے لوگ نہ صرف دوسرے شہروں بلکہ دوسرے ملکوں سے بھی اس کھانے کے لیے شہر کا رخ کرتے ہیں۔
گوجرانوالہ کو خوش خوراک افراد کا شہر کہا جاتا ہے اور اس کی زندہ مثال یہ ڈش کھانے والے افراد ہیں جو ان پرندوں کو ہڈیوں سمیت ہی کھاتے ہیں اور اگر کوئی شخص گوشت کو ہڈیوں سے الگ کر کے کھانے کی کوشش کرتا دکھائی دے تو اسے عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں۔
شہباز احمد کے مطابق ایک عام آدمی ایک نشست میں ایک سے دو درجن چڑے اور بٹیرے کھاجاتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں اگر اس نے اس کے ساتھ کھانے کی کسی دوسری چیزوں کا بھی آرڈر دیا ہو۔
اُنھوں نے بعض ایسے گاہکوں کا بھی ذکر کیا جو ایک نشست میں ایک سو چڑے اور بٹیرے کھا جاتے ہیں تاہم اُن کا کہنا تھا کہ مہنگی ڈش ہونے کی وجہ سے ایسے گاہکوں کی تعداد کم ہے۔
پہلوانوں کے اس شہر کے رہنے والوں میں ان پرندوں کی مقبولیت کی وجہ ان کا توانائی بخش ہونا بھی بتائی جاتی ہے۔
ریستوران میں موجود ایک شخص نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اکھاڑے میں ڈنڈ پیلنے کے بعد جسم کو جس قوت کی ضرورت ہوتی ہے، گرم تاثیر والے یہ پرندے اسے پورا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
گوجرانوالہ کے لوگ صرف چڑے اور بٹیرے جیسے چھوٹے پرندوں کے ہی شوقین نہیں بلکہ وہ ساتھ ہی ساتھ اونٹ جیسے بڑے جانور کے گوشت کو بھی نہیں چھوڑتے۔
شہر کے وسطی علاقے میں ایک چھوٹی سے دکان اونٹوں کی ٹکیوں کے لیے مشہور ہے جہاں روزانہ دو اونٹوں کا قیمہ بنا کر ان کی ٹکیاں فروخت ہوتی ہیں اور زبان کے چٹخارے کے لیے لوگ دو دو گھنٹے انتظار کی زحمت اٹھانے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔
گوجرانوالہ والوں کا کھانا میٹھے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا تو جب بات میٹھے کی ہو شہر کی شیرے والی گلاب جامنوں کا کوئی ثانی نہیں۔
قیام پاکستان سے پہلے سے شہر میں قائم ایک دکان پر لوگ صرف گلاب جامن کھانے کے لیے ہی آتے ہیں اور اس دکان کے سپروائزر کے مطابق ایک دن میں دس سے بارہ من گلاب جامن فروخت ہو جاتے ہیں۔
جب سے گوجرانوالہ سیالکوٹ روڈ ڈبل ہوئی ہے سفر کا دورانیہ اور بھی کم ہو گیا ہےبالکل درست ہے۔ سیالکوٹ سے منچلے دس دس بارہ بارہ کا گروپ اور باقاعدہ پروگرام بنا کر گوجرانوالہ ایسی ہی "لٹرم پٹرم" چیزیں کھانے جاتے ہیں!
نہاری خوب کھائی تھیکیا اس دوران مارکیٹ میں کچھ نیا نہیں آیا؟؟؟
کھایا تو حلوہ بھی خوب تھا۔۔۔نہاری خوب کھائی تھی
یار حلوے کا ذائقہ منہ سے نہیں جاتا اگلے ماہ پھر سے آنا ہے ایک دو دن کے لیےکھایا تو حلوہ بھی خوب تھا۔۔۔
مگر اب اس کا کیا ذکر کریں!!!