آپ کے پسندیدہ ادیب

محمداحمد

لائبریرین
ارے کتب بینی میں صاحب آپ کہاں جا نکلے؟؟؟؟
جس کو ہو دین و دل عزیز اسکی گلی میں جائے کیوں؟؟

دراصل جس کیفیت سے انسان گزرا نہ ہو اُس کا بیان بھی اجنبی سا ہی معلوم ہوتا ہے۔

لیکن اگر آپ اُس کیفیت سے گزر چکے ہیں جو کہ بیان کرنے والا بیان کر رہا ہو تو آپ بے اختیار لہک کر کہتے ہیں کہ " میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں تھا"۔ :)
 

یاقوت

محفلین
تارڑ ، مختار مسعود وغیرہ کے بارے میں آپ سے سننے کے بعد دل کررہا ہے کہ بس کتابوں میں ہی ڈوبا رہوں۔ اللہ توفیق دے
ہائے ظالم دل کی تار پر کونسا ہاتھ مار دیا۔۔
اوروں کا پتہ نہیں کیوں کہ نکتہ نظر کا اختلاف ہو سکتا ہے شخصیات کو پرکھنے کا لیکن تارڑ صاحب کی تحریر بہت جاندار ہے۔لکھتے کہاں ہیں سماں باندھ دیتے ہیں قاری کو اپنے کھونٹے سے باندھ لیتے ہیں۔گلی گلی نگر نگر خود بھی گھومتے ہیں ساتھ پڑھنے والے کو بھی گھماتے ہیں کنایہ اور تلمیح ایسی ظالم جیسے نوک ناوک کے آگے مست آہو طرز تحریر کہیں کہیں ایک دم برفانی رتوں کی داستان گوئی جیسا ہو جاتا ہے۔لیکن مختار مسعود صاحب کے سفر نامے سفر نصیب کو سب سے بڑھ کر پایا۔کیا کہنے اعلی ادب اعلی ذوق اور بالاتخیل۔
 
آخری تدوین:

یاقوت

محفلین
دراصل جس کیفیت سے انسان گزرا نہ ہو اُس کا بیان بھی اجنبی سا ہی معلوم ہوتا ہے۔

لیکن اگر آپ اُس کیفیت سے گزر چکے ہیں جو کہ بیان کرنے والا بیان کر رہا ہو تو آپ بے اختیار لہک کر کہتے ہیں کہ " میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں تھا"۔ :)
زمانے بھر سےکہہ ڈالا بڑا جراح ظالم تھا
سنا ہے دل کے آئینے سے تیری تصویر نکلی تھی
 

یاقوت

محفلین
ابن انشاء کی کونسی کتاب سب سے زیادہ پسند کی جاتی ہے؟
""اردوکی آخری کتاب"" کیا کہنے پیش لفظ سے لیکر حرف اختتام تک لفظ لفظ مسکراہٹ ہے میاں۔میں پہلے شاعری میں انشاء جی کا قائل نہیں تھا اگر کوئی شاعری کی کتاب پڑھ رہا ہوتا تھا اور ابن انشاء کی غزل آجاتی تو میں ورق ہی الٹ دیتا تھا۔ویسے زیادہ تر انشاء جی کی یہ غزل سامنے آتی تھی
انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہرمیں جی کو لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانہ کیا
ایک بار میرے ایک عزیز نے زبردستی متذکرہ بالا غزل استاد امانت علی خان کی آواز میں سنوائی بس پھر کیا تھا ہم شاعری میں بھی ہوگئے انشاء جی کے شیدائی پھر پوری توجہ سے انشاء جی کی شاعری کو بھی پڑھا یقین جانیں صاحب جو سوز گداز ،بنجارگی اور چٹکی کاٹنی یاسیت مجھے انشاء سے ملی کہیں نہ ڈھونڈ پایا۔
 
آخری تدوین:

یاقوت

محفلین
خواجہ حسن نظامی کا ایک مضمون بہ نام ’’ مچھر ‘‘

یہ بھنبھناتا ہوا ننھا سا پرندہ آپ کو بہت ستاتا ہے ۔ رات کو نیند حرام کردی ہے ۔ ہندو، مسلمان ، سکھ ، عیسائی ، یہودی سب بالا تفاق اس سے ناراض ہیں ۔ ہر روز اس کے مقابلہ کے لیے مہمیں تیار ہوتی ہیں ، جنگ کے نقشے بنائے جاتے ہیں ۔ مگر مچھروں کے جنرل کے سامنے کسی کی نہیں چلتی ۔ شکست پر شکست ہوئی چلی جاتی ہے اور مچھروں کا لشکر بڑھا چلا آتا ہے ۔

اتنے بڑے ڈیل ڈول کا انسان ذرا سے بھنگے پر قابو نہیں پاسکتا۔ طرح طرح کے مصالحے بھی بناتا ہے کہ ان کی بو سے مچھر بھاگ جائیں ۔ لیکن مچھر اپنی یورش سے باز نہیں آتے ۔ آتے ہیں اور نعرے لگاتے ہوئے آتے ہیں ۔ بے چارہ آدم زاد حیران رہ جاتا ہے اور کسی طرح ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔

امیر۔ غریب۔ ادنیٰ ۔ اعلیٰ ۔ بچے ۔ بوڑھے ۔ عورت۔ مرد ۔ کوئی اس کے وار سے محفوظ نہیں ۔ یہاں تک کہ آدمی کے پاس رہنے والے جانوروں کو بھی ان کے ہاتھ سے ایذا ہے ۔ مچھر جانتا ہے کہ دشمن کے دوست بھی دشمن ہوتے ہیں ۔ ان جانوروں نے میرے دشمن کی اطاعت کی ہے تو میں ان کو بھی مزا چکھاؤں گا۔

آدمیوں نے مچھروں کے خلاف ایجی ٹیشن کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی ۔ ہر شخص اپنی سمجھ اور عقل کے موافق مچھروں پر الزام رکھ کر لوگوں میں ان کے خلاف جوش پیدا کرنا چاہتا ہے مگر مچھراس کی کچھ پروا نہیں کرتا۔

طاعون نے گڑ بڑ مچائی تو انسان نے کہا کہ طاعون مچھر اور پسو کے ذریعے سے پھیلتا ہے ۔ ان کو فنا کردیا جائے تو یہ ہولناک وبادور ہو جائے گی ۔ ملیریا پھیلا تو اس کا الزام بھی مچھر پر عائد ہوا۔ اس سرے سے اس سرے تک کالے گورے آدمی غل مچانے لگے کہ مچھروں کو مٹادو۔ مچھروں کو کچل ڈالو۔ مچھروں کو تہس نہس کردواور ایسی تدبیرنکالیں جن سے مچھروں کی نسل ہے منقطع ہو جائے ۔

مچھر بھی یہ سب باتیں دیکھ رہا تھا اور سن رہا تھااور رات کو ڈاکٹر صاحب کی میز پر رکھے ہوئے ’’پانیر‘‘ کو آکر دیکھتا اور اپنی برائی کے حروف پر بیٹھ کر اس خون کی ننھی ننھی بوندیں ڈال جاتا جو انسان کے جسم سے یا خود ڈاکٹر صاحب کے جسم سے چوس کر لایا تھا۔ گویا اپنے فائدہ کی تحریر سے انسان کی ان تحریروں پر شوخیانہ ریمارک لکھ جاتا کہ میاں تم میرا کچھ نہیں کرسکتے ۔

انسان کہتا ہے کہ مچھر بڑا کم ذات ہے ۔ کوڑے ،کرکٹ،میل کچیل سے پیدا ہوتا اور گندی موریوں میں زندگی بسر کرتا ہے اوربزدلی تو دیکھو اس وقت حملہ کرتاہے جب کہ ہم سو جاتے ہیں ۔ سوتے پر وار کرنا، بے خبر کے چرکے لگانا مردانگی نہیں انتہا درجے کی کمینگی ہے ۔ صورت تو دیکھو کالا بھتنا۔ لمبے لمبے پاؤں بے ڈول چہرہ اس شان و شوکت کا وجود اور آدمی جیسے گورے چٹے ۔ خوش وضع۔ پیاری ادا کے آدمی کی دشمنی ، بے عقلی اور جہالت اسی کوکہتے ہیں۔ مچھر کی سنو تو وہ آدمی کو کھری کھری سناتا ہے اورکہتا ہے کہ جناب ہمت ہے تو مقابلہ کیجئے ۔ ذات صفات نہ دیکھیے ۔ میں کالا سہی ، بدرونق سہی ، نیچ ذات سہی اور کمینہ سہی مگر یہ تو کہیے کہ کس دلیری سے آپ کا مقابلہ کرتا ہوں اور کیوں کر آپ کی ناک میں دم کرتاہوں ۔

یہ الزام سراسر غلط ہے کہ بے خبری میں آتا ہوں اور سوتے میں ستاتا ہوں ۔ یہ تم اپنی عادت کے موافق سراسر نا انصافی کرتے ہو۔ حضرت میں تو کان میں آکر ’’الٹی میٹم‘‘ دے دیتا ہوں کہ ہوشیار ہو جاؤ۔ اب حملہ ہوتا ہے ۔ تم ہی غافل رہو تو میرا کیا قصور۔ زمانہ خود فیصلہ کردے گا کہ میدان جنگ میں کالا بھتنا ، لمبے لمبے پاؤں والا بے ڈول فتح یاب ہوتا ہے یاگورا چٹا آن بان والا۔

میرے کارناموں کی شاید تم کو خبر نہیں کہ میں نے اس پر دۂ دنیا پر کیا کیا جوہر دکھائے ہیں ۔ اپنے بھائی نمرود کا قصّہ بھول گئے جو خدائی کا دعویٰ کرتاتھا اور اپنے سامنے کسی کی حقیقت نہ سمجھتا تھا ۔ کس نے اس کا غرور توڑا ۔ کون اس پر غالب آیا۔ کس کے سبب اس کی خدائی خاک میں ملی ؟ اگر آپ نہ جانتے ہوں تو اپنے ہی کسی بھائی سے دریافت کیجیے یا مجھ سے سنیے کہ میرے ہی ایک بھائی مچھر نے اس سرکش کا خاتمہ کیا تھا۔

اور تم تو ناحق بگڑتے ہو اور خواہ مخواہ اپنا دشمن تصورکیے لیتے ہو۔ میں تمھارا مخالف نہیں۔ اگر تم کو یقین نہ آئے تو اپنے کسی شب بیدار صوفی بھائی سے دریافت کرلو۔ دیکھو وہ میری شان میں کیا کہے گا۔ کل ایک شاہ صاحب عالم ذوق میں اپنے ایک مرید سے فرما رہے تھے کہ میں مچھر کی زندگی کو دل سے پسند کرتا ہوں ۔ دن بھر بےچارا خلوت خانہ میں رہتا ہے رات کو ، جو خدا کی یاد کا وقت ہے ،باہر نکلتا ہے اور پھر تمام شب تسبیح و تقدیس کے ترانے گایا کرتاہے ۔ آدمی غفلت میں پڑے سوتے ہیں تو اس کو ان پر غُصّہ آتا ہے ۔ چاہتا ہے کہ یہ بھی بیدار ہو کر اپنے مالک کے دیے ہوئے اس سہانے خاموش وقت کی قدر کرے اور حمد شکر کے گیت گائے ۔ اس لیے پہلے ان کے کان میں جاکر کہتا ہے کہ اُٹھو میاں ! اُٹھو جاگو جاگنے کا وقت ہے ۔ سونے کا اور ہمیشہ سونے کا وقت ابھی نہیں آیا۔ جب آئے گا توبے فکر ہوکر سونا۔ اب تو ہوشیار رہنے اور کچھ کام کرنے کا موقع ہے مگر انسان اس سریلی نصیحت کی پروا نہیں کرتا اور سوتا رہتا ہے تو مجبور ہو کر غُصّہ میں آجاتا ہے اور اس کے چہرہ اور ہاتھ پاؤں پر ڈنگ مارتا ہے ۔ پرواہ رے انسان آنکھیں بند کیے ہوئے ہاتھ پاؤں مارتا ہے اور بے ہوشی میں بدن کھجا کر پھر سو جاتا ہے اور جب دن کو بیدار ہوتا ہے تو بے چارا مچھر کو صلواتیں سناتا ہے کہ رات بھر سونے نہیں دیا۔ کوئی اس دروغ گو سے پوچھے کہ جناب عالی ! کتنے سکنڈ جاگے تھے جو ساری رات جاگتے رہنے کا شکوہ ہو رہاہے ۔

شاہ صاحب کی زبان سے یہ عارفانہ کلمات سن کر میرے دل کو بھی تسلی ہوئی کہ غنیمت ہے ان آدمیوں میں بھی انصاف والے موجود ہیں بلکہ میں دل میں شرمایا کہ کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے کہ شاہ صاحب مصلے پر بیٹھے وظیفہ پڑھا کرتے ہیں اور میں ان کے پیروں کا خون پیا کرتا ہوں ۔ یہ تو میری نسبت ایسی اچھی اور نیک رائے دیں اور میں ان کو تکلیف دوں ۔ اگرچہ دل نے یہ سمجھایا کہ تو کاٹتا تھوڑی ہے ۔ قدم چومتا ہے اور ان بزرگوں کے قدم چومنے ہی کے قابل ہوتے ہیں لیکن اصل یہ ہے کہ اس سے میری ندامت دور نہیں ہوتی اور اب تک میرے دل میں اس کا افسوس باقی ہے ۔

سواگر سب انسان ایسا طریقہ اختیار کرلیں جیسا کہ صوفی صاحب نے کیا تو یقین ہے کہ ہماری قوم انسان کو ستانے سے خود بخود باز آجائے گی ورنہ یادرہے کہ میرا نام مچھر ہے ۔ لطف سے جینے نہ دوں گا اور بتادوں گا کہ کمین اور نیچ ذات اعلیٰ ذات والوں کو یوں پریشان اور بے چین کرسکتی ہے ۔

حضرت ایک بار آستانہ یوسفیہ پر بھی آئیں بڑے بڑے خدّامان ادب پانی بھرتے نظر آئیں آپ کو۔
 
آخری تدوین:

بافقیہ

محفلین
ہائے ظالم دل کی تار پر کونسا ہاتھ مار دیا۔۔
اوروں کا پتہ نہیں کیوں کہ نکتہ نظر کا اختلاف ہو سکتا ہے شخصیات کو پرکھنے کا لیکن تارڑ صاحب کی تحریر بہت جاندار ہے۔لکھتے کہاں ہیں سماں باندھ دیتے ہیں قاری کو اپنے کھونٹے سے باندھ لیتے ہیں۔گلی گلی نگر نگر خود بھی گھومتے ہیں ساتھ پڑھنے والے کو بھی گھماتے ہیں کنایہ اور تلمیح ایسی ظالم جیسے نوک ناوک کے آگے مست آہو طرز تحریر کہیں کہیں ایک دم برفانی رتوں کی داستان گوئی جیسا ہو جاتا ہے۔لیکن مختار مسعود صاحب کے سفر نامے سفر نصیب کو سب سے بڑھ کر پایا۔کیا کہنے اعلی ادب اعلی ذوق اور بالاتخیل۔
ان کی تعریف سن کر مجھے "جبران خلیل جبران" کی یاد آگئی۔ لکھتا نہیں ہے غضب ڈھاتا ہے۔ لیکن لازم ہے کہ عربی میں پڑھا جائے۔ ورنہ کئی بے کیف ترجمے مارکیٹ میں موجود ہیں۔ اردو میں بھی اور انگریزی میں بھی۔ اور کئی زبانوں میں ترجمے موجود ہیں۔
 

زیک

مسافر
ان کی تعریف سن کر مجھے "جبران خلیل جبران" کی یاد آگئی۔ لکھتا نہیں ہے غضب ڈھاتا ہے۔ لیکن لازم ہے کہ عربی میں پڑھا جائے۔ ورنہ کئی بے کیف ترجمے مارکیٹ میں موجود ہیں۔ اردو میں بھی اور انگریزی میں بھی۔ اور کئی زبانوں میں ترجمے موجود ہیں۔
خلیل جبران نے انگریزی میں بھی کافی لکھا اور کم از کم میری معلومات میں وہی زیادہ مشہور ہے
 

جاسمن

لائبریرین
آپا جی ""نکلے تیری تلاش میں"" اور "" پتلی پیکنگ کی"" کے بارے میں کیا اظہار خیال فرمائیں گی آپ؟؟؟؟
یاقوت!
"نکلے تیری تلاش میں" پڑھے طویل عرصہ ہوا۔ بس اتنا یاد ہے کہ تب پسند آیا تھا لیکن اس میں کیا تھا، مجھے تو اب سب بھول بھال گیا۔ "پتلی پیکنگ میں" نہیں پڑھا۔
 

بافقیہ

محفلین
خلیل جبران نے انگریزی میں بھی کافی لکھا اور کم از کم میری معلومات میں وہی زیادہ مشہور ہے

جی ! مگر ذرا سا فرق یہ ہے کہ ان کی انگریزی تحریروں کی وجہ سے وہ مفکر مشہور ہوئے۔
اور عربی تحریروں کے سہارے ادیب و مفکر دونوں۔ لیکن اکثر عربی دان حضرات انھیں ادب کیلئے پڑھتے ہیں نہ کہ فکر کیلئے۔
 

یاقوت

محفلین
ان کی تعریف سن کر مجھے "جبران خلیل جبران" کی یاد آگئی۔ لکھتا نہیں ہے غضب ڈھاتا ہے۔ لیکن لازم ہے کہ عربی میں پڑھا جائے۔ ورنہ کئی بے کیف ترجمے مارکیٹ میں موجود ہیں۔ اردو میں بھی اور انگریزی میں بھی۔ اور کئی زبانوں میں ترجمے موجود ہیں۔

جبران صاحب کو تفصیلی پڑھنے اور جاننے کاموقع تو نہیں ملا لیکن سنا ہے کہ بہت اعلی پائے کے لکھاری اور فلسفی تھے۔ایک بار کہیں سے ایک رسالہ ہاتھ لگا جس پر لکھا تھا "" زرد پتے"" تصنیف "" خلیل جبران"" اب یہ تو واقفان ہی بتا سکتے ہیں کہ وہ واقعی انہی کا ہے یاکسی اور کا لیکن طرز تحریر انتہائی خوبصورت تھا۔
 

یاقوت

محفلین
یاقوت!
"نکلے تیری تلاش میں" پڑھے طویل عرصہ ہوا۔ بس اتنا یاد ہے کہ تب پسند آیا تھا لیکن اس میں کیا تھا، مجھے تو اب سب بھول بھال گیا۔ "پتلی پیکنگ میں" نہیں پڑھا۔
"" نکلے تیری تلاش میں "" تارڑ صاحب کی کتابوںمیں اس لیے بھی سب سے اہم ہے کہ تارڑ صاحب کے دومشہور ترین ناول "" پیار کا پہلا شہر"" اور
""ر اکھ"" کے اہم ترین کردار اور کئی خوبصورت موڑ اور خیالات اسی سفرنامے سے لیےگئے ہیں۔
 

یاقوت

محفلین
یاقوت!
"نکلے تیری تلاش میں" پڑھے طویل عرصہ ہوا۔ بس اتنا یاد ہے کہ تب پسند آیا تھا لیکن اس میں کیا تھا، مجھے تو اب سب بھول بھال گیا۔ "پتلی پیکنگ میں" نہیں پڑھا۔
"" پتلی پیکنگ کی"" چین کا سفر نامہ ہے ۔جو مزاح ، تخیل ،ماورائیت اور تصویر آفرینی سے لبریز ہے۔اس میں سب سے خاصے کی چیز لی پو (چین کے کلاسک شاعر) اور ایک صوفی شاعر کی شاعری سے ایک جیسی خیالاتی دھمال اخذ کرنا ہے۔
 
آخری تدوین:

یاقوت

محفلین
جی ! مگر ذرا سا فرق یہ ہے کہ ان کی انگریزی تحریروں کی وجہ سے وہ مفکر مشہور ہوئے۔
اور عربی تحریروں کے سہارے ادیب و مفکر دونوں۔ لیکن اکثر عربی دان حضرات انھیں ادب کیلئے پڑھتے ہیں نہ کہ فکر کیلئے۔
خلیل جبران صاحب کی کسی کتاب کا کوئی مستند اردو ترجمہ موجود ہو تو آتش شوق کو پٹرول سے بجھا کر ثواب دارین حاصل کریں۔
 

یاقوت

محفلین
ضرور۔ مگر یہ تو بتائیں کہ یوسفی صاحب نے آخری کئی دہائیاں بانجھ پن میں کیوں گزاریں؟
یہ تو جب آپ حضرت یوسفی صاحب سے بیعت ہوں گے تو ہی آپ کو پتہ چلے گا۔لکھنا اور لکھتے جانا کمال نہیں ہے جیسا کہ کچھ ادیبوں کا وطیرہ ہے یوسفی صاحب نے اس کے برعکس تھوڑا لکھا لیکن کمال لکھا کہ صدیوں پر قرض ہے انکا۔اگر آپ انکے پہلے مضامین کے مجموعے ""چراغ تلے "" سے لیکر آخری تصنیف "" خاکم بدہن"" تک انکی کتابوں کی اشاعت کے درمیانی وقفہ کو دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ انکی ہر کتاب ٹھیک ٹھاک وقفہ کے بعد منظر عام پر آئی ہے۔اس کے علاوہ یوسفی صاحب بینکنگ کے پیشہ سے وابستہ تھے اسکی مصروفیات اور ساتھ ساتھ یوسفی صاحب تقریباََ جوانی سے ہی معدہ کے شدید مرض میں مبتلا چلے آئے ہیں جس سے اکثر انکی طبیعت ناساز رہتی تھی ۔آپ "" شام شعر یاراں( جو انکے پڑھے گئے مقالات کامجموعہ ہے)"" کو جب پڑھیں گے تو آپ کو انکی مصروفیات کے تنوع اور طبیعت کی ناسازی کا خوب علم ہوگا۔ساغر صدیقی کے کتبے کا شعر یوسفی صاحب کی نذر کرتا ہوں
یاد رکھنا میری لحد کو تم
قرض ہے تم پہ چار پھولوں گا
 

یاقوت

محفلین
رشید احمد صدیقی کا ذکر ابھی تک کسی نے نہیں کیا۔
جی بالکل صحیح فرمایا پروفیسر رشید احمد صدیقی (علیگ) ایک جانےمانے ادیب اور فنائے ادب تھے۔تذکروں میں انکا تذکرہ پڑھا ضرور ہے لیکن ابھی تک یہ آنکھیں انکے قلم کی جولانیاں دیکھنے سے محروم ہیں۔
 
Top