لبوں پہ کیا وہ مرے دل میں شہد گھولتا ہے
وہ جادو حسن کا ہے، سر پہ چڑھ کے بولتا ہے
سپاہِ عشق کے لشکر سے ہے وفا میری
چلا کے تیر وہ نیزے پہ سر کو تولتا ہے
جو پیاسا دشت ِ محبت میں جان ہارا تھا
فلک کی اوڑھ سے رازِ شکست کھولتا ہے
ھر اک طرف سے امنڈھتے ہوئے اندھیروں میں
ستارہ بن کے چھپی ظلمتیں ٹٹولتا ہے
میں اس کو دل کے خرابے میں ڈھونڈھنے نکلا
وہ دل میں چھپ کے مرے دل کے بھید کھولتا ہے
وہ حسن ساز کی تخلیقِ جاوداں ٹھہرا
میں خاک ٹھہرا مجھے خاک ہی میں رولتا ہے
سکھایا کس نے یہ شعلوں سے کھیلنا مجھ کو
مرے خدا مرے اندر یہ کون بولتا ہے
میں اپنی آگ میں کندن بنا تو ڈرنے لگا
زیاں کے خوف سے درویش منوا ڈولتا ہے
(اقتباس)