طارق شاہ

محفلین

رات پیاسا تھا میرے لوہُو کا
ہُوں دِوانہ تِرے سَگِ کُو کا

شعلۂ آہ جُوں تُوں اب مجھ کو
فکر ہے اپنے ہر بُنِ مُو کا

میر تقی میر
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
ہُوں قید حصارِ رگِ گرداب میں ، سرمد !
کوئی نہیں جو مجھ کو کنارے کا پتہ دے

سرمد صہبائی

پہلی بار نظر سے گُذرا، یوں تو مکمل ٹکڑا ہی جان لیوا ہے مگر خاص طور پہلا مصرع کیا ہی تباہی انگیز مصرع ہے ۔۔ !! بہت سی داد آپ کے اِنتخاب کے واسطے :)
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
:) سچ کہوں گا کہ میں اپنی تیز رفتار طبیعت کی وجہ سے املا میں بیحد کمزور ہوں ، سوچا کہ بات گو مول کی جائے مگر میں یہ بھی نہیں کہ سکتا کہ ٹائپو ہے ، " ک " اور " ق " میں کی بورڈ پر کافی فاصلہ ہے :p
درستگی کے لیئے شکریہ پیاری بہن :)
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
یک نظر بیش نہیں فُرصتِ ہستی غافل !
گرمیِ بزم ہے اِک رقصِ شرر ہونے تک

مرزا اسداللہ خاں غالب
اِس غزل میں میرا پسندیدہ شعر یہ ہے ۔۔ :)

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے ، لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم، تم کو خبر ہونے تک
 

طارق شاہ

محفلین

آزادیِ نسِیم مُبارک کہ ہر طرف
ٹُوٹے پڑے ہیں حلقۂ دامِ ہَوا سے گُل

جو تھا ، سو موجِ رنگ کے دھوکے میں مرگیا
اے وائے ، نالۂ لبِ خونیں نوائے گُل !

مرزا اسداللہ خاں غالب
 

صائمہ شاہ

محفلین
حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی
دل جوشِ گریہ میں ہے ڈوبی ہوئی اسامی

اس شمع کی طرح سے جس کو کوئی بجھائے
میں بھی جلے ہؤوں میں ہوں داغِ نا تمامی

غالب
 

صائمہ شاہ

محفلین
کی اس نے گرم سینۂ اہلِ ہوس میں جا
آوے نہ کیوں پسند کہ ٹھنڈا مکان ہے

ہے بارے اعتمادِ وفاداری اس قدر
غالب ہم اس میں خوش ہیں کہ نا مہربان ہے

غالب
 
Top