ہُوں قید حصارِ رگِ گرداب میں ، سرمد !
کوئی نہیں جو مجھ کو کنارے کا پتہ دے
سرمد صہبائی
واہ !! مقرر !!پرتوئے خُور سے ، ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ، ایک عنایت کی نظر ہونے تک
غالب
شاہ جی ہم تو آپ کے ذوق کے مرید ہو چُکےیونہی سا تھا کوئی جس نے مجھے مِٹا ڈالا
نہ کوئی نُور کا پُتلا ، نہ کوئی زہرہ جبیں
فراق گورکھپوری
مقرر کہ مکرر؟واہ !! مقرر !!
مقرر کہ مکرر؟![]()
اِس غزل میں میرا پسندیدہ شعر یہ ہے ۔۔یک نظر بیش نہیں فُرصتِ ہستی غافل !
گرمیِ بزم ہے اِک رقصِ شرر ہونے تک
مرزا اسداللہ خاں غالب