طارق شاہ

محفلین

متاعِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دِل میں ڈبولی ہیں اُنگلیاں میں نے

زُباں پہ مُہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقئہِ زنجیر میں زُباں میں نے

فیض احمد فیض
 

طارق شاہ

محفلین


بہار آئی
تو جیسے یکبار
لوٹ آئے ہیں پھر عدم سے
وہ خواب سارے ، شباب سارے
جو تیرے ہونٹوں پہ مَر مِٹے تھے
جو مِٹ کے ہر بار پھر جئے تھے
نِکھر گئے ہیں گلاب سارے
جو تیری یادوں سے مُشک بُو ہیں
جو تیرے عشاق کا لہو ہیں
اُبل پڑے ہیں عذاب سارے
ملالِ احوالِ دوستاں بھی
خُمارِ آغوشِ مہوشاں بھی
غُبارِ خاطر کے باب سارے
تِرے ہمارے سوال سارے ، جواب سارے
بہار آئی تو کھُل گئے ہیں
نئے سِرے سے حساب سارے
بہار آئی

فیض احمد فیض
 

طارق شاہ

محفلین

مجھ سے مِلتے ہوئے یہ بات تو سوچی ہوتی !
میں تیرے دِل میں سما جائوں گا دھڑکن کی طرح

منتظر ہے کسی مخصوص سی آہٹ کے لئے
زندگی بیٹھی ہے دہلیز پہ بِرہن کی طرح

مُرتضیٰ برلاس بیگ
 

صائمہ شاہ

محفلین
سرِ طور ہو ، سرِ حشر ہو ، ہمیں انتظار قبول ھے
وہ کبھی ملیں وہ کہیں ملیں وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی

نہ ہو ان پہ جو مرا بس نہیں کہ یہ عاشقی ھے ہوس نہیں
میں اُنہی کا تھا میں انہی کا ہوں وہ میرے نہیں تو نہیں سہی

نصیر الدین نصیر
 

طارق شاہ

محفلین
سرِ طُور ہو ، سرِ حشر ہو ، ہمیں انتظار قبول ہے
سرِ طُور ہو ، سرِ حشر ہو ، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی مِلیں وہ کہیں مِلیں ، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی

نہ ہو اُن پہ جو مِرا بس نہیں ، کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں اُنہی کا تھا، میں اُنہی کا ہُوں ، وہ مِرے نہیں تو نہیں سہی

نصیر الدین نصیر

:thumbsup2:
 

عینی مروت

محفلین
سرِ طور ہو ، سرِ حشر ہو ، ہمیں انتظار قبول ھے
وہ کبھی ملیں وہ کہیں ملیں وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی

نہ ہو ان پہ جو مرا بس نہیں کہ یہ عاشقی ھے ہوس نہیں
میں اُنہی کا تھا میں انہی کا ہوں وہ میرے نہیں تو نہیں سہی

نصیر الدین نصیر

لاجواب! یہ پوری غزل ہی شاندار ہے

مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے، میری آرزو کا بھرم رہے
تیری انجمن میں اگر نہیں، تیری انجمن کےقریں سہی

میری زندگی کا نصیب ہے، نہیں دور مجھ سے قریب ہے
مجھے اسکا غم تو نصیب ہے، وہ اگر نہیں تو نہیں سہی

غمِ زندگی سے فرار کیا یہ سکون کیا ، یہ قرا ر کیا
غمِ زندگی بھی ہے زندگی ، جو نہیں خوشی تو نہیں سہی
 

طارق شاہ

محفلین

نہ اب وہ عرضِ مطالب میں شوخئ عُنواں
نہ اب وہ شوق کی نیرنگئ ادا باقی

رہی نہ وصْل کی لذّت، نہ ہجر کی کُلفت
دوائے درد، نہ اب دردِ بے دوا باقی

اصغر گونڈوی
 
Top