بھُلاتا لاکھ ہُوں، لیکن برابر یاد آتے ہیں
الٰہی ترکِ اُلفت پر وہ کیوںکر یاد آتے ہیں
نہ چھیڑ اے ہم نشیں ، کیفیتِ صہبا کے افسانے
شرابِ بے خودی کے ، مُجھ کو ساغر یاد آتے ہیں
نہیں آتی تو یاد اُن کی ، مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں، تو اکثر یاد آتے ہیں
حقیقت کُھل گئی حسرت ، ترے ترکِ محبّت کی
تُجھے تو اب وہ پہلے سے بھی ، بڑھ کر یاد آتے ہیں
حسرت موہانی