ام اریبہ

محفلین
اَیُّہَاالنّاس چلو کوہ ِ ندا کی جانب

کب تک آشفتہ سری ہو گی نئے ناموں سے
تھک چکے ہو گے خرابات کے ہنگاموں سے
ہر طرف ایک ہی انداز سے دن ڈھلتے ہیں
لوگ ہر شہر میں سائے کی طرح چلتے ہیں
اجنبی خوف کو سینوں میں چُھپائے ہوئے لوگ
اپنے آسیب کے تابوت اُٹھائے ہوئے لوگ
ذات کے کرب میں ، بازار کی رُسوائی میں
تم بھی شامل ہو اس انبوہ کی تنہائی میں

تم بھی ایک بادیہ پَیما ہو خلا کی جانب

خود ہی سوچو کہ ہر اک در سے ملا کیا آخِر
کار آمد ہوئی فریاد کے ناکام ہُوئی
اپنی گلیوں میں سے کس کس نے ستایا تم کو
دشت ِ غربت میں کہاں صبح ، کہاں شام ہوئی
کس نے سوئے ہوئے اسبابِ فغاں کو چیڑا
کس نے دُکھتے ہوئے تارِ رگ ِ جاں کو چھیڑا
کس نے سمجھائیں تمھیں عشرت ِ غم کی باتیں

کون لایا تمھیں اندوہ ِ وفا کی جانب

اب کدھر جاؤ گے ، کیا اپنا وطن کیا پردیس
ہر طرف ایک سی سَمتوں کا نشاں مِلتا ہے
اپنی آواز بکھر جاتی ہے آوازوں میں
اپنا پندار ملول و نگراں ملتا ہے
پھونک کر خود کو نظر آتی ہے احساس کی راکھ
وقت کی آنچ پہ لمحوں کا دھواں ملتا ہے
راستے کھوئے چلے جاتے ہیں سناٹوں میں

مشعلیں خودبخود آتی ہیں ہوا کی جانب

کب تک افسانہ و افسوں کی حشیشی راتیں
طلب ِ جنس و تلاش ِ شب ِ امکاں کب تک
ذہن کو کیسے سنبھالے گی بدن کی دیوار
درد کا بوجھ اٹھائے گا شبستاں کب تک
دیر سے نیند کو ترسی ہوئی آںکھوں کے لیے
خواب آور نشہ ء عارض و مژگاں کب تک
کتنے دن اور پُکارے گی تمھیں جسم کی پیاس

نغمہ و غمزہ و انداز و ادا کی جانب

رات بھر جاگتے رہتے ہیں دکانوں کے چراغ
دل وہ سنسان جزیرہ کے بھجا رہتا ہے
لیکن اس بند جزیرے کے ہر اک گوشے میں
ذات کا باب ِ طلسمات کھلا رہتا ہے
اپنی ہی ذات میں پستی کے کھنڈر ملتے ہیں
اپنی ہی ذات میں اک کوہ ِ ندا رہتا ہے
صرف اِس کوہ کے دامن میں میسر ہے نجات
آدمی ورنہ عناصر میں گِھرا رہتا ہے
اور پھر ان سے بھی گھبرا کے اٹھاتا ہے نظر

اپنے مذہب کی طرح اپنے خدا کی جانب
اَیُّہَاالنّاس چلو کوہ ِ ندا کی جانب

مصطفیٰ زیدی ... از، کوہِ ندا۔۔۔۔۔@ماہی احمد
 

طارق شاہ

محفلین

عشقِ افسردہ نہیں آج بھی افسردہ بہت
وہی کم کم اثرِ سوزِ نہاں ہے ، کہ جو تھا

قُرب ہی کم ہے ، نہ دُوری ہی زیادہ لیکن !
آج وہ ربط کا احساس کہاں ہے ، کہ جو تھا

پھر تِری چشمِ سُخن سنج نے چھیڑی کوئی بات
وہی بادو ہے ، وہی حُسنِ بیاں ہے ، کہ جو تھا

تِیرہ بختی نہیں جاتی دلِ سوزاں کی فراق !
شمع کے سر پہ وہی آج دُھواں ہے کہ جو تھا

فراق گورکھپوری
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

تم نے چھیڑا تو کُچھ کُھلے ہم بھی
بات پر بات یاد آتی ہے

ہائے کیا چیز تھی جوانی بھی !
اب تو دن رات یاد آتی ہے

عزیز لکھنوی
 

طارق شاہ

محفلین

اپنے کِئے کا رونا کیا ہے
رونے سے آخر ہونا کیا ہے

پھل نہیں اچّھا عِشق کا اے دل
ایسے شجر کا بونا کیا ہے

آرزو لکھنوی
 

طارق شاہ

محفلین

فضا تبسّمِ صُبحِ بہار تھی، لیکن !
پُہنچ کے منزلِ جاناں پر آنکھ بھر آئی

نیا نہیں ہے مجھے مرگِ ناگہاں کا پیام
کہ جیتے جی مجھے اکثر مِری خبر آئی

فراق
گورکھپوری
 

طارق شاہ

محفلین

ہر جَلوے سے اِک درسِ نمُو لیتا ہُوں
چَھلکے ہُوئے صد جام و سبُو لیتا ہُوں

اے جانِ بہار، تجھ پر پڑتی ہے جب آنکھ !
سنگِیت کی سرحدوں کو چُھو لیتا ہُوں

فراق گورکھپوری
 

طارق شاہ

محفلین


لو آ گئی وہ سرِ بام مُسکراتی ہُوئی
لِئے اُچٹتی نِگاہوں میں اِک پیامِ خموش

یہ دُھندلی دُھندلی فضاؤں میں انعکاسِ شفق
یہ سُونا رستہ، یہ تنہا گلی، یہ شامِ خموش

گلی کے موڑ پر اِک گھر کی مُختصر دیوار
بِچھا ہے جس پہ دُھندلکوں کا ایک دامِ خموش

یہ چھت کِسی کے سلیپر کی چاپ سے واقف
کِسی کے گیتوں سے آباد یہ مقامِ خموش

کِسی کے ہونٹوں کے اعجاز سے یہ چاروں طرف
تبسّموں کے ضیا پاروں کا خرامِ خموش

کِسی کے مد بھرے نینوں سے یہ برستا خُمار
کِسی کی نقرئی بانہوں کا یہ سلامِ خموش

مُنڈیر پر بصد انداز کُہنیاں ٹیکے
کھڑی ہُوئی ہے کوئی شوخ لالہ فام خموش

مجید امجد
 

طارق شاہ

محفلین

دل جل رہا تھا غم سے مگر نغمہ گر رہا
جب تک رہا، میں ساتھ مِرے یہ ہنر رہا

اُس آخری نظر میں عجب درد تھا منیر !
جانے کا اُس کے رنج مجھے عمر بھر رہا

منیر نیازی
 

طارق شاہ

محفلین

پُکارتا رہا، بے آسرا، یتیم لہو
کسی کو بہرِسماعت، نہ وقت تھا، نہ دماغ

نہ مُدّعی ، نہ شہادت، حساب پاک ہُوا
یہ خُونِ خاک نشیناں تھا، رزق خاک ہُوا

فیض احمد فیض
 

طارق شاہ

محفلین

مُمکن ہے میں ڈوُب ہی جاؤں دِن دریا چڑھنے تک
قطرہ قطرہ ٹپک رہی ہے میرے دِل میں رات

جتنے بند تھے اِک اِک کر کے سارے ٹوُٹ بہے
اب کے ایسا برسا پانی ، ڈوُب چلی برسات

توُ ہے اُڑتے پَل جیسا، تیز آندھی تِری باندی
میں ذرّہ تِری راہ کا پیارے، میری کیا اوقات

یہ بھی درست کہ اُس کو بُھلانا اپنے بس کی بات نہیں
لیکن یاد کریں گے اُس کی کون کون سی بات

سب کا دُکھ سہنے والا دِل توُ نے مجھ کو دان کِیا
ہر شے چُھونے والی آنکھیں، دیکھنے والے ہات

شہزاد احمد
 
Top