طارق شاہ

محفلین

جان ہے بے قرار سی ، جسم ہے پائمال سا
اب نہ وہ داغ، وہ جگر، صرف ہے اِک خیال سا


چاہیئے عِشق میں مجھے، آپ ہی کا جمال سا
داغ ہر ایک بدر سا، زخم ہر اِک ہلال سا

دِل پہ مِرے گرائی تھیں تم نے ہی بجلیاں، مگر
آؤ نظر کے سامنے، مجھ کو ہے احتمال سا

حُسن کی سحرکاریاں، عِشق کے دِل سے پُوچھئے
وصل کبھی ہے ہجر سا، ہجر کبھی وصال سا

گُم شدگانِ عشق کے شان بھی کیا عجیب ہے !
آنکھ میں اِک سرُور سا، چہرے پہ اِک جلال سا

یاد ہے آج تک مجھے پہلے پہل کی رسم و راہ
کچھ اُنہیں اجتناب سا، کچھ مجھے احتمال سا

جگر مراد آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

چشمِ ساقی کی عنایات پہ پابندی ہے
اِن دِنوں وقت پہ ، حالات پہ پابندی ہے

بکھری بکھری ہُوئی زُلفوں کے فسانے چھیڑو
مے کشو! عہدِ خرابات پہ پابندی ہے

دِل شِکن ہو کے چلے آئے تِری محفل سے
تیری محفل میں تو ہر بات پہ پابندی ہے

ہر تمنّا ہے کوئی ڈُوبتا لمحہ جیسے
ساز مغموم ہیں، نغمات پہ پابندی ہے

آگ سینوں میں لگی ساغر و مینا چھلکے
کوئی کہتا تھا کہ برسات پہ پابندی ہے

ساغر صدیقی
 

طارق شاہ

محفلین

دلیلِ صُبْحِ طرب ہی سہی یہ سنّاٹا
مگر پہاڑ سی یہ رات کٹ چُکے تو کہُوں

پسِ نقاب ہی پنہاں سہی عروسِ سحر
مگر یہ پردۂ ظلمات ہٹ چُکے تو کہُوں

یہ رات بھی تو حقیقت ہے تلخ و تند و درشت
اِسے سحر کا تصوّر مِٹا نہیں سکتا

مجھے تو نیند نہیں آئے گی ، کہ میرا شعُور
شبِ سیاہ سے آنکھیں چُرا نہیں سکتا

اگر نشانِ سفر تک کہیں نہیں، نہ سہی !
میں رینگ رینگ کے یہ شب نہیں گُزاروں گا

شِکست سے مِرا اخلاق اجنبی ہے ندیم
سحر مِلے نہ مِلے، رات سے نہ ہاروں گا

احمد ندیم قاسمی
 

طارق شاہ

محفلین

صحنِ کعبہ بھی یہیں ہے تو صنم خانے بھی
دل کی دُنیا میں گلستاں بھی ہیں ویرانے بھی


آتشِ عِشق میں پتّھر بھی پگھل جاتے ہیں
مُجرمِ سوزِ وفا شمع بھی، پروانے بھی

کچھ فسانوں میں حقیقت کی جھلک ہوتی ہے
کچھ حقیقت سے بنا لیتے ہیں افسانے بھی

ساغر صدیقی
 

طارق شاہ

محفلین

مجھ کو پُھولوں سے شِکایت ہے نہ کانٹوں سے گِلہ
میں تِرے جلوۂ رُخسار کا دَم بھرتا ہُوں

میں نہیں شیخ و برہمن کی عقیدت کا مزار
بندگی اپنے خیالوں کی کِیا کرتا ہُوں

ساغرصدیقی
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

کون کہتا ہے کسی یار کو مِس کرتا ہُوں
آج کل سنگتِ اغیار کو مِس کرتا ہُوں

کام دوہرا ہے مگر سلسلہ چل جاتا ہے
سانس لیتے ہُوئے سرکار کو مِس کرتا ہُوں

میری چُھٹّی تو اُداسی میں گُزر جاتی ہے
میں زیادہ تُجھے اِتوار کو مِس کرتا ہُوں

فضل عباس
 

طارق شاہ

محفلین

خواب یُوں آنکھ کے حصار میں ہے
جیسے نغمہ کوئی سِتار میں ہے

دُھول چَھٹ جائے تو نظر آئے
ایک منظر ابھی غُبار میں ہے

ایک دل ہی پر اختیار نہیں
ورنہ سب کچھ تو اختیار میں ہے


احتشام اختر
 

طارق شاہ

محفلین

عِشق کے مُفتی نے یُوں فتوٰی دِیا
دیکھنا خُوباں کا درسِ خُوب ہے

غمزہ و ناز و ادائے نازنیں
ظلم ہے، طوفان ہے، آشوب ہے

ہر گھڑی پڑھتا ہے اشعارِ ولی
جس کو حرفِ عاشقی مرغُوب ہے

ولی دکنی
 

طارق شاہ

محفلین

مجھ سےغم دست و گریباں نہ ہُوا تھا، سو ہُوا
چاک سینے کا، نُمایاں نہ ہُوا تھا سو ہُوا

اب تلک مجھ کو کسی شخص کے چہرے کا خیال
صورتِ آئینۂ جاں ، نہ ہُوا تھا سو ہُوا

صفِ عُشّاق میں کوئی ثانیِ مجنُوں مجھ سا !
وحشیِ کوہ و بیاباں ، نہ ہُوا تھا سو ہُوا

آہِ سوزاں سے مِرے دامنِ صحرا میں سراج !
قبر مجنُوں پہ چراغاں ، نہ ہُوا تھا سو ہُوا

سراج اورنگ آبادی
 
Top