طارق شاہ
محفلین
جان ہے بے قرار سی ، جسم ہے پائمال سا
اب نہ وہ داغ، وہ جگر، صرف ہے اِک خیال سا
چاہیئے عِشق میں مجھے، آپ ہی کا جمال سا
داغ ہر ایک بدر سا، زخم ہر اِک ہلال سا
دِل پہ مِرے گرائی تھیں تم نے ہی بجلیاں، مگر
آؤ نظر کے سامنے، مجھ کو ہے احتمال سا
حُسن کی سحرکاریاں، عِشق کے دِل سے پُوچھئے
وصل کبھی ہے ہجر سا، ہجر کبھی وصال سا
گُم شدگانِ عشق کے شان بھی کیا عجیب ہے !
آنکھ میں اِک سرُور سا، چہرے پہ اِک جلال سا
یاد ہے آج تک مجھے پہلے پہل کی رسم و راہ
کچھ اُنہیں اجتناب سا، کچھ مجھے احتمال سا
جگر مراد آبادی