شیزان

لائبریرین
حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارہ ہے
تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارہ ہے

کسی چراغ میں ہم ہیں ،کسی کنول میں تم
کہیں جمال ہمارا ، کہیں تمہارا ہے

ہر اک صدا جو ہمیں باز گشت لگتی ہے
نجانے ہم ہیں دو بارا کہ یہ دوبارا ہے

وہ منکشف مِری آنکھوں میں ہو کہ جلوے میں
ہر ایک حُسن کسی حُسن کا اشارا ہے

کہیں پہ ہے کوئی خوشبو کہ جِس کے ہونے کا
تمام عالمِ موجود ، استعارا ہے

وہ کیا وصال کا لمحہ تھا، جس کے نشے میں
تمام عمر کی فرقت ہمیں گوارا ہے

نجانے کب تھا! کہاں تھا ! مگر یہ لگتا ہے
یہ وقت پہلے بھی ہم نے کبھی گذارا ہے

عجب اصول ہیں اس کارو بار دنیا کے
کسی کا قرض ، کسی اور نے اتارا ہے

یہ دو کنارے تو دریا کے ہوگئے ، ہم تم
مگر وہ کون ہے جو تیسرا کنارہ ہے

امجد اسلام امجد
 
آخری تدوین:

شیزان

لائبریرین
شب ِ جدائی اگر تو ہے عمر میں شامل
تو پھر گزر بھی کسی عمرِ مختصر کی طرح

عدیمؔ ہاشمی
 

طارق شاہ

محفلین

دِلوں میں گردِ کدُورت، لبوں پہ خاموشی
بڑے فساد کا ساماں سکوتِ شہر میں تھا

وہ ہم ہی تھے کہ رہے ہرنظرمیں بیگانے
کوئی مزاج شناسا نہ سارے شہر میں تھا

باقر زیدی
 

طارق شاہ

محفلین

حشر کے دن، مجھے سچ کہنے کی توفیق نہ دے
کوئی ہنگامہ بپا ہو ، مجھے منظور نہیں

حفیظ جالندھری
 

طارق شاہ

محفلین

کیوں ہجر کے شکوے کرتا ہے، کیوں درد کے رونے روتا ہے
اب عشق کِیا، تو صبر بھی کر! اِس میں تو یہی کچھ ہوتا ہے

حفیظ جالندھری
 

طارق شاہ

محفلین

باغِ ہستی میں عجب شے ہے نہالِ آرزو
جس قدر بڑھتا گیا یہ ، بے ثمر ہوتا گیا

حفیظ جالندھری
 

طارق شاہ

محفلین

وقتِ پیدائش جو گریہ تھا، بدستور اب بھی ہے
ابتدا میں جو ہُوا ، وہ عمر بھر ہوتا گیا

حفیظ جالندھری
 

طارق شاہ

محفلین

بہلنا کب رہا مُمکن، کِسی حیلے بہانے سے
حقیقت پر بسر کرنی پڑے گی زندگی مجھ کو

لطیف سیڈا
 

اوشو

لائبریرین
فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک ، یا دامنِ یزداں چاک
 

اوشو

لائبریرین
تاک میں دشمن بھی تھے اور پشت پر احباب بھی
پہلا پتھر کس نے مارا ، یہ کہانی پھر سہی
 
Top