اوشو

لائبریرین
پلٹ کے دیکھا تو کچھ بھی نہ تھا ہوا کے سوا
جو میرے ساتھ تھے جانے کدھر گئے چپ چاپ
 

اوشو

لائبریرین
کسی دیوار سے ٹکرایا نہ در سے گزرا
وقت، حیرت ہے خدا جانے کدھر سے گزرا
 

اوشو

لائبریرین
میری حیات میرے ساتھ کیوں بسر نہ ہوئی
سفید بال ہوئے اور مجھے خبر نہ ہوئی
 

اوشو

لائبریرین
چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے
 

طارق شاہ

محفلین

اب تو چہروں پہ بھی کتبوں کا گماں ہوتا ہے
آنکھیں پتھرائی ہُوئی ہیں ، لبِ گویا کیسا

احمد فراز
 

طارق شاہ

محفلین

چراغ ہُوں‌ کب سے جل رہا ہُوں، مجھے دُعاؤں میں یاد رکھیے
جو بُجھ گیا تو سحر نُما ہُوں، مجھے دُعاؤں میں یاد رکھیے

وہ بات جو آپ کہہ نہ پائے، مِری غزل میں بیاں‌ ہُوئی ہے
میں آپ کا حرفِ مُدّعا ہُوں، مجھے دُعاؤں میں یاد رکھیے

ڈاکٹر پیرزادہ قاسم
 

طارق شاہ

محفلین

جب تجھ سے ذراغافِل ٹھہرے، ہر یاد نے دل پر دستک دی
جب لب پہ تمھارا نام نہ تھا، ہر دُکھ نے پُکارا اُس دن تھا

احمد فراز
 

طارق شاہ

محفلین

بُجھے چراغ جلانا اُسی کو آتا ہے
خِزاں میں پُھول کِھلانا اُسی کو آتا ہے

وہ سامنے ہو تو، پھر کچھ نظر نہیں آتا
دل و نگاہ پہ چھانا اُسی کو آتا ہے

متاعِ حُسن کو شرم و حیا کے آنچل میں
چُھپا چُھپا کے دِکھانا اُسی کو آتا ہے

اُسی کے آنے سے شاخوں پہ پھول آتے ہیں
بہار اوڑھ کے آنا ، اُسی کو آتا ہے

وہ گیت ہو کہ غزل ، سب اُسی کی باتیں ہیں
سُخن کو راہ دِکھانا اُسی کو آتا ہے

کوئی بتائے کہاں تک، مہارتیں اُس کی !
ہر ایک کارِ زمانہ اسی کو آتا ہے

باقر زیدی
 

طارق شاہ

محفلین

تُو اپنے دل سے غیر کی اُلفت نہ کھو سکا !
میں چاہوں اورکو تو یہ مجھ سے نہ ہو سکا

خواجہ میر درد
 
Top