کاشفی

محفلین
کہیں جو پھول محبت کے کِھلنے لگتے ہیں
دلوں کے جلتے ہوئے زخم سلنے لگتے ہیں

سیاست اپنی وہی رخنہ ڈال دیتی ہے
محبتوں سے جہاں لوگ ملنے لگتے ہیں

ہمارے رہنما کیا چلیں گے کانٹوں پر
کہ ان پاؤں تو پھولوں سے چھلنے لگتے ہیں

(منظر بھوپالی)
 

کاشفی

محفلین
کیا ہے ثابت یہ کربلا نے کہ مومنوں کو
سوا خدا کے جھکانے والا کوئی نہیں ہے

(منظر بھوپالی)
 

کاشفی

محفلین
اُس کی ایڑی طور کی چوٹی لگتی ہے
ماں کے پاؤں سے جنت چھوٹی لگتی ہے

(ڈاکٹر نواز دیوبندی)
 

کاشفی

محفلین
گرم اس رشتے کے سائے، سرد اس رشتے کی دھوپ
ماں کو آتا ہے پسینہ دیکھ کر بیٹھے کی دھوپ

دھیان رکھنا جل نہ جائیں تیرے گملے کے گلاب
تیرے آنگن میں اُتر آئے اگر پیسے کی دھوپ

(نواز دیوبندی)
 

کاشفی

محفلین
دھوپ کو سایہ، زمیں کو آسماں کرتی ہے ماں
ہاتھ رکھ کر میرے سر پر سائباں کرتی ہے ماں

میری خواہش اور میری ضد اس کے قدموں پہ نثار
ہاں کی گنجائش نہ ہوں تو پھر بھی ہاں کرتی ہے ماں

(نواز دیوبندی)
 

کاشفی

محفلین
اُس کے ہاتھوں جو لُٹے گا وہ گھرانہ تم ہو
کوئی دشمن نہیں، تیروں کا نشانہ تم ہو

یاد کرلو تمہیں قرآں نے بشارت دی ہے
تم مٹو گے نہیں، تقدیرِ زمانہ تم ہو

(منظر بھوپالی)
 

کاشفی

محفلین
تمام عُمر لڑائی لڑو اصولوں کی
جو جی سکو تو جیو زندگی رسولوں کی

میں قبر تک تو گھسیٹا گیا ہوں کانٹوں پر
میرے مزار پہ چادر چڑھاؤ پھولوں کی

یہ اُن کے پاؤں کے چھالوں سے پیار کرتے ہیں
کہاں سے لاؤ گے تم قسمتیں ببلوں کی

(منظر بھوپالی)
 

کاشفی

محفلین
ستمگروں کی ستم کی اُڑان کچھ کم ہے
ابھی زمیں کے لیئے آسمان کچھ کم ہے

بنا رہا ہے فلک بھی عذاب میرے لئے
تیری زمین پہ کیا امتحان کچھ کم ہے

ہمارے شہر میں سب خیروعافیت ہے مگر
یہی کمی ہے کہ امن و امان کچھ کم ہے

(منظر بھوپالی)
 

کاشفی

محفلین
ہماری جیب سے جب بھی قلم نکلتا ہے
سیاہ شب کے خداؤں کا دم نکلتا ہے

تمہارے وعدوں کا قد بھی تمہارے جیسا ہے
کبھی جو ناپ کے دیکھو تو کم نکلتا ہے

یہ اتفاق ہے منظرکہ کوئی سازش ہے
ہمیشہ کیوں مرے گھر سے ہی بم نکلتا ہے

(منظر بھوپالی)
یہ کچھ اس طرح بھی ہے۔۔۔
ہماری جیب سے جب بھی قلم نکلتا ہے
سیاہ شب کےیزیدوں کا دم نکلتا ہے

تمہارے وعدوں کا قد بھی تمہارے جیسا ہے
کبھی جو ناپ کے دیکھو تو کم نکلتا ہے

یہ اتفاق ہے منظرکہ کوئی سازش ہے
ہمیشہ کیوں مرے گھر سے ہی بم نکلتا ہے
 
آخری تدوین:

کاشفی

محفلین
جسمِ یٰسین کو سائے سے الگ رکھا ہے
نُور کو اُس نے اندھیرے سےالگ رکھا ہے

ایک نقطہ بھی گوارا نہیں اپنی طرح
نامِ محبوب کو نقطے سے الگ رکھا ہے

فاصلہ عشق کی شدّت کو بڑھا دیتا ہے
اس لیئے کعبہ مدینے سے الگ رکھا ہے

(منظر بھوپالی)
 

کاشفی

محفلین
تھی وہ رفتار کہ لمحوں میں خلا تک پہنچے
تم گئے چاند تلک، ہم تو خدا تک پہنچے

حُسن دنیا کی ہر ایک شے میں بہت ہے لیکن
کوئی ایسا نہیں جو اُس کی ادا تک پہنچے

یہ جو آجاتی ہیں جذبوں کے پروں سے اُڑ کر
ہاتھ تو اُٹھے مگر دل بھی تو وا تک پہنچے
(منظر بھوپالی)
 

طارق شاہ

محفلین
یہ کچھ اس طرح بھی ہے۔۔۔
ہماری جیب سے جب بھی قلم نکلتا ہے
سیاہ شب کےیزیدوں کا دم نکلتا ہے

تمہارے وعدوں کا قد بھی تمہارے جیسا ہے
کبھی جو ناپ کے دیکھو تو کم نکلتا ہے

یہ اتفاق ہے منظرکہ کوئی سازش ہے
ہمیشہ کیوں مِرے گھر سے ہی بم نکلتا ہے
منظر بھوپالی صاحب زود گو ہی نہیں ، غضب گو اور بلا گو بھی ہیں
تشکّر ان کا کلام شیئر کرنے پر کاشفی صاحب
:)
 
آخری تدوین:
Top