بیگانہ ہوکے سارے جہاں سے جُدا ہُوا !
اے عالم آشنا ! جو تِرا آشنا ہُوا
میں مِٹ گیا تو، وہ بھی مِرے ساتھ مِٹ گیا
سائے سے خُوب حقِ رفاقت ادا ہُوا
پچھتا رہے ہیں خُون مِرا کرکے کیوں حضُور !
اب اِس پہ خاک ڈالیے ، جو کچھ ہُوا، ہُوا
زائل ہُوئی نہ بھیس بدلنے سے بُوئے عِشق
تصویر میں بھی رنگ ہے رُخ سے اُڑا ہُوا
بوسہ طلب کِیا تو، یہ کہنے لگا وہ بُت!
قُدرت خُدا کی تم کو بھی یہ حوصلہ ہُوا
آٹھوں پہر ہے جلوۂ معشوق سامنے
ہے مُدّتوں سے بیچ کا پردہ اُٹھا ہُوا
حُور آگئی نظر، کہ پری کوئی دیکھ لی
سودا سا ہے امِیر کو ، کیا جانے کیا ہُوا
امیر مینائی