طارق شاہ

محفلین

بہرا ہُوں میں تو چاہیے، دُونا ہو اِلتفات
سُنتا نہیں ہُوں بات مکرّر کہے بغیر

اسداللہ خاں غالب
 

طارق شاہ

محفلین

اُس کی آنکھوں کو نہ دیکھا کبھی دِینْداروں نے
جُرمِ نظّارہ عَبث میری نَظر پر رکھّا

غلام ہمدانی مصحفی
 

طارق شاہ

محفلین

کیا بَچُوںْگا میں کہ ، دل کے مِرے خَمیازوں نے
ایک ٹانکہ، نہ میرے زخمِ جگر پر رکھّا

غلام ہمدانی مصحفی
 

طارق شاہ

محفلین

مُصحفی چاہئے کیا پھر اُسے اُٹھ چَلنے کو
جس مسافر نے کہ، دِل اپنا سفر پر رکھّا

غلام ہمدانی مصحفی
 

طارق شاہ

محفلین

کیوں نہ دل، دیکھ اُسے ہاتھ سے جاوے یکبار
ایسے ہی ناز سے ہاتھ اُن نے کمر پر رکھّا

غلام ہمدانی مصحفی
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

کیا بُرائی جو رہے مُصحفی نِت یاں بیٹھا
تم یہی جانیو، دربان ہے در پر رکھّا

غلام ہمدانی مصحفی
 

طارق شاہ

محفلین

عجیب رُت تھی کہ، ہرچند پاس تھا وہ بھی
بہت ملول تھا میں بھی، اُداس تھا وہ بھی

ہم اپنے زعم میں خوش تھے کہ اُس کو بُھول چُکے
مگر گُمان تھا یہ بھی ، قیاس تھا وہ بھی

کہاں کا اب غمِ دنیا، کہاں کا اب غمِ جاں
وہ دن بھی تھے کہ، ہمیں یہ بھی راس تھا، وہ بھی

احمد فراز
 

طارق شاہ

محفلین

بیگانہ ہوکے سارے جہاں سے جُدا ہُوا !
اے عالم آشنا ! جو تِرا آشنا ہُوا

میں مِٹ گیا تو، وہ بھی مِرے ساتھ مِٹ گیا
سائے سے خُوب حقِ رفاقت ادا ہُوا

پچھتا رہے ہیں خُون مِرا کرکے کیوں حضُور !
اب اِس پہ خاک ڈالیے ، جو کچھ ہُوا، ہُوا

زائل ہُوئی نہ بھیس بدلنے سے بُوئے عِشق
تصویر میں بھی رنگ ہے رُخ سے اُڑا ہُوا

بوسہ طلب کِیا تو، یہ کہنے لگا وہ بُت!
قُدرت خُدا کی تم کو بھی یہ حوصلہ ہُوا

آٹھوں پہر ہے جلوۂ معشوق سامنے
ہے مُدّتوں سے بیچ کا پردہ اُٹھا ہُوا

حُور آگئی نظر، کہ پری کوئی دیکھ لی
سودا سا ہے امِیر کو ، کیا جانے کیا ہُوا

امیر مینائی
 

طارق شاہ

محفلین

غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن اے دوست !ٓ
وہ تیری یاد میں ہُوں ، یا تجھے بُھلانے میں

فراق گورکھپوری
 

طارق شاہ

محفلین

اُلجھنوں سے سے گھبرائے مے کدے میں در آئے
کِس قدر تن آساں ہے ذوق رائیگاں اپنا

اسرارالحق مجاز
 
Top