طارق شاہ

محفلین

ٹپکے اُن پر رال برابر
گھر کی مُرغی دال پرابر

چلتے ہیں صاحب بھی خِراماں
کوّے ہنس کی چال برابر

پیری میں بھی حال وہی ہے
ڈالیں اب بھی جال برابر

کردی اُس کے فُرق نےتیری
ساری ہڈی کھال برابر

اُس چہرے کا خاک سنورنا
جس پر پیلا ، لال برابر

اِتراتے ہیں حُسن پہ اپنے
آنکھیں جن کی دال برابر

شفیق خلش
 

طارق شاہ

محفلین

یہ آنا کوئی آنا ہے ، کہ بس رسماََ چلے آئے
یہ مِلنا خاک مِلنا ہے کہ دل سے دل نہیں مِلتا

اسرارالحق مجاز
 

طارق شاہ

محفلین

خِرَد والوں سے حُسن و عِشق کی تنقِید کیا ہوگی
نہ افسونِ نِگاہ سمجھا، نہ اندازِ نظر جانا

اسرارالحق مجاز
 

طارق شاہ

محفلین

غمِ دَوراں میں گُزری، جس قدر گُزری جہاں گُزری
اور اُس پر لطف یہ ہے زندگی کو مختصر جانا

اسرارالحق مجاز
 

طارق شاہ

محفلین

میری دُنیا جگمگا اُٹھّی کِسی کے نُور سے
میرے گردوں پر مِرا ماہِ تمام آ ہی گیا

جُھوم جُھوم اُٹھّے شجر، کلِیوں نے آنکھیں کھول دیں !
جانبِ گُلشن کوئی مستِ خرام آ ہی گیا

اسرارالحق مجاز
 

طارق شاہ

محفلین

سُنا تو ہے کہ ، کبھی بے نیازِغم تھی حیات
دِلائی یاد نِگاہوں نے تیری ، کب کی بات

زماں مکاں ہے فقط مد وجزرِ جوشِ حیات
بس ایک موج کی ہیں جَھلکِیاں قرار و ثبات

سکوُتِ راز وہی ہے جو داستاں بن جائے
نگاہِ ناز وہی جو نِکالے بات میں بات

فِضا میں مہکی ہُوئی چاندنی، کہ نغمۂ راز
کہ اُتریں سینۂ شاعر میں جس طرح نغمات

تمام خستگی و ماندگی ہے عالمِ ہجر
تھکے تھکے سے یہ تارے، تھکی تھکی سی یہ رات

تِری غزل تو نئی رُوح پُھونک دیتی ہے
فراق! دیر سے چُھوٹی ہُوئی ہے نبضِ حیات

فراق گورکھپوری
 

کاشفی

محفلین
جس کو بھی آگ لگانے کا ہُنر آتا ہے
وہی ایوانِ سیاست میں نظر آتا ہے

خالی دامن ہیں یہاں پیڑ لگانے والے
اور حصے میں لٹیروں کے ثمر آتا ہے

یاد آجاتی ہے پردیس کئی بہنوں کی
جھُنڈ چڑیوں کا جب آنگن میں اُتر آتا ہے

(منظر بھوپالی)
 

طارق شاہ

محفلین

پُوچھا کِسی نے مجھ کو اُن سے کہ ، کون ہے یہ ؟
تو بولے ہنس کے، یہ بھی ہے اِک غلام میرا

انشاءاللہ خاں انشا
 

طارق شاہ

محفلین

ہاتھ اپنے کے سِوا اور تو کیا ہو ہیہات
والہ و در بہ در و خاک بسر کا تکیہ

انشاءللہ خاں انشا
 

طارق شاہ

محفلین

ہے مجھ کو ربط بسکہ غزالانِ رم کے ساتھ
چونکوں ہُوں دیکھ سائے کو اپنے قدم کے ساتھ

ہے ذاتِ حق جواہر و اغراض سے بری
تشبیہ کیا ہے اُس کو وجُود و عدم کے ساتھ

کوُئے بُتاں سے طوفِ حَرَم کو چلے تو ہم
لیکن کمالِ حسرت و حرمان و غم کے ساتھ

تھیں اپنی آنکھیں حلقۂ زنجیر کی نمط
پیوستہ ہِل رہی درِ بیت الصنم کے ساتھ

تم اور بات مانو اجی سب نظر میں ہے
دانتوں تلے زبان دبانی قسم کے ساتھ

اب چھیڑ چھاڑ کی غزل انشا اِک اور لکھ
ہیں لاکھ شوخیاں تِری نوکِ قلم کے ساتھ

انشاءاللہ خاں انشا
 

طارق شاہ

محفلین

اُٹھایا عِشق میں کیا کیا نہ دردِ سر میں نے !
حصُول پرمجھے، اس دردِ سر سے کچُھ نہ ہُوا

شبِ وصال میں بھی، میری جان کو آرام !
عزیزو! دردِ جُدائی کے ڈر سے کچُھ نہ ہوا

نہ دُوں گا دِل اُسے ، میں یہ ہمیشہ کہتا تھا
وہ آج لے ہی گیا، اور ظفر سے کچُھ نہ ہُوا

بہادر شاہ ظفر
 

طارق شاہ

محفلین

نہ ہُوں جن کے ٹِھکانے ہوش، وہ منزِل کو کیا پہنچے !
کہ رستہ ہاتھ آیا جس کی، ہوشیاری سے ہاتھ آیا

ہُوا حق میں ہمارے، کیوں ستم گار آسماں اِتنا
کوئی پوچھے کہ، ظالم کیا ستم گاری سے ہاتھ آیا

نہ کر ظالم دِل آزاری، جو دِل منظور ہے لینا
کِسی کا دِل جو ہاتھ آیا تو دِل داری سے ہاتھ آیا

بہادر شاہ ظفر
 

طارق شاہ

محفلین

گھر بساکر بھی مسافر کے مسافر ٹھہرے
لوگ دروازوں سے نِکلے کہ مہاجر ٹھہرے

دل کے مدفن پہ نہیں کوئی بھی رونے والا
اپنی درگاہ کے ہم خود ہی مجاور ٹھہرے

اِس بیاباں کی نگاہوں میں مروّت نہ رہی !
کون جانے کہ کوئی شرطِ سفر پھرٹھہرے

قیصرالجعفری
 

طارق شاہ

محفلین

پیار کا موسم بِیت چُکا تھا، بستی میں جب پُہنچے ہم
لوگوں نے پُھولوں کے بدلے تلواریں منگوالی تھیں

قیصر دِل کا حال سُناکر جب یاروں کا منہ دیکھا
سب کے چہرے سُوکھے سُوکھے، سب کی آنکھیں خالی تھیں

قیصرالجعفری
 

طارق شاہ

محفلین


پھر وہ پہلی سی، تھی جو بات نہ ہو جائے کہیں
دِل شناسائے خرابات نہ ہو جائے کہیں

دِل سے اپنے رہے خدشہ کہ تجھے دیکھ کے پھر
مُنحرف مجھ سے یہ بد ذات نہ ہو جائے کہیں

شفیق خلش
 
Top