طارق شاہ

محفلین

دُور رہتا ہُوں تو ڈرتا ہُوں، کہ اِس دُوری سے
سرد یہ شورشِ جذبات نہ ہو جائے کہیں

لوٹ آؤں جو تِرے شہر تو دھڑکا یہ رہے
پیار پھر شاملِ حالات نہ ہو جائے کہیں

شفیق خلش
 

طارق شاہ

محفلین

وہ دِن توتھے ہی حقیقت میں عُمْرکا حاصِل
خوشا وہ ِدن ، کہ ہمیں روز موت آتی تھی

ذرا سی بات سہی ، تیرا یاد آجانا !
ذرا سی بات بہت دیر تک رُلاتی تھی

ناصر کاظمی
 

کاشفی

محفلین
میرے پیاروں زمانے سے کوئی اُمید مت رکھنا
زمانہ کچھ نہیں دیتا، زمانہ چھین لیتا ہے

(منظر بھوپالی)
 

طارق شاہ

محفلین

اتنے خاموش کبھی رات کے تارے بھی نہ تھے
اور یوں مُہر بہ لب زخم ہمارے بھی نہ تھے

کیسی عُجلت میں کِیا اپنوں نے اقرارِ شکست !
جنگ غیروں سے مُکمل ابھی ہارے بھی نہ تھے

شب کی تزئین کی خاطر ہمیں جانا ہی پڑا
شام کے کام ابھی ہم نے سنْوارے بھی نہ تھے

کاغذی ناؤ تھی، منجدھار میں دم توڑ گئی
پاس پتوار بھی تھی، دُور کنارے بھی نہ تھے

رات تھی، ریت تھی، بے نُور سفر تھا، ہم تھے
سمت ناپید تھی، گردوں سے اشارے بھی نہ تھے

اُس کے پیکر کو سمجھنے میں ہُوئی عمر تمام
نقش اُس کے ابھی ہم نے تو اُبھارے بھی نہ تھے

کیوں زمانے نے ہدف ہم کو بنایا تھا ، کہ ہم
خاک زادے بھی نہ تھے، راج دُلارے بھی نہ تھے

آ گئے کرچیاں پھولوں کی لِئے، آج وہ پھر
ہم نے پہلے کے سب احسان اُتارے بھی نہ تھے

وزیر آغا
 

طارق شاہ

محفلین

جواز


کتنی سُنسان زندگی تھی
سب طاق میرے دِیے سے خالی
بے برگ و ثمر بدن کی ڈالی
کھڑکی پہ نہ آ کے بیٹھے چڑیا
آنگن میں بھٹک سکے نہ تِتلی
سنجوگ کی بے نمو رُتوں سے
میں کِتنی اُداس ہو چلی تھی
آواز کے سیلِ بے پناہ میں
میں تھی، میرے گھر کی خامشی تھی
پر دیکھ تو آ کے لال میرے
اس کلبۂ غم میں مجھ کو تیرے
آنے کی نوِید کیا مِلی ہے
جینے کا جواز مِل گیا ہے

پروین شاکر
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
جون غم کے ہجوم سے نکلے
اور جنازہ بھی دھوم سے نکلے
اور جنازے میں ہو یہ شور حزیں
آج وہ مر گیا جو تھا ہی نہیں ۔۔
جون ایلیاء.
 
Top