کاشفی

محفلین
زباں تو کھول، نظر تو ملا، جواب تو دے
میں کتنی بار لُٹا ہوں، تو مجھے حساب تو دے

ترے بدن کی لکھاوٹ میں ہے اُتار چڑھاؤ
میں تجھ کو کیسے پڑھوں گا، مجھے کتاب تو دے

(راحت اندوری)
 

کاشفی

محفلین
شام کے بعد جب تم سحر دیکھ لو
کچھ فقیروں کو کھانا کھلایا کرو

دوستوں سے ملاقات کے نام پر
نِیم کی پتیوں کو چبایا کرو

چاند سورج کہاں، اپنی منزل کہاں
ایسے ویسوں کو منہ مت لگایا کرو

(راحت اندوری)
 

کاشفی

محفلین
اُس کی کتھئی آنکھوں میں ہے جنتر منتر سب
چاقوں واقوں، چھریاں وریاں، خنجر ونجر سب

جس دن سے تم روٹھی، مجھ سے روٹھے روٹھے ہیں
چادر وادر، تکیہ وکیہ، بستر وستر سب

آخر میں کس دن ڈبونگا، فکریں کرتے ہیں
دریا وریا، کشتی وشتی، لنگر ونگر سب

(راحت اندوری)
 

کاشفی

محفلین
میرے ہُجرے میں نہیں اور کہیں پر رکھ دو
آسماں لائے ہو، لے آؤ، زمیں پر رکھ دو

اب کہاں ڈھونڈنے جاؤ گے ہمارے قاتل
آپ تو قتل کا الزم ہمیں پر رکھ دو

(راحت اندوری)
 

کاشفی

محفلین
افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب ہے، لوگوں نے پوچھ پوچھ کے بیمار کردیا
دو گز سہی مگر یہ میری ملکیت تو ہے، اے موت تونے مجھ کو زمیندار کردیا

(راحت اندوری)
 

کاشفی

محفلین
پاکستان اور انڈیا سے متعلق
سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا
کچھ پتہ تو کرو چناؤ ہے کیا

خوف بکھرا ہے دونوں سمتوں میں
تیسری سمت کا دباؤ ہے کیا

(راحت اندوری)
 

طارق شاہ

محفلین

عبرت انگیز ہے کیا اُس کی جواں مرگی بھی
ہائے وہ دل! جو ہمارا ، نہ تمھارا نِکلا

فراق گورکھپوری
 

طارق شاہ

محفلین

اب نہ وہ رات جب اُمیدیں بھی کچھ تھیں تُجھ سے
اب نہ وہ بات غمِ ہجر کے افسانوں میں

تابکے وعدۂ موہُوم کی تفصِیل فراق !
شبِ فُرقت کہیں کٹتی ہے اِن افسانوں میں

فراق گورکھپوری
 

طارق شاہ

محفلین

یوں بھی خِزاں کا رُوپ سُہانا لگا مُجھے
ہر پُھول فصلِ گُل میں پُرانا لگا مُجھے

میں کیا کِسی پہ سنگ اُٹھانے کی سوچتا
اپنا ہی جسم آئینہ خانہ لگا مُجھے

اے دوست! جُھوٹ عام تھا دُنیا میں اِس قدر
تُو نے بھی سچ کہا تو فسانہ لگا مُجھے

اَب اُس کو کھو رہا ہُوں بڑے اشتیاق سے
وہ جس کو ڈھونڈنے میں زمانہ لگا مُجھے

مُحسن ہجومِ یاس میں مرنے کا شوق بھی
جینے کا اِک حسِین بہانہ لگا مُجھے

مُحسن نقوی
 

طارق شاہ

محفلین

اے بے خُودئ دِل، مُجھے یہ بھی خبرنہیں
کِس دِن بہار آئی، میں دیوانہ کب ہُوا

ارشد علی خاں قلق
 

طارق شاہ

محفلین

دَم دِلاسے ہی میں ٹالا کِیے ہر روز آخر
سُوکھے گھاٹ اے گُلِ تر خُوب اُتارا مُجھ کو

میں یہاں منتظر وعدہ رہا، لیکن وہ !
رہ گئے اور کہیں دے کے سہارا مُجھ کو

ارشد علی خاں قلق
 

طارق شاہ

محفلین

شاہوں کی طرح کی ہے بسر دشتِ جنُوں میں
دِیوانوں کا ہمراہ مِرے غول رہا ہے

ارشد علی خاں قلق
 

طارق شاہ

محفلین

دل تو دِیا میزاں نہیں پٹتی نظر آتی !
نظروں میں وہ خوش چشم، مُجھے تول رہا ہے

ارشد علی خاں قلق
 

طارق شاہ

محفلین

ہوگا کرم جو شرفِ مُلاقات دیجیے
اب آ گئے ہیں آپ، توکچھ بات کیجیے

اپنی نقاب اُلٹ کے ذرا دِن نِکالیے
زُلفوں کو رُخ پہ ڈال کہ پھر رات کیجیے

کلیاں کِھلی ہیں دِل کی، تبسّم سے آپ کے
ہنس کر ذرا سی پُھولوں کی برسات کیجیے

پلکیں اُٹھا کے جام نظر سے پلائیے
ہر فکرِ دو جہان کو پھر مات کیجیے

موسم حسِیں ہے، آپ حسِیں، دل جوان ہیں
اب اِس کے آگے کُچھ نہ سوالات کیجیے

کُچھ دیر ہی سہی، غمِ دَوراں کو بُھول جائیں
طارق کُچھ ایسے، آج تو حالات کیجیے

محمد طارق
نیو دہلی ، انڈیا
 

کاشفی

محفلین
نظر ملا نہ سکے اُس سے اُس نگہ کے بعد
وہی ہے حال ہمارا جو ہو گناہ کے بعد

(کرشنا بہاری نور)
 

کاشفی

محفلین
ہوس نے توڑ دی برسوں کی سادھنا میری
گناہ کیا ہے یہ جانا مگر گناہ کے بعد

(کرشنا بہاری نور)
 

کاشفی

محفلین
وہ کیا ہے، کون ہے، کیسے کوئی نظر جانے
وہ اپنے آپ میں چھپنے کے سب ہُنر جانے

(کرشنا بہاری نور)
 

کاشفی

محفلین
اب تو لے دے کے وہی شخص بچا ہے مجھ میں
مجھ کو مجھ سے جو جدا کرکے چھپا ہے مجھ میں

(کرشنا بہاری نور)
 
Top