طارق شاہ

محفلین

ہر ایک شکل کو دِل سے نِکال کر رکھّا
یہ آئِنہ تِری خاطر سنْبھال کر رکھّا
جو دِل دُکھا بھی تو، ہونٹوں نے پُھول برسائے
خوشی کو ہم نے شریکِ مَلال کر رکھّا

ناصر کاظمی
 

طارق شاہ

محفلین

خوشبیرسنگھ شاد

یہ مُمکن ہے، کہ میرا زعم یہ بھی جبر کرجائے
انا زندہ رہے میری، تِرا احساس مر جائے

یہ جن رنگوں سے تُو نے خال و خد اِس کے سنْوارے ہیں
کہیں ایسا نہ ہو تصویر کا چہرہ اُتر جا ئے

اِدھر یہ خُشک پتّے، اور اُدھر صحرا کی آوازیں !
ہَوا اِس کشمَکش میں ہے کہ جائے تو کِدھر جائے

نئے ٹھوکر کو اِس سے کیا، ابھی اِک چوٹ تازہ ہے
نئے زخموں نے کب سوچا، پُرانا زخم بھر جائے

جسے تخلیق میں ہر لفظ کو اِک شکل دینی ہو
اگر وہ روشنائی، کورے کاغذ پر بکھر جائے

یہ گھر تاریکیوں کی زد پہ، جانے کب سے ہے سورج !
اگر کچھ دُھوپ تیری، دل کے آنگن سے گزر جائے

زباں کی نوک پر بھی رکھ کے مت چکھنا اُداسی کو
یہ زہرِ شب، بھروسہ کیا رگ و پے میں اُتر جائے

مجھے تم ، مسئلہ اپنا، بتاؤ تو خِرد والو!
یہ مُمکن ہے مِری دیوانگی کچھ کام کرجائے

بکھرتے وقت، شاد اُس پُھول کی اِتنی سی خواہش تھی
جہاں تک ہو سکے، پہلے مِری خوشبو بکھر جائے

خوشبیرسنگھ شاد
 
دلِ مضطر کو سمجھایا بہت ہے
مگر اس دل نے تڑپایا بہت ہے
تبسم بھی، حیا بھی، بے رخی بھی
یہ اندازِ ستم بھایا بہت ہے
قیامت ہے یہ ترکِ آرزو بھی
مجھے اکثر وہ یاد آیا بہت ہے
رہِ ہستی کے اس جلتے سفر میں
تمہاری یاد کا سایہ بہت ہے
 
Top