کاشفی

محفلین
کسی منزل پہ ٹھہرنا ہے نہ گھر رہنا ہے
ہم ہیں سورج ہمیں سرگرمِ سفر رہنا ہے

سر کٹانے کے لیئے جنگ میں ہم ہیں موجود
رہنماؤں کو تو آرام سے گھر رہنا ہے

سستی شہرت کی حویلی پہ نہ اِترا منظر
کچھ دنوں کے بعد نہ دیوار نہ در رہنا ہے

(منظر بھوپالی)
 

کاشفی

محفلین
بیان کرنے کے قابل کوئی کہانی دے
میرے خُدا میرے الفاظ کو معنی دے

کسی کا دل جو دُکھائے میری زباں یارب
تو مجھ فقیر کو توفیقِ بےزبانی دے

زمیں پہ لفظ بھی آوارہ ہوگئے ہیں بہت
ہمیں کتاب کوئی دے تو آسمانی دے

(معراج فیض آبادی)
 

کاشفی

محفلین
ہمارے بہتے پسینے کی ہم کو قیمت دے
ہمیں یہ بھیک نہ دے لا ہماری اُجرت دے

یہ جھوٹی شان اگر شرطِ حاضری ٹھہری
تو اُس سے کہہ دو کہ درویش کو اجازت دے

یہ کہہ کے اُٹھ گیا بھوکا تیری گلی سے فقیر
خدائے پاک تیری روٹیوں میں برکت دے

(معراج فیض آبادی)
 

کاشفی

محفلین
جو تھے سیاسی گھرانے والے، سب ایک نکلے
بجھانے والے، جلانے والے، سب ایک نکلے

حرام کے رزق میں کوئی امتیاز کیسا
کہ کھانے والے، کھلانے والے، سب ایک نکلے

ہمارے ماضی کی اک عمارت یہ کہہ رہی ہے
بچانے والے، گِرانے والے، سب ایک نکلے

(معراج فیض آبادی)
 

کاشفی

محفلین
انجام اُس کے ہاتھ ہے، آغاز کر کے دیکھ
بھیگے ہوئے پروں سے ہی پرواز کر کے دیکھ

(نواز دیوبندی)
 

کاشفی

محفلین
تمہیں ملا صبح نو کا تحفہ، ہماری قسمت میں رات نکلی
تمہارے حصے میں جیت آئی، ہمارے حصے میں مات نکلی

رہا نہیں آج دل پہ قابو، چھلک پڑے آنکھ سے جو آنسو
تو میں سمجھا اسی بہانے، تمہارے غم کی زکوات نکلی

(ممتاز نسیم ، ہندوستان)
 

کاشفی

محفلین
رنگ ہی رنگ ہوں صرف جس میں ایسی تحریر کیوں مانگتے ہو
جب میں خود ہوگئی ہوں تمہاری، میری تصویر کیوں مانگتے ہو

(ممتاز نسیم ، ہندوستان)
 

طارق شاہ

محفلین

تِرا ہر کمال ہے ظاہری، تِرا ہر خیال ہے سرسری !
کوئی دِل کی بات کرُوں تو کیا، تِرے دِل میں آگ تو ہے نہیں

ناصر کاظمی
 

طارق شاہ

محفلین

یہی شعرہیں مِری سلطنت، اِسی فن میں ہے مجھے عافیت
مِرے کاسۂ شب و روز میں، تِرے کام کی کوئی شے نہیں

ناصر کاظمی
 

طارق شاہ

محفلین

راستے میں جہان پڑتاہے
پھر وہ کچّا مکان پڑتا ہے

ہجر کے ہیں کئی عِلاج مگر
سب سے سستا گُمان پڑتا ہے

چار دِن کا ہے مکتبِ ہستی
اُس میں بھی اِمتحاں پڑتا ہے

فہمی بدایونی
 

طارق شاہ

محفلین
تازہ ترین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


افتخار عارف

مہک رہے ہیں جو یہ پُھول لب بہ لب مِری جاں
جو تم نہیں ہو تو ، پھر کون ہے سبب مِری جاں

اُداسیوں بھری شامیں جہاں سے آتی ہیں !
وہیں سے آئی ہے، یہ ساعتِ طرب مِری جاں

مِری کتابیں، مِرا کرب اور مِری آنکھیں !
تمھارے ہجر میں جاگے ہیں سب کے سب مِری جاں

تمھارے ساتھ جو گزرے، تمھاری یاد کے ساتھ !
نہ ویسے دن کبھی گزرے، نہ ویسی شب مِری جاں

بہم ہُوئے ہیں، ذرا دیر کو تو خوش ہولیں !
کسے خبر کہ بچھڑ جائے کون، کب مِری جاں

کوئی دن اور کہ ، ہوجائیں گے فسانہ ہم !
ہماری یاد ستائے گی تم کو تب مِری جاں

بُہت دِنوں میں کہی میں نے اِس طرح کی غزل
وگرنہ دل کی یہ حالت ہُوئی تھی کب مِری جاں

افتخار عارف
 

طارق شاہ

محفلین

جیسے جیسے قربتوں سے، فاصلے بڑھتے گئے
ویسے ویسے زندگی میں حادثے بڑھتے گئے

شہر میں پہلے بھی تھے، لیکن کہیں چند ایک تھے
غم زیادہ ہو گئے تو میکدے بڑھتے گئے

ٹھہرے پانی میں اُچھالا اُس نے وہ پتھر، کہ سب
بُھولے بسرے غم کے میرے دائرے بڑھتے گئے

رفتہ رفتہ سب تعلّق شہر سے ٹُوٹے مِرے !
اِک تمھاری ہی گلی سے رابطے بڑھتے گئے

محمد نوید انجم
 

کاشفی

محفلین
سزا دیجئے مجھ کو، خطا کررہی ہوں
نمازِ محبت ادا کررہی ہوں

ناجانے برا یا بھلا کررہی ہوں
میں دشمن کے حق میں دعا کررہی ہوں

میرے دوست دریا کنارے کھڑے ہیں
میں طوفان کا سامنا کررہی ہوں

دیئے زخم جس نے مجھے زندگی بھر
اُسی کے لیئے میں دعا کررہی ہوں

(شیاما سنگھ صبا)
 
آخری تدوین:

کاشفی

محفلین
ہجر کی آگ میں اک دن، دل یہ کاغذ کا جل جائے گا
اتنی شدّت سے مت یاد آ، ورنہ دم ہی نکل جائے گا

(طارق سبزواری)
 
Top